امریکہ کے صدارتی انتخابات سے مجھے مائیکل گلینن کی کتاب ’’ نیشنل سیکیورٹی اینڈ ڈبل گورنمنٹ‘‘ یاد آ گئی۔معلوم نہیں ہیلری کلنٹن کو یہ کتاب پڑھنے کا اتفاق ہوا یا نہیں لیکن سٹریٹیجک سٹڈیز کی لائبریری میں بیٹھ کر پڑھی گئی کتاب کے مندرجات پڑھ کر آدمی کو بڑی تفصیل سے معلوم ہو جاتا ہے کہ امریکہ کتنی ’’ ڈیپ سٹیٹ ‘‘ ہے۔ آغاز ہی میں یہ وضاحت کرتا چلوں کہ یہ کتاب کسی امریکہ مخالف جذباتی سے صحافی نے نہیں لکھی ۔اس کا مصنف ٹفٹ یونیورسٹی کے فلیچر سکول آف لاء اینڈ ڈپلومیسی کا پروفیسر ہے ، امریکی محکمہ دفاع ، سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ جیسے اداروں میں کام کر چکا اور سینٹ کی فارن ریلیشنز کمیٹی کے ساتھ بھی وابستہ رہا ہے۔ اس کی گواہی’’ ڈیپ سٹیٹ ‘‘ کے بہت اندر سے آنے والی گواہی ہے۔مائیکل گلینن لکھتے ہیں کہ امریکہ میں دو طرح کا نظام حکومت ہے۔پہلے نظام حکومت کو وہ Madisonian حکومت کا نام دیتا ہے ۔ اس میں ایک کانگریس ہے ، ایک صدر ہے ، ملک کا نظام جمہوری طریقے سے چل رہا ہے۔ انصاف کی ڈھانچہ موجود ہے ۔عدالتیں کام کر رہی ہیں۔ لوگ سمجھتے ہیں حکومتوں کو بنانے اور ہٹانے کا اختیار انہی کے پاس ہے۔ ان کا خیال ہے نظام صدر چلا رہا ہے اور صدر ان کے ووٹوں سے منتخب ہوا ہے۔ مائیکل گلینن کا کہنا ہے کہ یہ سب ’’ نظر کا دھوکہ‘‘ ہے اور عوام اسی دھوکے میں ہیں۔ اس دھوکے کے پیچھے حقیقی حکومت کھڑی ہے۔ اس حکومت کے لیے وہ Trumanite نیٹ ورک کی اصطلاح استعمال کرتا ہے۔ اس میں امریکہ کی خفیہ ایجنسیاں ہیں ،فوجی ادارے ہیں، نیشنل سیکیورٹی ایجنسی (NSA) ہے ، ایف بی آئی اے ہے اور سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے کچھ عناصر ہیں۔ان کا کوئی چہرہ نہیں۔ یہ کسی کو نظر نہیں آتے ۔لیکن حکومت ان کی ہوتی ہے۔نیشنل سیکیورٹی کی تمام پالیسیاں یہ بناتے ہیں۔اور جب یہ کوئی پالیسی طے کر لیتے ہیں تو کانگریس ، صدر اور عدالتوں میں سے کسی کو جرأت نہیں ہوتی وہ ان سے اختلاف کر سکے۔ امریکہ کی اس حقیقی اور خفیہ حکومت کے لیے Trumanite نیٹ ورک کی اصطلاح کیوں استعمال کی گئی؟ مصنف نے اس کا جواب بھی دیا ہے اور وہ بہت دلچسپ ہے۔مائیکل گلینن لکھتے ہیں کہ ہیری ایس ٹرومن کے دور میں نیشنل سیکیورٹی ایکٹ لایا گیا اور یہ سارا نیٹ ورک قائم کیا گیا۔سی آئی اے بنی ، نیشنل سیکیورٹی کونسل قائم ہوئی اور امریکی عسکری کمانڈ کو مرکزیت دی گئی۔نیشنل سیکیورٹی ایجنسی NSA بھی اسی دور میں قائم ہوئی اور اس کا قیام اس حد تک خفیہ رکھا گیا کہ کئی سال تک کسی کو معلوم ہی نہ تھا کہ اس نام سے کوئی ایجنسی قائم کی جا چکی ہے۔یہ خفیہ ، پس پردہ اور ظاقتور نیٹ ورک ہی امریکہ کی اصل حکومت ہے اور ہیری ایس ٹرومین کی نسبت سے مائیکل گلینن نے اس کے لیے Trumanite نیٹ ورک کی اصطلاح استعمال کی ہے۔ حقیقی حکومت جب کوئی فیصلہ کر لیتی ہے تو دھوکے اور دکھاوے کی حکومت کا کام صرف اتنا ہوتا ہے کہ اس پر عمل کر ے۔مصنف یہ بات کئی مثالوں سے واضح کرتے ہیں۔ ایک مثال باراک اوبامہ کی ہے جو شخصی آزادیوں کے بہت بڑے حامی اور وکیل تھے لیکن ان کے دور میں گوانتنا مو بے بند نہ ہو سکا، انہی کے دور میں پیٹریاٹ ایکٹ آیا، ڈرون حملے ہوتے رہے ور امریکی شہریوں کی مانیٹرنگ کے لیے نیشنل سیکیورٹی ایجنسی کو غیر معمولی اختیارات ملے۔کیونکہ حقیقی حکمت ایک فیصلہ کر چکی تھی اور دھوکے اور دکھاوے کی حکومت کے پاس اس فیصلے پر عمل کے علاہ کوئی اوور راستہ موجود نہیں تھا۔ چنانچہ اس دھوکے اور دکھاوے کے Madisonian نظام حکومت کے سربراہ اوباکو ایٹمی اسلحے میں تخفیف اور خاتمے کی کوششوں کے اعتراف میں نوبل انعام دلوا دیا گیا لیکن حقیقت یہ تھی کہ اوبامہ ہی کے دور میں امریکہ نے ایٹمی اسلحہ میں جدت کی مد میں ایک ٹریلین ڈالر خرچ کیے کیونکہ امریکہ کی خفیہ اور اصل حکومت ایٹمی اسلحہ میں تخفیف کی نہیں بلکہ اس میں جدت کا فیصلہ کر چکی تھی۔ویسے ذرا بیٹھ کر جمع تفریق تو کیجیے کہ ایک ٹریلین ڈالر کتنی رقم بنتی ہے۔آپ کی آسانی کیلئے بتا دوں کہ ایک کیساتھ بارہ صفریں لگتی ہیں تو ٹریلین بنتا ہے۔ چنانچہ مائیکل گلینن کہتے ہیں کہ اوول آفس میں صرف چہرے تبدیل ہوتے ہیں امریکہ کی سیکیورٹی پالیسی کے اہداف ایک جیسے رہتے ہیں۔ان کے خیال میں آپ جسے چاہے ووٹ دے دیں حکمران نہ ان ووٹوں سے بنتے ہیں نہ ختم ہوتے ہیں۔امریکہ کی اصل اور خفیہ حکومت ان ووٹوں سے بے نیاز ہے۔ ٹائم میگزین میں الانا ابرام سن لکھتی ہیں کہ اوبامہ کی افغان پالیسی کے بارے میں یہ خیال عام ہے کہ وہ اوبامہ نے نہیں، بلکہ امریکہ کی ’’ ڈیپ سٹیٹ ‘‘ نے تشکیل دی تھی۔ٹرمپ نے تو اعلانیہ ’’ڈیپ سٹیٹ‘‘ کا تذکرہ کیا اورواشنگٹن پوسٹ سے لے کر نیویارک ٹائمز تک ڈیپ سٹیٹ کے ا اس تذکرے سے مہک رہے ہیں۔ڈینس کوزینیچ 2004 اور 2008 میں وہ ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب سے امریکی صدارت کے امیدوار تھے۔امریکی ڈیپ سٹیٹ کے بارے میں ان کا موقف بھی دیکھ لیجیے:’’ امریکہ کا سیاسی عمل خفیہ ایجنسیوں اور ان کے اہلکاروں کے ہاتھوں شدید خطرات سے دوچار ہو چکا ہے۔امریکہ کے لیے یہ بڑی خطرناک صورت حال ہے۔یہ ہماری جمہوری ریاست کے لیے خطرہ ہے۔یہ ہمارے طرز زندگی کے لیے بھی خطرناک ہے۔ری پبلکنز کی گواہی بھی سن لیجیے۔سینیٹر رینڈ پال ایک زمانے میں امریکی صدارت کے انتخابات کے لیے ری پبلکن ٹکٹ کی دوڑ کا اہم نام تھے جنہوں نے بعد میں خود کو اس سے الگ کر لیا۔2018 میں انہوں نے ایک ٹویٹ کیا جو اب بھی ان کے ٹوئٹر پر موجود ہے۔وہ لکھتے ہیں:’’کیا آپ جاننا چاہتے ہیں کہ ڈیپ سٹیٹ کیا ہوتی ہے۔سی آئی اے کی ڈائرکٹرسٹیٹ میں آتی ہیں اور چند سینیٹرز کو بریفنگ دے کر چلی جاتی ہیں۔ہر سینیٹر یہ کیوں نہیں جان سکتا کہ کیا ہو رہا ہے؟ڈیپ سٹیٹ سب کو اندھیرے میں رکھنا چاہتی ہے‘‘۔ معروف امریکی دانشور جارج فریڈ مین کے مطابق امریکی صدر 1871سے پہلے تو بااختیار ہوتا تھا مگر 1871 کے بعد سے معاملات ’’ ڈیپ سٹیٹ‘‘ کے ساتھ میں ہیں اور صدر محترم اب برائے وزن بیت ہی ہوتے ہیں۔