یہ کتاب بہت اچھی ہے۔ یہ اور بھی اچھی ہوتی اگر اس میں وہ مضمون بھی شامل ہوتا جو میں لکھ نہ پایا۔ میں اعتراف کرتا ہوں کہ اس مضمون کے انتظار میں اس کتاب کی اشاعت میں کم از کم ایک برس کی تاخیر تو ہوئی ہو گی۔ زندگی کے گناہوں میں ایک اور گناہ کا اضافہ اور یہ گناہگار اس کا اعتراف کرتا ہے۔ مرا یہ مضمون لکھنا بہت ضروری تھا۔ برادرم طاہر مسعود نے مرے ذمے جو کام لگایا تھا۔ وہ مرے لئے آسان بھی تھا اور مشکل بھی۔ اور ایک لحاظ سے ضروری بھی۔ ان کا کہنا تھا میں اس زمانے کا احوال لکھوں جو میں نے الطاف صاحب کے ساتھ گزارا۔ یہ تو گویا چٹکی بجاتے ہی ہو جانے والا کام تھا۔ غالباً کسی پبلشر نے اوہنری سے پوچھا کہ بھئی افسانہ کدھر ہے‘ ابھی تک ملا نہیں۔ کہنے لگے بس تیار ہے۔ کہا‘ پھر دو نا۔ کہنے لگے بس لکھنا باقی ہے۔ تو کچھ تحریریں ایسی ہوتی ہیں جو مکمل ہو چکی ہوتی ہیں۔ مگر لکھنا باقی ہوتی ہیں۔ یہ جس عہد کا تذکرہ ہے وہ مرے آغاز صحافت کا تذکرہ تو ہے ہی اس کے ساتھ پاکستان کی تاریخ کے بڑے کرب انگیز اور گرم جوش لمحات کا ذکر بھی ہے۔2اکتوبر 70ء میں ایم اے انگلش کے آخری پرچے سے فارغ ہو کر دو بجے دن میں زندگی کے دفتر میں آن بیٹھا اور پھر اس کوچے کا ہی ہو کر رہ گیا۔ لکھنے لکھانے کا شوق تو مجھے پہلے ہی تھا۔ قومی اخبارات اور ادبی جرائد میں میری تحریریں چھپ چکی تھیں۔ مگر کبھی یہ خیال نہ آیا تھا کہ صحافت کو پیشے کے طور پر اپنائوں گا۔ غالباً ہم ادب کے نشے میں ڈوبے ہوئے لوگ صحافت کو ایک نچلے درجے کی چیز سمجھتے تھے۔ تاہم یہاں آ کر معلوم ہوا کہ یہ بھی زندگی ہے جس سے پہلے میں ناواقف تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ملک کی تاریخ کے سب سے سنسنی خیز انتخابات ہوئے اور ملک ٹوٹ گیا۔71ء کی جنگ اسی دور میں ہوئی اور ملک پر بھٹو کی سول آمریت مسلط ہوئی۔ بنگلہ دیش نامنظور کی تحریک چلی۔ اسلامی کانفرنس ہوئی اور بنگلہ دیش تسلیم ہوا۔ بھٹو کی آمد کا کیسا طنطنہ تھا۔ کسی کو کچھ معلوم نہ تھا کہ کیا ہونے والا ہے۔ اسی دوران الطاف صاحب ڈاکٹر اعجاز صاحب اور مجیب شامی جیل چلے گئے۔ میں کہا کرتا ہوں‘ وہ لیڈر بن گئے اور میں ایڈیٹر۔ مجھے عملی صحافت میں آئے ابھی جمعہ جمعہ آٹھ دن ہی ہوئے ہوں گے کہ زندگی اور اردو ڈائجسٹ کی جگہ چھپنے والے پرچوں پر میرا نام مدیر مسئول کے طور پر چھپنے لگا۔ یہ ایک بڑے اعزاز کی بات تھی اور شاید میں عمر بھر اسی اعزاز کے گرداب میں الجھا وقت کی لہروں سے لڑتا رہا۔ یہ بہت مشکل وقت تھا۔ عدالتوں میں مقدمات لڑنا۔جیلوں کے چکر کاٹنا‘ جلسے کرانا‘ تحریک چلانا‘ پارلیمنٹ میں جا کر اپنی مظلومی کا مقدمہ لڑنا۔ یہ سب باتیں میں تب لکھتا جب میں نے یہ مضمون لکھا ہوتا جو مرے خیال میں مکمل طور پر تیار ہے۔ مگر میں تو یہ کالم اس کتاب پر لکھ رہا ہوں جس کا نام الطاف صحافت ہے اور جسے مرے بہت ہی عزیز اور پیارے بھائی اور دوست طاہر مسعود نے مرتب کیا ہے۔ سچ پوچھیے تو اس کا حق ادا کر دیا ہے۔ جہاں تک مجھے علم ہے کہ پہلے انہوں نے یہ منصوبہ کراچی یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغیات کے سربراہ کی حیثیت سے بنایا تھا۔ انہوں نے یہ منصب چھوڑ دیا مگر اس منصوبے کو ترک نہ کر پائے۔ انگریزی میں ایک لفظ ہم لیجنڈ بولتے ہیں۔ وہ جو اپنی زندگیوں میں افسانہ بن کر امر ہو جاتے ہیں اس کتاب کو دیکھتے جائیے آپ کو اندازہ ہو گا کہ الطاف حسن قریشی کس طرح صحافت کی دنیا میں ایک عہد ساز افسانوی کردار ہیں جنہیں ہم اپنی نگاہوں کے سامنے چلتا پھرتا اورکام کرتا دیکھ رہے ہیں۔ وہ ایک دبستان ہیں۔ جن سے ایسے ایسے پھول اور پودے ابھرے ہیں کہ آج جو یہ چمن چہک رہا ہے‘ اس میں ان کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ جب میں ان کے ادارے میں شامل ہوا وہ ماہنامہ صحافت کے بعد ہفت روزہ صحافت میں بھی ایک نئے انداز کی بنیاد رکھ چکے تھے۔ زندگی اردو میں اس ڈھب کا پہلا ہفت روزہ تھا جس نے صحافت کو ایک نیا اسلوب دیا۔ پھر جب انہوں نے جسارت کی شکل میں روزنامہ صحافت میں قدم رکھا تو پہلی بار اس ملک میں یہ پتا چلا کہ نظریاتی صحافت بھی اس انداز میں ہو سکتی ہے کہ پیشہ وارانہ طور پر اس کی عظمتوں کے گن گائے جائیں۔ وگرنہ اس سے پہلے چاہے لیفٹ کی صحافت ہو یا رائٹ کی‘ اسے ’’پارٹی زدگی‘‘ سے بلند رکھنا آسان نہ تھا۔ لیفٹ نے تو ایک زمانے میں ذرا بھیس بدل کر ایسی صحافت کی تھی۔ مگر دائیں بازو میں اس کی روایت توانا نہ تھی۔ لکھوں گا‘ انشاء اللہ میں ضرور لکھوں گا۔ یہاں صرف یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ الطاف صاحب سے پہلے اردو میں کوئی قومہ‘ فل اسٹاپ کا رواج نہ تھا۔ لکھنے والے بڑے بڑے ادیب تھے‘ مگر زبان کا جیسا خیال الطاف حسن کے ہاں تھا‘ وہ اگر نہ ہوتے تو شاید اردو صحافت اتنی بے لگام ہو جاتی کہ آج کی الیکٹرانک صحافت کی زبان کے معاملے میں بے راہ روی کا آغاز برسوں پہلے ہو چکا ہوتا۔ میں جو ادب میں منہ مارنے والے ہر نوجوان کی طرح خود کو بڑا پھنے خاں سمجھتا تھا۔ اس بات کا دل سے قائل ہوں کہ ادارتی گرفت کے قرینے میں نے الطاف صاحب کے ادارے میں رہ کر سیکھے‘ یہی نہیں‘ ادارت کرنا بھی وہیں سے آیا۔مثلاً ہم لوگ اس کا اہتمام کرتے تھے جس تقریب میں بلوائے جائیں اس کی خواہ مخواہ کوریج اپنے ہاں کرنے سے اجتناب کریں جب کہ بڑے بڑے اخبار و جرائد تو شاید نکلتے ہی اس لئے تھے کہ اپنے اور اپنے مالکان کے گن گائیں۔ پھر یہاں یہ بھی سیکھا کہ جو کچھ لکھو‘ اسے کسی دوسرے کو دکھا لو چاہے اپنے سے جونیئر ہی کیوں نا ہو۔ دل تو چاہتا ہے کہ اس کی ایک ’’صحافتی بوطیقا‘‘ مرتب کر دوں جو اس دبستان کی شان تھی۔ دوسرے لفظوں میں ایک سٹائل شیٹ تیار کردوں۔ مگر اس کے لئے تو پہلے یہ مضمون باندھنا پڑے گا کہ یہ سٹائل شیٹ ہوتی کیا ہے۔ میں نہیں جانتا کہ صحافت میں الطاف صاحب کا مقام کیا ہو گا۔ اگر جان بھی جائوں تو شاید زیادہ فرق نہ پڑے۔ مگر اتنا جانتا ہوں کہ الطاف صاحب نے جس جرأت کے ساتھ نظریاتی لڑائی لڑی ہے اور اس کے لئے ایک پورے قبیلے کی قیادت کی ہے۔ وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ شاید ہم وہ نہ ہوتے جو اب ہیں‘ شاید اس ملک کی تاریخ بھی وہ نہ ہوتی جو اب ہے اگر الطاف حسن قریشی کی جدوجہد کا خون اس میں شامل نہ ہوتا۔ مرے قبیلے کی ایک یہ خو ہے کہ اپنوں کی تعریف میں ذرا بخل سے کام لیتے ہیں اور غیروں کے گن گانے کو اپنا وصف سمجھتے ہیں ‘ وگرنہ یہ کہنے میں کوئی تردد نہیں ہونا چاہیے کہ الطاف صاحب نے پاکستان کی نظریاتی جنگ اگلے محاذ پر جا کر جس طرح لڑی ہے اس طرح عموماً جرنیل نہیں کرتے۔ وہ پیچھے رہ کر منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ الطاف صاحب ایسے جرنیل تھے جو حالت جنگ میں اگلے مورچوں میں جا پہنچے تھے۔ اللہ انہیں زندگی اور صحت دے۔ انہیں دیکھ دیکھ کر آج بھی حوصلہ ہوتا ہے۔وہ ایک عہد کا نام ہیں اور اس عہد سے ان کا قرض ادا نہ ہو پائے گا۔