آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا ہے کہ پاک فوج ریاست کے دوسرے اداروں کے ساتھ مل کر خطرات سے نمٹنے کے لئے تیار ہے۔نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں نیشنل سکیورٹی اینڈ وار کورس کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے آرمی چیف نے کہا کہ وطن کو لاحق چیلنجز سے نبرد آزما ہونے کے لئے موثر قومی حکمت عملی وقت کا تقاضا ہے۔ انہوں نے پاک فوج کی اعلیٰ صلاحیتوں اور استعداد کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ فوج ملکی دفاع کا فریضہ انجام دیتی رہے گی۔ پاکستان بجا طور پر ایک چومکھی لڑائی لڑ رہا ہے۔ سرحدی کشیدگی‘ دہشت گردانہ کارروائیاں‘ ملک میں کچھ ناسمجھ افراد کا سکیورٹی اداروں کے خلاف غنیم جیسا لب و لہجہ‘ سیاستدانوں کی کم اہلی اور معاشی مشکلات میں اضافہ ایک سطح پر آ کر آپس میں مل جاتے ہیں۔ یہ مسائل مل کر پاکستان کی جو تصویر نقش کرتے ہیں وہ داخلی اور خارجی سطح پر عدم استحکام کی مظہر ہے۔ اس تصویر کے ساتھ تشویش ابھرتی ہے۔ ایسی تشویش بھری حالت میں جب قومی اداروں کی حالت اور سیاسی رہنمائوں کی دانشمندی پر نگاہ جاتی ہے تو مایوسی پیدا ہونے لگتی ہے۔ سیاسی نظام درست کام کرتا ہو تو مسائل حل ہوتے رہتے ہیں۔ یوں عام آدمی کو ایک امید رہتی ہے کہ اس کا مسئلہ حل ہونے کا وقت ضرور آئے گا۔ بدقسمتی سے سیاسی جماعتوں نے کرپشن اور طبقاتی مفادات کا تحفظ کرتے ہوئے عام پاکستانی کی مایوسی بڑھا دی ہے۔ پوری قوم کا فیصلہ تھا کہ ہم نے کشمیر کے معاملے میں بھارت کی ہٹ دھرمی کا مقابلہ کرنا ہے۔ پاکستان کے عوام بخوبی جانتے ہیں کہ تنازع کشمیر ان کی محدود معیشت کے لئے کن مضمرات کا حامل ہے مگر قومی خودداری اور وقارکو عزیز رکھنے والے پاکستانیوں نے اس سلسلے میں بڑی سے بڑی قربانی سے دریغ نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ بھارت نے بڑی معیشت‘ زیادہ آبادی اور عالمی سطح پر اثرورسوخ کے بڑے حجم کے ذریعے جب پاکستان کو دبانے کی کوشش کی تو تصادم ہوا۔ سرد جنگ کے خاتمہ تک پہنچتے پہنچتے پاکستان یہ طے کر چکا تھا کہ وہ روائتی ہتھیاروں اور افرادی قوت کے لحاظ سے بھارت کا مقابلہ نہیں کرسکتا اس لئے اسے ایسے ہتھیاروں کی ضرورت ہے جسے بطورڈیٹرنس استعمال کیا جا سکے۔ ایٹمی ہتھیار ہماری ڈیٹرنس پاور ہیں۔ پاکستان کی مسلح افواج نے ملک کی معاشی مشکلات کے پیش نظر حالیہ دنوں مثالی فیصلے کئے ہیں۔ بھارت کے مسلسل جارحانہ طرز عمل اور امریکہ کی خطے میں موجودگی کے باوجود آرمی چیف نے دفاعی بجٹ میں اضافہ لینے سے انکار کر دیا۔ جنرل قمر جاوید باجوہ جانتے ہیں کہ دشمن کوزیر کرنے کے لئے کچھ صلاحیتیں ہتھیاروں اور اسلحہ کے بغیر بھی موثر ہو سکتی ہیں۔ گزشتہ ہفتے وزیر اعظم عمران خان شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہ اجلاس میں شریک ہوئے۔ اس اجلاس میں روس‘ چین‘ ایران اور بھارت کے علاوہ میزبان کرغیزستان‘ قازقستان ‘ منگولیا اور تاجکستان شریک ہوئے۔ وزیر اعظم نے اس اجلاس کو رکن ممالک سے تعلقات میں بہتری کے لئے استعمال کیا۔ خصوصاً چین اور روس کے صدور سے ان کی الگ الگ ملاقاتیں نئے منظر نامے کی کئی ضرورتیں پوری کرتی دکھائی دیں۔ رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ صدر پیوٹن نے وزیر اعظم سے سابق پاکستانی حکومتوں کی روس مخالف پالیسیوں کا گلہ کیا تاہم روسی صدر پاکستان کے لئے گرم جوشی کے جذبات ظاہر کرتے رہے۔ انہوں نے جب پاکستان کو ہر قسم کا اسلحہ دینے کی بات کی تو وزیر اعظم عمران خان نے ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان پرامن تعلقات کو فروغ دینا چاہتا ہے۔ اس لئے وہ اسلحہ خریداری کی بجائے روس کے ساتھ تجارت بڑھانے کا خواہاں ہے۔ یہ ایک بالکل نیا پیغام ہے جو دنیا کو پاکستان سے مل رہا ہے۔ جس ریاست کو مسلسل دہشت گردی کا مرکز، تشدد کا گڑھ اور فوجی آمریت کی علامت قرار دیا جاتا رہا ہے وہاں جمہوری اقدار‘ پرامن بقائے باہمی اور مذاکرات کے ذریعے تنازعات حل کرنے کی بات ہورہی ہے۔ مہذب جمہوری معاشروں میں پاکستان کی سوچ کو پذیرائی مل رہی ہے۔ بلا شبہ جب قوم کسی بحران کا شکار ہوتی ہے تو ریاست اور عوام کا یکجا ہونا ضروری ہو جاتا ہے۔ ریاست جن ستونوں پر کھڑی ہے وہ عوام کا اعتماد ہوتے ہیں۔ نائن الیون کے بعد پاکستانی قوم پر ایک سخت وقت آیا۔ عشروں سے اس کا دوست امریکہ آنکھیں بدل گیا۔ امریکہ نے افغانستان میں ایسی پالیسیاں اختیار کیں جن کی وجہ سے پاکستان میں دہشت گردانہ سرگرمیاں بڑھیں اور پاکستان کی دفاعی و معاشی مشکلات میں اضافہ ہوا۔ کیسے کیسے سانحے ہیں جو پاکستانی قوم نے سہے۔ سیاسی و عسکری قیادت نے مل کر اس صورت حال کا مقابلہ کیا۔ نیشنل ایکشن پلان ترتیب دیا گیا۔ فوج نے اس کی قیادت کی، حکومتوں نے وسائل فراہم کئے‘ فوجی عدالتیں قائم کیں۔ سماجی سطح پر اقدامات کئے اور آج پاکستان بڑی حد تک اس عفریت سے نجات پا چکا ہے جبکہ ہم سے کئی گنا طاقتور امریکہ اپنے سے سینکڑوں گنا کمزور افغانیوں کے سامنے گھنٹے ٹیک رہا ہے۔ جنگ کامیدان بدل گیا ہے۔ اب ٹیکنالوجی اور معیشت نے جنگ کی شکل بدل دی ہے۔ وطن کے دفاع کے لئے اب صرف سرحدوں پر جان قربان کر دینا کافی نہیں۔ اب تمام ادارے ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر قومی سلامتی کو لاحق خطرات کا مقابلہ کرتے ہیں۔ دو دن قبل قومی ترقیاتی کونسل قائم ہوئی ہے۔ وزیر اعظم اس کے سربراہ ہیں جبکہ وزیر خارجہ‘ مشیر خزانہ‘ وزیرمنصوبہ بندی‘ مشیر تجارت اور بعض اہم سیکرٹریز کے ساتھ آرمی چیف بھی اس کا حصہ ہیں۔اداروں کے درمیان بہتر روابط اور قومی سلامتی کو لاحق جدید خطرات سے نبرد آزما ہونے کے لئے اس کونسل سے بہت امیدیں ہیں۔ پاکستان کے عوام اپنی سیاسی و عسکری قیادت کے اقدامات کو بنظر تحسین دیکھتے ہیں۔