وضعداری نہ تکلف نہ لطافت سمجھا
دل کم فہم مروت کو محبت سمجھا
قند میں لپٹا ہوا زہر تھا سب راز و نیاز
میں کہ محروم وفا اس کو عنایت سمجھا
وہ تو فراز نے بھی کہا تھادوست ہو تا نہیں ہاتھ ملانے والا ،پھر یہ تو اور بھی اذیت ناک ہے کہ جب ہاتھ دکھانے والے ملیں ۔بات کرتا ہے تو دامن بھی بچا جاتا ہے۔ کیا کریں ایسے ہی لوگوں کے درمیان میں جینا پڑتا ہے یا وہ جو ہمارے درمیان لطف اندوز ہوتے ہیں۔ ہماری حماقتوں پر قہقہہ بار ہوتے ہیں۔ سیاست میں تو محبت کی نہیں مفاد کی
هفته 27 فروری 2021ء
سعد الله شاہ
ایک کتابی شخص زاہد ڈار
جمعرات 25 فروری 2021ءسعد الله شاہ
توڑ ڈالے ہیں جو دریا نے کنارے سارے
کون دیکھے گا تہہِ آب نظارے سارے
نظر انداز کیا میں نے کبھی اس دنیا کو
اور دنیا نے بھی پھر قرض اتارے سارے
میں نے کبھی ایک فلم دیکھی تھی God forgives but I don't خدا معاف کر دیتا ہے مگر میں نہیں۔سچ مچ انسان میں اتنا حوصلہ ہی نہیں۔ یہ تو ظرف کی بات ہے تم ذرا چھیڑ کے دیکھو تو سہی دنیا کو۔ ۔ مجھے اس قسم کی تمہید سے ایک منفرد اور معصوم کردار زاہد ڈار پر لکھناہے کہ وہ اپنی شرائط پر ہی جیئے اور چلے گئے۔ آپ سب کو اپنی
مزید پڑھیے
مزید پڑھیے
خوابوں سے بنی ایک شاعرہ۔یادیں
منگل 23 فروری 2021ءسعد الله شاہ
شام فراق یار نے ہم کو اداس کر دیا
بخت نے اپنے عشق کو حسرت و یاس کر دیا
اپنی تو بات بات سے آتی ہے یوں مہک کہ بس
جیسے ہمیں بھی یار نے پھولوں کی باس کر دیا
آج ذرا سیاست سے ہٹ کر بات ہو گی کہ اسلام آباد سے ہمارے محبوب ظفر کا فون آیا اور پوچھنے لگے کہ ثمینہ راجا کے کلیات کی فائل کہیں سے مل جائے کہ بھارت میں ان پر پی ایچ ڈی ہو رہی ہے۔ خیر باتوں باتوں میں یادوں کا دبستان کھل گیا۔ مجھے یاد آیا کہ جب ہم لوگ ایک دوسرے سے کلام
مزید پڑھیے
مزید پڑھیے
آنسو نکل پڑے ہیں خریدار دیکھ کر
پیر 22 فروری 2021ءسعد الله شاہ
عشق کیا ہے فقط سحر باریابی ہے
اور اس کے بعد جو عمروں کی نیم خوابی ہے
میں ایک جھیل کی صورت ہوں آئینے کی طرح
کسی کے دم سے یہ باطن بھی ماہتابی ہے
بس یونہی بیٹھے بیٹھے میں رومانس کی وادی میں جا نکلا۔رنگ نے سارے اکھاں دے‘پھل تے کسے وی رنگ دے نیئں‘‘ بس اپنی اپنی فوج ہے کیا کریں اگر خود فریبی میں پناہ نہ لیں تو کیا کریں۔
غالب بھی تو گھبرا گیا تھا ’۔تواور آرائش خم کاکل۔ میںاور اندیشہ ہائے دور و دراز‘ سرکھپاتا ہوں کار دنیا میں،میں کہاں اور یہ وبال کہاں‘ مگر صاحب کیا کریں اغماض
مزید پڑھیے
مزید پڑھیے
ہوائے شمال اور چراغ
اتوار 21 فروری 2021ءسعد الله شاہ
تمہاری یاد کا اب تک چراغ جلتا ہے
عجیب لذت غم ہے کہ داغ جلتا ہے
مجھے تو رونا ہے جی بھر کے مجھ کو رونے دو
وگرنہ شعلہ دل سے دماغ جلتا ہے
چراغ تو چراغ ہے اسے جلنا ہے چاہے آپ اسے ہوا کے دوش پہ رکھ دیں کہ بجھ گئے تو ہوا سے شکائتیں کیسی‘وہی کمال ہوتے ہیں جو چراغ راہ بن جاتے ہیں۔ مگر کوئی ایسا بھی ہے کہ چراغ لے کر انسان ڈھونڈ رہا ہے مگر کہاں صاحب! بات تو توفیق کی ہے کہ جگنو بھی چراغ بن جاتا ہے۔وقت روکے تو میرے ہاتھوں پر۔ اپنے بجھتے چراغ
مزید پڑھیے
مزید پڑھیے
دست قاتل کو جھٹک دینے کی توفیق ملے
جمعه 19 فروری 2021ءسعد الله شاہ
مجھ کو اچھی نہیں لگتیں یہ شعوری باتیں
ہائے بچپن کا زمانہ وہ ادھوری باتیں
تجھ سے ملنا بھی بہت کام ہوا کرتا تھا
روز ہوتی تھیں ترے ساتھ ضروری باتیں
آج اخبار کی پیشانی کے ساتھ ایک خبر دیکھ کر کہ سینٹ الیکشن کے لئے لوگ اسلام آباد میں نوٹوں سے بھرے بیگز لے کر بیٹھے ہیں طبعیت اوبھ سی گئی ہے۔ سچی بات ہے منڈی مویشیاں سے بھی زیادہ عجیب منظر ذہن میں آتا ہے اسی لئے میں نے مندرجہ بالا شعر لکھ کر بچپن میں پناہ لینے کی کوشش کی کہ اب ہمارا یہ شعور ہمیں کس مقام پر لے
مزید پڑھیے
مزید پڑھیے
یہ ہم ہیں اور یہ سیاست ہورہی ہیں
جمعرات 18 فروری 2021ءسعد الله شاہ
کب کہا ہے کہ مجھے فخر ہے اس جینے پر
روز اک داغ چمکتا ہے مرے سینے پر
آسماں کا ہی رہا میں نہ زمیں کا ہی رہا
ذوق پرواز نے اس طرح میرے چھینے پر
ذوق پرواز اچھی بات ہے مگر پرواز میں کوتاہی تو درست نہیں۔ ایک پرندہ تو مشہور شعر ’اے طاہر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی۔ جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی‘ پڑھتے ہوئے پرواز کر گیا۔ یہ الگ بات کہ وہ اڑا نہیں بلکہ اسے اڑایا گیا۔ بات مجھے آج موسم کی کرنا تھی کہ جو غیر متوقع طور پر ایک بار پھر دھندلا گیا
مزید پڑھیے
مزید پڑھیے
سب سے بڑا مسئلہ
منگل 16 فروری 2021ءسعد الله شاہ
اپنی خودی کو آپ سلانے والے لوگ
ہم ہیں اپنے کل کو بھلانے والے لوگ
سانپ ہمارے بچے کھا جاتے ہیں
ہم سانپوں کو دودھ پلانے والے لوگ
کالم میں شہر آشوب لکھنے کی گنجائش نہیں وگرنہ کیا کچھ اس دل میں ہے کہ بھونچال آیا ہوا ہے۔ کیا تماشہ ہے کہ بکنے بکانے والوں سے انٹرویو کئے جا رہے ہیں اس امر کی وضاحت اس لئے ضروری نہیں کہ ان پندرہ ویڈیوز کے احوال شاعر بزبان شاعر آپ سوشل میڈیا سے دیکھ رہے ہیں اور باقی پانچ ویڈیوز مصلحتاً روک لی گئی ہیں کہ مطلوب تھا پردہ ترا ۔ اللہ کی پناہ کوئی
مزید پڑھیے
مزید پڑھیے
اک عہد کا نوحہ
پیر 15 فروری 2021ءسعد الله شاہ
جی میں آتا ہے کہ دیکھوں اس زمیں کو کاٹ کر
مجھ ہوائے خاک پر یہ کیسے نکلے بال و پر
ہیں مثال برف یہ بھی کوہقافوں میں پڑے
اک شرارہ ہی اٹھا تو اے ہوائے تیز تر
کیا کریں اب تو بات کرنے کی سکت نہیں اور بات کرنے کا بھی کچھ فائدہ نہیں۔ کوئی بے حسی سی بے حسی ہے۔ تہذیب اور شائستگی کا کوئی لحاظ یا پاس نہیں۔ یہاں تو سیف صاحب کا خوبصورت شعر بھی ضائع نہیں کیا جا سکتا کہ کس تمنا سے تجھ کو چاہا تھا۔ کس محبت سے ہار مانی ہے۔ اب تو ایسے ہی لگتا ہے
مزید پڑھیے
مزید پڑھیے
رات کٹتی نظر نہیں آتی
اتوار 14 فروری 2021ءسعد الله شاہ
حسرت وصل ملی لمحہ بے کار کے ساتھ
بخت سویا ہے مرا دیدہ بیدار کے ساتھ
کیا کرے جذبہ وارفتگی شوق نہاں
دل کو گل رنگ کیا گوشہ پرخار کے ساتھ
دنیائے رنگ و بو میں فطرت کی بوقلمونی اور رنگا رنگی کوشش کرتی ہے مگر کیا کریں کہ ناگفتہ بہ حالات نے سب کچھ گدلا دیا ہے۔ وہی کہ دل تو میرا اداس ہے ناصر شہر کیوں سائیں سائیں کرتا ہے اور کس کو بتائیں کہ اداسی بال کھولے سو رہی ہے یہاں تو بات کا اندازہ بھی نہیں ہوتا کہ کچھ اور طرح کا ماحول پیدا ہو گیا ہے مکمل بے زاری
مزید پڑھیے
مزید پڑھیے