ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے پریس کانفرنس میں قومی سلامتی کے دو اہم معاملات پر بھرپور گفتگو کی۔ انہوں نے پشتون تحفظ موومنٹ کے ریاست مخالف مظاہروں اور ان مظاہروں کے لیے فنڈنگ پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ پی ٹی ایم کو مزید چھوٹ نہیں دی جا سکتی۔ یہ تنظیم بھارت اور افغان ایجنسیوں سے رقوم حاصل کر کے پاکستان میں انتشار پیدا کرنا چاہتی ہے۔ میجر جنرل آصف غفور نے دینی مدارس میں اصلاحات کے ضمن میں ریاستی فیصلوں سے بھی آگاہ کیا۔ انہوں نے بتایا کہ ملک بھر کے 30ہزار مدارس کے نصاب سے نفرت اور تعصب والا مواد نکال کر دوسرے مسالک کے احترام پر زور دیا جائے گا۔ ان مدارس میں جدید عصری علوم پڑھانے کے لیے اساتذہ تعینات کئے جائیں گے۔ میجر جنرل آصف غفور نے مدارس کے لیے سالانہ ایک ارب روپے کے فنڈز کا اعلان کیا ہے۔ دریں اثنا مدرسہ قائم کرنے کے لیے پہلے محکمہ صنعت سے منظوری حاصل کی جاتی تھی اب مدارس کو محکمہ تعلیم کے ماتحت کیا جا رہا ہے۔ پاکستان کا قیام کئی مقامی گروہوں اور قوتوں کی منشا کے خلاف تھا۔ یہ آل انڈیا کانگریس تھی جس نے برصغیر کے تمام باشندوں کو کہا کہ وہ متحدہ ہندوستان کے لیے جدوجہد میں اس کا ساتھ دیں۔ مسلمان آبادی کے لحاظ سے ہندوئوں کے بعد سب سے بڑی قوم تھی مگر متحدہ ہندوستان کے تصور میں مسلمانوں کی سیاسی نمائندگی دس فیصد سے زیادہ نہیں تھی۔ پاکستان کا مطالبہ صدیوں سے حکمرانی کا خواب دیکھنے والے ہندوئوں کے لیے ناقابل قبول تھا۔ کانگریس نے کچھ مسلمان گروہوں کو اپنا حامی بنا لیا۔ عام مسلمان چونکہ پاکستان کے حق میں تھا لہٰذا 14 اگست 1947ء کو پاکستان بن گیا۔ قیام پاکستان کے بعد ہندوئوں کا ریاستی چہرہ بھارت کی شکل میں سامنے آیا۔ بھارت نے اثاثوں کی تقسیم اور امن و امان کے امور میں پہلے دن سے تعاون نہ کیا۔ آزاد ہوتے ہی کشمیر پر فوج کشی کر کے قبضہ کر لیا۔ بھارت اور اس کے حامی گروہ پہلے دن سے پاکستان کی سلامتی کے لیے خطرات پیدا کرتے رہے ہیں۔ 1948ء میں پانی کو روکنا، چار جنگیں، نسلی، لسانی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر پاکستان میں تخریبی نظریات کا فروغ اور ریاست مخالف گروہوں کی سرپرستی سے پاکستان کو عدم استحکام کا شکار بنانے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔ پاکستان نے حال ہی میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے اہم مرحلوں کو مکمل کیا ہے۔ نیشنل ایکشن پلان میں سماجی سطح پر امن اور برداشت کا ماحول پیدا کرنے کے لیے جو اقدامات منصوبہ بندی کا حصہ تھے ان پر عملدرآمد شروع کر دیا گیا ہے۔ مدارس اصلاحات کا معاملہ اپنی نوعیت میں حساس سمجھا جاتا رہا ہے۔ ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی ہدایات کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ ریاست کسی کے مسلکی اور مذہبی معاملات میں مداخلت نہیں کرے گی مدارس میں جو نصاب پڑھایا جا رہا ہے اس کا جائزہ لیا جائے گا، اگر اس میں دوسروں کے خلاف نفرت اور تعصب والی چیزیں موجود ہیں تو انہیں ہٹایا جائے گا۔ مدارس میں جدید عصری علوم کی تعلیم کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔ سبجیکٹ سپشلسٹ ٹیچر بھرتی کئے جائیں گے اور مدارس کے طلبا کو موقع دیا جائے گا کہ وہ فارغ التحصیل ہو کر ڈاکٹر، انجینئر، سائنسدان اور افسر بن کر قوم کی خدمت کریں۔ یقینا اس طرح یہ طالب علم ان عناصر کے ہاتھوں استعمال ہونے سے محفوظ رہیں گے جو مدارس کی آڑ میں معاشرے میں انتشار اور بے چینی پیدا کر کے ملک دشمنوں کے عزائم پورے کرتے ہیں۔ جہاں تک پی ٹی ایم کا تعلق ہے تو میجر جنرل آصف غفور نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا حوالہ دیا کہ آرمی چیف نے پی ٹی ایم کو اپنے بچے کہہ کر ان سے نرم رویہ اختیار کرنے کی ہدایت جاری کر رکھی تھی۔ پی ٹی ایم کو اپنے مطالبات سیاسی انداز میں پیش کرنے کا بھرپور موقع دیا گیا اور اس کے دو اراکین پارلیمنٹ کا حصہ ہیں۔ اختلافات ہونا برائی نہیں مگر یہ باتیں کسی ریاست کے لیے قابل قبول نہیں ہو سکتیں کہ اس کے کچھ شہری ریاست اور اس کی محافظ فوج کے خلاف باتیں کریں اور بیرونی دوروں کے دوران ایسے افراد سے ملاقاتیں کریں جو پاکستان کو نقصان پہنچانے کی کوشش میں ہیں۔ میجر جنرل آصف نے جو سوال اٹھائے وہ بہت سادہ ہیں کہ اسلام آباد میں پی ٹی ایم کے پہلے جلسے کے لیے فنڈز کس ملک نے فراہم کئے اس طرح انہوں نے بھارت اور افغانستان کی انٹیلی جنس ایجنسیوں سے مسلسل رابطوں پر بھی سوال اٹھایا ہے۔ پی ٹی ایم سے یہ سوال جائز ہیں۔ بلوچستان میں بعض لوگ پاکستان کے مفادات کے خلاف کام کر رہے ہیں۔ پی ٹی ایم نے صرف خود ریاست کو چیلنج نہیں کیا بلکہ علیحدگی پسند تحریکوں سے رابطے مضبوط بنائے ہیں۔ پاکستان کی حکومت اور سکیورٹی اداروں نے پی ٹی ایم کے ساتھ مسلسل بات چیت جاری رکھی۔ پی ٹی ایم کے کئی مطالبات تسلیم کئے گئے جن میں سے ایک مطالبہ لاپتہ افراد کی تلاش کا ہے۔ اگرچہ ایسی رپورٹ موجود ہیں جو بتاتی ہیں کہ پی ٹی ایم اپنے جن افراد کو لاپتہ افراد قرار دیتا ہے او افغانستان میں روپوش رہ کر پاکستان کے مفادات کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں حتمی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ وہ نظریات اور گروہ جو افراد کو ریاست کے مقابل کھڑا کرتے ہیں ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔ پی ٹی ایم اور مدارس کے متعلق فیصلوں کا پاک فوج کی طرف سے آنا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ معاملات ریاستی سلامتی کے لئے خطرہ بن چکے ہیں اور ان کو طے کرنے کے لیے ریاستی فیصلوں کو قبول کرنا چاہیے۔