سترھویں صدی کی مہذب اور ترقی یافتہ مسلم دنیاکے مقابلے میں جدید امریکہ، انسانی تاریخ کے اس بدلتے ہوئے موڑ اورتہذیبی ترقی کے عروج میں ابھی غلاموں کی تجارت کا آغاز کر رہا تھا۔ اگست 1619ء کے اس خوشگوار دن جب جیمز ٹائون، ورجینیا کے بازار میں انگولا سے بیس سیاہ فام کو لا کر بیچا گیا، اس دن سے یہ انسانی تجارت امریکہ میںسرکاری سرپرستی میں پھلنے پھولنے لگی۔ اس سے پہلے براعظم امریکہ میں یورپ سے بھاگ کر آنے والے جرائم پیشہ گوروںکی اکثریت آبادتھی اور وہ امریکہ میں موجود مقامی ریڈانڈین افرادسے غلامی کا کام لیتے تھے۔ یہ وہ مقامی ریڈ انڈین تھے جو اس خطے میں امن سے رہ رہے تھے کہ اچانک 12اکتوبر 1492ء کو کرسٹوفرکولمبس کا جہاز امریکہ کے ساحلوں پر اترا اور یورپی اقوام کے لٹیروں، ڈاکوئوں، قاتلوں، چوروں اور جرائم پیشہ افراد نے یہاںآکر آباد ہونا شروع کردیا۔بیچارے مقامی ریڈانڈین کا پہلا قتلِ عام ’’ٹیکا اوک‘‘ (Tecoak)کے علاقے میں ہوا جہاں پر آباد پورا قبیلہ ’’اوٹومی‘‘ (Otomi)بچوں، بوڑھوں اور عورتوں سمیت قتل کر دیا گیا۔ یوں علاقوں پر علاقے فتح ہوتے رہے اور قبیلوں پر قبیلے صفحہ ہستی سے مٹتے رہے۔ آخری قتلِ عام 19جنوری1911ء کو نویڈاکی ریاست میں ہوا۔ آج بھی پورے امریکہ میں ریڈانڈین مقامی افراد کی پانچ سو سے زیادہ آبادیاں ہیں جنہیں ریزرویشنز (Reservations)کہا جاتا ہے۔ ان آبادیوں میں یہ قبائل صدیوں پرانی زندگی میں رہتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ سولہویں صدی کا امریکہ ریڈانڈین کے قتلِ عام اور نسل کشی کاامریکہ تھا۔ تقریباََگیارہ کروڑ مقامی افراد قتل کئے گئے۔ جس شخص کو انسانی تاریخ کاعظیم سیاح اور ہیرو بنا کر پیش کیا جاتا ہے اور جس کولمبس کی تصویریں بچوں کے نصاب کی کتابوں میں لگائی جاتی ہیں اس اکیلے شخص کی قیادت میں 5لاکھ ریڈانڈین مقامی افراد قتل کئے گئے۔ مقامی آبادی کا قتلِ عام اور غلاموں کی تجارت چارسوسال تک ساتھ ساتھ چلتی رہی۔ اسی دوران ڈھائی سو سال قبل 1777ء میں امریکی جمہوری اور آئینی حکومت بھی قائم ہوئی اور جارج واشنگٹن پہلا جمہوری صدر بھی بنا۔ یوں جمہوریت اور سیاہ فام انسانوں کی غلامی اورتجارت ہاتھ میںہاتھ ڈالے پروان چڑھتے رہے۔غلاموںکی جس تجارت کاامریکی آغاز 1619ء میں ہواتھا،ان کی آبادی چند سالوں میں اسقدر بڑھ گئی کہ ان کو قابو میں رکھنے کے لئے قانون بنائے جانے لگے۔ سب سے پہلا قانون 1661ء میں بنایا گیا جس کے تحت کوئی کالا گورے سے یا گورا کالے سے شادی نہیں کر سکتا تھا۔ یہ قانون 21ریاستوں میں فوراََ لاگو ہو گیا۔ آپ کو حیرت ہوگی کہ آخری ریاست الباما (Albama)ہے جس میں ایک نسل سے دوسری نسل کی شادی پر پابندی کا قانون صرف بیس سال پہلے یعنی 2000ء میںختم کیا گیا۔ اس دوران امریکہ کے آئین کی وہ دفعات جو 1777ء کے اعلانِ آزادی میں تمام انسانوں کے برابر ہونے کا دعویٰ کرتی ہیں، مستقل نافذ رہیں، آئین کا حصہ تھیں اور امریکہ انسانی حقوق کے نام پر پوری دنیا میں دھاڑتا بھی رہا۔ ان بیچارے افریقی سیاہ فام غلاموں کا امریکہ کے ساحلوں تک کا سفر بھی دردناک اور المناک کہانیوں سے عبارت ہے۔ سپین، پرتگال، فرانس، انگلینڈ اور دیگر ممالک سے انسانوں کے تاجر افریقہ کے علاقوں میں نہتے سیاہ فام افراد کو اغوا کرتے، کبھی گڑھے کھود کرانہیں ٹہنیوں سے ڈھانپتے، قسمت کے مارے ان میں گر جاتے تو انہیں زنجیروں میں جکڑ کرباہر نکالا جاتا۔ ساحلِ سمندر کے پاس بڑے بڑے اڈے بنائے گئے تھے جن میں ایک کمروں کی قطار میں مردوں کو رکھا جاتا، دوسرے میں عورتوں اور تیسری قطار کے کمروں میں بچوں کو چھوڑ دیا جاتا۔ تینوں کمرے پنجروں کی طرح آمنے سامنے ہوتے۔ بچے بھوک اور تنہائی سے روتے بلکتے اور والدین اپنی آنکھوں کے سامنے بے بسی سے انہیں دیکھتے رہتے، عورتوںسے جنسی زیادتی ہوتی، مردوں پر شدید تشدد کیا جاتااور یہ تماشہ ایک دوسرے کے روبرو ہوتا۔ یوں ان کوکئی سال ایسی حالت میں رکھ کریہ احساس دلایا جاتا کہ یہی تمہاری زندگی اور تمہارا مقدرہے۔ اس کے بعد انہیں بحری جہازوں کے ایسے کیبنوں میں ٹھونسا جاتا، جن کی چھت صرف ڈھائی فٹ اونچی ہوتی۔ خوف، بیماری، گھٹن اور تکلیف سے جو مر جاتا اسے سمندر کی لہروں کے سپرد کر دیا جاتا۔ صرف پچیس فیصد غلام ہی امریکہ کے ساحلوں تک پہنچ پاتے جو خود کوبہت خوش قسمت تصور کرتے کہ آزاد فضا میںسانس لے رہے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کی باقی پوری زندگی کپاس ، تمباکو اور گنے کے کھیتوں میں غلامی کرتے گزر جاتی۔ غلاموں کی تعداد بڑھانے کے لئے عورتوں کو گائے بھینسوں کی طرح جنسی اختلاط پر مجبور کیا جاتا تاکہ وہ ہر سال ایک نئے غلام کو جنم دیں۔ اس فعل کے بعد مردوں کو علیحدہ کر دیا جاتا اور عورتیں ایک جانوروں کے گلے کی طرح سے بچے پالتیں۔ عورتیں دہرا بوجھ اٹھاتیں، کمپنیوں اور گھروں میں کام کے علاوہ بچے بھی پالتیں۔ ایک ساتھ ریوڑکی طرح جوان ہونے والے بچوں کو بھیڑبکریوں کی طرح غلاموں کی منڈیوں میں بیچ دیا جاتا۔ جمہوریت کی سب سے بڑی علامت امریکی کانگریس نے 1793ء میں ایک قانون "Fugitive Slave Act"پاس کیا جس کے تحت کسی غلام کو بھگانا یا فرار کرانے میںمدد دینا ایک جرم قرار دیا گیا۔ یہ قانون اس لئے منظور کیا گیا تھا، کیونکہ سیاہ فام غلاموں میں بغاوت کی چنگاریاں سلکنے لگی تھیں۔ اس بغاوت کا پہلاعلمبردار ناٹ ٹرنر(Nat Turner)تھا جس کی ماں ایک افریقی غلام عورت تھی جسے گوروں نے زیادتی کا نشانہ بنایا تھا۔ اپنی ماں سے محبت اور نامعلوم باپ سے نفرت نے اسے پاگل بنا دیا تھا۔ وہ ہر وقت سیاہ فام افریقیوں کی آزادی کے خواب دیکھتا رہتا۔ ایک دن 1831ء میںاس نے سورج گرہن دیکھا تو اسے ایک انقلاب کی علامت سمجھا۔ اس نے اپنے چند ساتھیوں سمیت اپنے مالک کے خاندان ’’ٹریوس فیملی‘‘(Travis Family) کو قتل کر دیا اور ورجینیا ریاست کے چھوٹے سے شہر’’ یروشلم‘‘ کی طرف چل پڑا۔ اس کے ساتھ پچھتر کے قریب سیاہ فام غلام اکٹھا ہو گئے، جنہوں نے 60گوروں کو قتل کر دیا۔ ریاست فوری طور پر ایکشن میں آئی۔ بندوقوں، بکتربندگاڑیوں اور جدید اسلحے سے لیس ملیشیا نے انہیں یروشلم شہر کے باہر گھیر لیا، نہتے غلاموں پر فائرنگ شروع ہوئی، سو کے قریب سیاہ فام غلام اور کچھ راہگیر مارے گئے۔ ٹرنروہاں سے بھاگ نکلا، چھ ہفتوں تک جنگلوں میں مارا مارا پھرتا رہا، پکڑا گیا، مقدمہ چلا اور پھر اسے عبرت کا نشان بنانے کے لئے سرِعام پھانسی دے دی گئی۔ یاد رہے کہ یہ 1831ء یعنی صرف ایک سو نوے سال پہلے کا واقعہ ہے، کوئی ہزاروں سال پہلے کی کہانی نہیں ہے۔ اس واقعے کے تیس سال بعد 1861ء کی بہار میں امریکہ کی ریاستوں میں غلامی کی حق اور خلاف آپس میں ایک بہت بڑی جنگ کا آغاز ہوا۔ ابراہیم لنکن امریکی صدر منتخب ہوا تو اس کا نعرہ امریکہ سے غلامی اور غلاموںکی تجارت کا خاتمہ تھا۔ پورا امریکہ دو دھڑوں میں تقسیم ہو گیا۔ جنوبی ریاستیں جہاں کھیتی باڑی عام تھی وہ غلامی کے حق میں کھڑی ہو گئیں اور شمالی ریاستیں غلامی کے خلاف۔ 12اپریل1861ء سے 9مئی 1865ء تک چار سال تک جنگ چلی۔ ایک اندازے کے مطابق تین لاکھ پینسٹھ ہزار افراد مارے گئے جن میں اسی ہزار سیاہ فام غلام اور پچاس ہزار آزاد شہری بھی شامل تھے۔ اس جنگ کے نتیجے میں امریکہ سے قانونی طور پر غلامی کا خاتمہ توہو گیا لیکن گذشتہ ڈیڑھ سو سال سے سیاہ فام افراد سے نفرت کی آگ امریکی معاشرت، تہذیب اور زندگی کے دیگر معاملات میں مسلسل سلگ رہی ہے اور ہر چند سال بعد کسی سیا ہ فام کی موت کی صورت رونما ہوتی رہتی ہے۔ ٹھیک ایک سو چالیس سال بعد امریکی جمہوری الیکشنوںمیں پچھتر فیصد گوری اکثریت نے ڈونلڈٹرمپ کو ووٹ دے کر ایک بار پھر امریکہ کو اسی طرح فتح کر لیا ہے جیسے1492ء میں کولمبس کی سربراہی میں فتح کیا تھا۔فرق صرف یہ ہے کہ اُس وقت بندوق استعمال ہوئی تھی اور اس دفعہ ووٹ۔