سبھی چوری کے مجرم ہیں ۔ وہ جنہوں نے چوری کی اور وہ جنہوں نے چور کو پکڑ کے مصلحتا چھوڑ دیا، ڈیل کر لی ، این آر او دے دیا۔ پرویز مشرف نے جولائی 2000 ء میں براڈ شیٹ کمپنی کے ساتھ پاکستانی سیاستدانوں کی چوری پکڑنے کے لیے معاہدہ کیا۔ دو سو افراد کی فہرست کمپنی کو تھمائی گئی۔ طے ہوا کہ ریکور کی گئی ہر رقم کا بیس فیصد کمپنی کو دے دیا جائے گا۔ براڈ شیٹ کمپنی نے معاہدہ ہوتے ہی اپنا کام زور و شور سے شروع کر دیا۔ لیکن پھرچھ مہینے بعد ایک اور معاہدہ ہوا ۔ یہ معاہدہ نواز شریف اور پرویز مشرف کے درمیان تھا۔ نوازشریف نے پرویز مشرف کے ساتھ ڈیل کر لی اور سعودی عرب چلے گئے ۔بے نظیر پہلے ہی خود ساختہ جلا وطنی اختیار کیے ہوئے تھیںاور آصف زرداری جیل میں تھے۔ نواز شریف کے ملک سے چلے جانے کے بعد پرویز مشرف کو تسلی سے قدم جمانے اور طویل اننگز کھیلنے کا خیال آیا۔ اس کے لیے انہیں ان لوگوں کو بھی ساتھ ملانا پڑا جن کے نام براڈ شیٹ کمپنی کو دیے گئے دو سو افراد کی فہرست میں شامل تھے۔ لہذا پرویز مشرف نے جنرل سید محمد امجد کو نیب کی چئیرمینی سے ہٹا دیا اور براڈشیٹ کمپنی کے ساتھ تعاون کم کر دیا۔ جنرل امجد کے ہٹانے جانے کے بعد نیب کی طرف سے عدم تعاون اور عدم دلچسپی کو براڈ شیٹ نے واضح طور پر محسوس کیا جس کا ذکر کیوے موساوی نے عرفان ہاشمی کو دیے گئے اپنے حالیہ انٹرویو میں کیا ہے ۔ چونکہ اب احتساب پرویز مشرف کی ترجیح نہیں رہی تھی، ڈیل بھی ہو چکی تھی ، انہیںبین الاقوامی گارنٹرز کے دبائو کا بھی سامنا تھا،پرویز مشرف اپنی حکومت کے استحکام کی طرف دیکھ رہے تھے۔ لہذا 2003 ء میں نیب اور براڈ شیٹ کمپنی کے درمیان ہونے والا معاہدہ ختم کر دیا گیا۔ اس معاہدے کے ختم ہونے کے بعد براڈ شیٹ کمپنی نے سراغ لگائے گئے اثاثوں میں سے اپنا بیس فیصد مانگنا شروع کردیا۔ حکومت پاکستان کا موقف رہا کہ چونکہ براڈشیٹ کمپنی نے تین سال کے عرصے میں خاطر خواہ کارکردگی نہیں دکھائی اس لیے ان کے ساتھ معاہدہ جاری رکھنے میں ہمیں کوئی فائدہ نہیں ۔ براڈشیٹ نے دعویٰ کیا کہ اب تک ایڈمرل منصور الحق کے اثاثوں کی ریکوری سمیت جو کچھ کیا گیا ہے اس میں سے بیس فیصد ادا کیا جائے ۔ 2008 میں پیپلز پارٹی کی حکومت آنے تک براڈ شیٹ کا دعویٰ تھا کہ حکومت پاکستان کی طرف سود سمیت ان کے 515 ملین ڈالر واجب الادا ہیں۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے احمر بلال صوفی کی خدمات حاصل کر کے براڈ شیٹ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر جیری جیمز سے پانچ ملین ڈالر میں معاہدہ کیا، ان سے باقی کی رقم سے دستبردار ہو جانے کا وعدہ لیااور پانچ ملین ڈالر جیری جیمز کو ادا کر دیے۔ بعد میں پتہ چلا کہ جیری جیمز نامی شخص ذاتی حیثیت میں پیسے بٹور کے چلا گیا ہے اس ڈیل سے براڈ شیٹ کمپنی کا کوئی تعلق نہیں۔ براڈ شیٹ کمپنی اپنی رقم کی وصولی کے لیے لندن کی عدالت میں چلی گئی جہاں اس نے اپنا دعویٰ ثابت کر دیا اور نیب کو براڈ شیٹ کی رقم ادا کرنا پڑی۔ جوں ہی نیب نے پیسے ادا کیے نواز شریف اور ان کے خاندان نے نہایت مضحکہ خیز دعویٰ کرنا شروع کر دیا کہ آج وہ بے گناہ ثابت ہو گئے ہیں ، نیب کو شرمندگی اٹھانا پڑی ہے ، نیب کو جرمانہ ان کی بے گناہی کا ثبوت ہے وغیرہ وغیرہ۔ نواز شریف اور مریم نواز کی جانب سے ڈھنڈورا پیٹنے کا عمل ابھی جاری تھا کہ براڈ شیٹ کمپنی کے سی ای او کیوے موساوی نے پاکستانی صحافی عرفان ہاشمی کو انٹرویو دے دیا۔ جس میں انہوں نے سب سے پہلے تو یہ واضح کیا کہ وہ نیب کی طرف واجب الادا رقم سے متعلق اپنا کیس جیتے تھے۔ دوسرا انہوں نے نواز شریف اور ان کی صاحبزادی کے ان دعووں کی سختی سے تردید کی کہ وہ معصوم ثابت ہو گئے ہیں۔ کیوے موساوی نے صرف تردید ہی نہیں کی بلکہ اپنی تحقیقات کی روشنی میں مزید واضح کیا کہ نواز شریف کی دنیا بھر میں جائیدادیں موجود ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ تحقیقات روکنے کے لیے ان کے بھتیجے نے انہیں رشوت کی پیش کش بھی کی۔ ان کا ماننا ہے کہ 2003 میں ختم ہونے والے معاہدے کے پیچھے بھی نواز شریف کا ہی ہاتھ تھا۔ انہوں نے بین الاقوامی دوستوں اور گارنٹرز کے ذریعے پرویز مشرف پر تحقیقات روکنے کے لیے دبائو ڈالا۔ براڈ شیٹ کمپنی کے سی ای او نے کہا کہ وہ نواز شریف کے کئی اکائونٹس پکڑنے کے قریب تھے کہ معاہدہ ختم کر دیا گیا ، وہ پر اعتماد تھے کہ اگر موجودہ حکومت ان کی خدمات دوبارہ حاصل کرلے تو وہ نواز شریف کو وہاں بھی چور ثابت کر سکتے ہیں جہاں پاکستان کی عدالت نہیں کر پائی۔ کیوے موساوی کے اس موقف کے بعد شریف خاندان کی جانب سے مکمل خاموشی تھی۔ کئی دن کے بعد گذشتہ روز مریم اورنگزیب سامنے آئیں ۔انہوں نے یہ تو نہ کہا نواز شریف نے نیب کو ہونے والے جرمانے کو اپنی جیت سے تعبیر کیوں کیا تھا، اس کی بجائے انہوں نے نئی کہانی سنا دی کہ براڈ شیٹ کمپنی کروڑوں روپے لے کر بھی نواز شریف کے خلاف کوئی کرپشن ثابت نہ کر پائی۔ حقیقت انہوںنے اب بھی نہ بتائی کہ ڈیل کی وجہ سے پرویز مشرف نے نواز شریف کے خلاف تحقیقات روک دی تھیںاوریہ بھی نہ بتایا کہ موساوی کو رشوت کی پیشکش کس نے اور کیوں کی تھی۔ کیوے موساوی کے انٹرویو کے بعد حکومت بھی متحرک ہو گئی ہے مگر پریس کانفرنسز کی حد تک ۔ شہزاد اکبر بار بار پریس کانفرنس کر رہے ہیں مگر یہ نہیں بتا رہے کہ موساوی نے انہیں اکتوبر 2018 میں نواز شریف کے ایک خفیہ اکائونٹ کے بارے میں بتایا تھا اس پر کیا پیش رفت ہوئی اور کیوں اس کا کبھی ذکر نہیں کیا گیا۔ حکومت کو یہ بھی بتانا چاہیے کہ براڈ شیٹ کمپنی سے معاہدہ جاری رکھنا یا از سر نو کرنا پاکستان کے مفاد میں ہے یا نہیں ۔ حکومت کو چاہیے کہ ایک بار ہمت کر کے ریکوری کر ہی دے تاکہ مریم اورنگزیب کو یہ کہنے کی زحمت نہ ہو کہ کوئی آج تک نواز شریف کی کرپشن ثابت تو کر نہیں سکا۔