یارو۔ ایک سوال کا جواب تو دو۔ کیا پاکستان اس لیے بنا تھا کہ بانیان پاکستان کی کرسیوں پر فیوڈل لارڈز اور ارب پتی سرمایہ دار بیٹھ کر سالہا سال تک ملک کے سیاہ وسفیدکے مالک بنے رہیں۔ کیا ہمارے ملک میں قحط الرجال ہے کہ ہمیں ملک چلانے کے لیے ایسے لوگوں کا سہارا لینا پڑتا ہے۔آخر کیا وجہ ہے کہ انتہائی اہل‘ لائق‘ ایماندار اور اپنی فیلڈ میں بہترین تجربہ رکھنے والوں کو کوئی گھاس نہیں ڈالتا۔ بہترین دماغ گھروں میں بیٹھے ہیں اور اقتدار کا ہما چند ایسے خاندانوں کا زر خرید غلام بنا ہوا ہے جن میں اخلاقی‘ سیاسی‘ مذہبی‘ تعلیمی‘ قانونی اور معاشرتی اقدار کا مکمل فقدان ہے۔ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے یہ ملک بنانے کے لیے اپنی زندگی وقف کردی تھی۔ دن رات کی محنت سے اپنی صحت خراب کرلی تھی۔ کس کے لیے‘ ہندوستان کے غریب‘ محکوم اور محرومی کے شکارمسلمانوں کے لیے‘ اسلامیان ہند کے لیے‘ آج تہترسال بعد پاکستان کی صورت حال کیا ہے؟ زندگی کی تمام تر سہولتیں ایک مختصر اور مخصوص طبقے کے پاس ہیں۔ ملکی دولت کا بہت بڑا حصہ ان کے بینکوں میں جمع ہے۔ ان کا لائف سٹائل شہزادوں سے بھی آگے ہیں۔ ان کا بس چلے تو یہ بیڈ روم سے واش روم تک بھی ہیلی کاپٹر میں جائیں۔ غریب کی لاش کو بعض اوقات ایمبولینس بھی میسر نہیں آئی۔ اس کی لاش کھوتا ریڑھی پر گھر لے جائی جاتی ہے۔ دو کروڑ سے زیادہ غریب بچے سکول کا منہ دیکھنے سے محروم ہیں۔ غریب نوجوان اگر پڑھ لکھ بھی جائے تو اس کے لیے ملازمت کا حصول پل صراط پار کرنے کے مترادف ہے۔ غریب کے لیے بیمار ہونا ایک گناہ کبیرہ ہے جس کی سزا اسے اسی دنیا میں مل جاتی ہے۔ آپ کسی روز لاہور کے کسی سرکاری ہسپتال کا دورہ کریں ،آپ کو قیامت کا سماں دیکھنے کو ملے گا۔ ایک ڈاکٹر کے کمرے کے باہر سینکڑوں مریض ہوتے ہیں۔ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں عام مریض کو دل کے بائی پاس کے لیے کم از کم چھ سات ماہ بعد کی تاریخ دی جاتی ہے۔ اب تو یہ وقفہ اور بھی بڑھ چکا ہے۔ چنانچہ دل کا مریض مجبور ہو جاتا ہے کہ اس تاریخ تک مرنے سے پرہیز کرے۔مریض دل کے دورے سے تڑپ رہا ہے اور ایمرجنسی وارڈ میں بیڈ نہیں ہے۔ ہسپتال میں مریضوں کا اس قدر رش ہوتا ہے کہ لگتا ہے پورا ملک ہی بیمار ہے۔ رہے پرائیویٹ ہسپتال تو وہاں اب ہزاروں کی نہیں لاکھوں کی بات ہوتی ہے۔ پرائیویٹ ہسپتال میں ایک مریض کا روزانہ کا اوسط خرچ پچاس ہزار ہے۔ میں خود ایک پرائیویٹ ہسپتال میں چار روز رہا تھا۔ میرے بیٹے نے سوا تین لاکھ روپے دے کر مجھے واگزار کروایا تھا۔ اب آپ مکانوں کی بات سنیں۔ آج سے دس پندرہ برس پیشتر جو چھوٹا سا پانچ مرلے کا مکان دو لاکھ سے تین لاکھ روپے میں بن جاتا تھا۔ اب وہی مکان چالیس لاکھ میں بنتا ہے۔ غریب عوام کے بچے تو در در کی ٹھوکریں کھانے اور چائلڈ لیبر میں زندگی تباہ کرنے کے لیے پیدا ہوئے ہیں۔ نوازشریف کا بھی یہی خیال ہے کہ حکمرانی ہمارے خاندان سے باہر نہیں جانی چاہیے۔ انہیں کافی حد تک یقین ہے کہ ایک روز مریم نواز ملک کی وزیراعظم ہو گی۔ لیکن حمزہ شہباز کو یہ بات پسند نہیں ہے۔ وہ کہتا ہے کہ وزیراعظم میں بنوں گا۔ تم کوئی اور عہدہ سنبھال لینا۔ اللہ اللہ ہمارے مقدر میں یہ لوگ لکھے تھے ہم پر حکمرانی کرنے کے لئے ۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے حاکم تو دیکھو ۔ ان کے پاس تو جادو کی ایک چھڑی ہے ’’ووٹ‘‘۔ اسی لیے تو کہتے ہیں ووٹ کو عزت دو۔ یعنی سرمایہ داروں‘ زمینداروں‘ بڑے بڑے تاجروں اور ان کے گماشتوں کو عزت دو۔ ان ارب پتی لوگوں کے لیے ووٹ حاصل کرنا کیا مشکل ہے۔ جب تک ان لوگوں کو ووٹ کی سیڑھی میسر ہے‘ یہی لوگ بار بار حکمرانی کریں گے۔ جس روز قانون سازوں اور حکمرانوں کو الگ الگ نہیں کیا جائے گا‘ حالات کم و بیش یہی رہیں گے۔ پچھلے دنوں ایک کتاب میں یہ فقرہ نظر سے گزرا: In a Modern State, Lawmakers should not be Rulers. برطانوی طرز حکومت کی کامیابی کے لیے چند شرائط ہیں۔ 1۔ عوام کی غالب اکثریت پڑھی لکھی ہو۔2۔ عوام مناسب حد تک خوشحال ہوں۔ 3۔ سٹیٹ کی نظر میں ملک کے تمام شہری بلاامتیاز‘ مذہب‘ زبان‘ رنگ و نسل برابر ہوں۔ سب کے حقوق برابر ہوں اور سٹیٹ کسی فرد یا فرقے یا گروہ سے کسی قسم کا امتیازی سلوک نہ کرے۔ 4۔ عوام کو اپنے اپنے مذہب پر عمل کرنے کی مکمل آزادی ہو۔ 5۔ سٹیٹ غیر جانبدار ہو اور کسی مخصوص نظریے کی پابندنہ ہو۔ 6۔ عوام ذہنی غلامی‘ فرقہ بندی‘ انتہا پسندی‘ تنگ نظری‘ تعصب‘ احساس برتری یا کمتری‘ نفرت اور اسی نوع کے دوسرے منفی رجحانات سے آزاد ہوں۔ 7۔ کوئی فرد یا گروہ کسی دوسرے فرد یا گروہ پر دھونس‘ دھاندلی‘ دھمکی یا تشدد سے اپنا نظریہ ٹھونسنے کی کوشش نہ کرے۔ اگر کوئی گروہ یا فرد ایسی حرکات کا مرتکب ہو تو سٹیٹ اس کے خلاف قانونی کارروائی کرے۔ 8۔ سٹیٹ کی نظر میں ہر شخص صرف اور صرف ملک کا شہری ہو۔ نہ اس سے زیادہ نہ کم۔ 9۔ سٹیٹ کسی شہری کے خلاف صرف ایک بنیاد پر کارروائی کرسکتی ہے اور وہ یہ کہ وہ شہری ملکی قانون کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوا ہے۔ اس کے علاوہ کسی بھی بنیاد پر کسی شہری کے خلاف کارروائی غلط ہوگی۔ اب رہی ووٹ کو عزت دینے والی بات جوڈیشری میں ووٹ نہیں ہوتا۔ اگر وہاں بھی ووٹ کی حکمرانی ہوتی تو آج کسی کو ایم آر کیانی، حمودالرحمان‘ بھگوان داس‘ جسٹس کارنیلیئس جیسے عظیم ججز کا پتہ بھی نہ ہوتا۔ محکمہ تعلیم میں ووٹ نہیں ہے۔ وہاں پرو فیسرپطرس بخاری‘ سراج الدین‘ امداد حسین‘ ایرک سیرین جیسے بیسیوں اساتذہ اور عظیم انسان نہ ہوتے۔ فوج میں ووٹ نہیں ہے۔ فوج نے اس ملک کو بے سروسامانی کے عالم میں سنبھالا۔ ہندوستان جیسے ازلی‘ ابدی اور طاقتور دشمن کے مقابلے کی طاقت بنایا۔ فوج ہر آفت اور ایمرجنسی میں اپنا کردار ادا کرتی ہے۔ فوج نے وطن کی حفاظت کے لیے لاکھوں جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ آج اگر ہم پاکستان میں سیاست کر رہے ہیں تو فوج کی وجہ سے۔ فوج نہ ہوتی تو ہندوستان کبھی کا ہمیں نیست و نابود کر چکا ہوتا۔ فوجی سرحد پر جاگتا ہے تو ہم گھروں میں چین کی نیند سوتے ہیں۔ اقتدار پر فوج کے قبضے کا میں کبھی حامی نہیں رہا لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ تمام بڑے ڈیم ایوب خان نے بنائے۔ ہمارے عظیم سیاستدان بڑی بڑی باتیں تو کرتے ہیں لیکن ایک بھی بڑا ڈیم نہ بنا سکے۔ کالا باغ ڈیم کو نہ بنا کر سیاستدانوں نے اس ملک کی کمر میں جو چھرا گھونپا وہ قوم کبھی نہیں بھولے گی۔