آج 20 نومبر کو تمام دنیا ’’ بچوں اور بچوں کے حقوق ‘‘ کا عالمی دن منائے گی۔ یہ سلسلہ 1954 میں شروع ہوا تھا جب اقوام متحدہ نے یہ فیصلہ کیا کہ ہر برس 20 نومبر کو تمام دنیا میں ’’بچوں کا عالمی دن‘‘ منایا جائے گا تاکہ دنیا بھر میں بچوں کے حقوق اور انکی فلاح کے لیے اتحا د اور شعور پیدا کیا جا سکے۔ پانچ برس بعد ، اسی دن یعنی 20 نومبر 1959 کو ایک اور اہم کام یہ ہوا کہ اقوام عالم نے مل کر ’’ بچوں کے حقوق کا اعلامیہ‘‘ اپنایا۔ اس کے کچھ برس بعد یعنی 1989 میں اسی دن ( یعنی 20 نومبر کے ہی روز) ’’ بچوں کے حقوق کا عالمی کنونشن ‘‘ منعقد بھی ہوا اور تسلیم بھی۔ اقوام عالم کی سبھی حکومتوںنے ان اعلامیوں اور کنونشن پر دستخط کئے، بشمول امریکہ، برطانیہ ، بھارت ، تمام یورپ اور اسرائیل کے ۔ بظاہر تو تمام دنیا بچوں کے حقوق جانتی بھی ہے اور مانتی بھی ہے ۔ نیز تمام دنیا بظاہر اس بات پربھی متفق ہے کہ دنیا کے تمام بچوں کو انکے حقوق ملنے چاہئیں۔ سب سے پہلے زندہ رہنے کا حق۔ جسمانی طور پر محفوظ اور صحتمند رہنے کا حق۔ ہر قسم کے خوف سے محفوظ رہنے کا حق۔ پر امن ماحول میں پر امن زندگی گزارنے کا حق۔ سب سے بڑھ کر ’’ اپنا بچپن جینے کا حق‘‘۔ یہ تمام حقوق ماننے کے ساتھ ساتھ تمام دنیا اقوام متحدہ اور اسکے ذیلی اداروں کے دفاتر اور اپنے اپنے ملک میں موجود متعلقہ اداروں اور پریس کلبوں کے ٹھنڈے ہالز میں بیٹھ کر تقاریر اور بیانات میں یہ مطالبہ بھی کرتی ہے کہ دنیا کے تمام بچوں کو یہ سب حقوق بلا تفریق دیے جائیں لیکن جس طرح ایک ہی فضا میں پرواز کرنے کے باوجود ’’ کرگس کا جہاں اور ہے ، شاہیں کا جہاں اور‘‘ اسی طرح ایک ہی دنیا اور ایک ہی زمانے میں پیدا ہونے کے باوجود عملی طور پر شاہ کے بچوں کے حقوق کچھ اور ہیں اور رعایا کے بچوں کے کچھ اور۔ فلسطین اور غزہ میں پیدا ہونے والے بچوں کی بات کریں تو جو بچے پیدا ہوتے ہی موت کا سامنا کرتے ہیں، آنکھیں کھولنے تک زندہ بچ جائیں تو موت کا رقص دیکھتے ہیں اور والدین اور بہن بھائیوں کی لاشیں اور زخموں سے چور بدن ، کیا انہیں ’’ بچہ‘‘ کہا جا سکتا ہے؟ کیا یہ ایک دن بھی اپنا ’’ بچپن‘‘ جیتے ہیں؟ مغربی میڈیا کے مطابق اب تک اسرائیلی حملو ں کے نتیجے میں پانچ ہزار سے زائد بچے شہید ہو چکے ہیں اور حماس کے ذرائع کے مطابق دس ہزار سے زائد۔ کیا تمام دنیا میں بچوں کے حقوق کا عالمی دن منانے والے آج کے دن کی مناسبت سے اسرائیل ، امریکہ اور یورپ سے یہ سوال کرنے کی ضرورت محسوس کریں گے کہ فلسطین اور غزہ کے ان بچوں کا قصور کیا ہے؟ کیوں ’’ نیو یارک ٹائم ‘‘ بھی اپنی ایک تحریر میں یہ لکھنے پر مجبور ہو گیا ہے کہ غزہ کا علاقہ ’’بچوں کا قبرستان‘‘ بن چکاہے؟ عالمی ادارہ صحت کے مطابق غزہ کے علاقے میں ہر روز 160 بچے شہید ہو رہے ہیں۔ کوئی ایسا ظلم نہیں جو اسرائیل نے نہ ڈھایا ہو اور کوئی ایسا جنگی جرم نہیں جس کا ارتکاب نہ کیا ہو، لیکن یہ سب مل کر بھی کسی ایک مسلم ملک کے مردہ ضمیر میں زندگی کی کوئی رمق پیدا نہیں کر سکے۔ عملی امداد تو بہت دور کی بات ہے، مسلم دنیا کے حکمران اور لیڈر تو اب انکی اخلاقی امداد کی بات بھی ڈر ڈر کر کرتے ہیںکہ کہیں ان پر انتہا پسند مسلمان اور دہشت گرد ہونے کا الزام (ٹھپہ) نہ لگ جائے۔ انکی یہ خاموشی اور ڈر ایک جانب تو یہ ظاہر کرتا ہے کہ ’’اصل حکمران ‘‘ کون ہیں اور دوسری جانب یہ کہ مسلمان ممالک کے حکمران کس حد تک بے بس ہیں۔اس وقت ٖ غزہ میں رواں صدی کا سب سے بڑا ’’انسانی حقوق کا المیہ‘‘ اسرائیلی بربریت کے بطن سے جنم لے رہا ہے۔ رہائشی عمارتوں، سکولوں مساجد کے بعد اسرائیل اب علیٰ الاعلان ہسپتالوں تک کو نشانہ بنا رہا ہے۔ انسانی حقوق کے چیمپئن مغربی ممالک اور انکے سرتاج امریکہ بہادر جن کی حکومتیں یوکرائین میں ہونے والی ایک موت پر رنجیدہ ہو جاتی تھیں انہیںیہ سب نظر نہیں آ رہا ، نہ آئے گا۔ کیونکہ مسلمانوںکو دہشت گرد کہنے والے دراصل خود دہشت گرد اور انتہا پسند ہیں جن کے دہرے معیار ہیں۔ سب سے اہم یہ کہ مسلمان تمام تر وسائل اور بے پناہ دولت رکھنے کے باوجود کمزور ہیں۔ تلخ لیکن حقیقت یہی ہے کہ کمزور کے لیے قانون اور اخلاق کے پیمانے کچھ اور ہوتے ہیں اور طاقت ور کے لیے کچھ اور۔ یہ کچھ اچھنبے کی بات نہیںبلکہ وہی کچھ ہے جو ہم روزانہ اپنی سڑکوں پر دیکھتے ہیں۔کمزور کا والد یا بچہ چاہے ایمبولینس میں دم توڑ جائے جب تک طاقتور کی سواری گزر نہ جائے اسکی ایمبولینس کو راستہ نہیں ملتا۔ کمزور کا قتل چاہے سڑک پر سر عام ہوا ہو ، طاقتور قاتل کو سزا نہیں مل سکتی۔ ہاں وقتی طور پر حکومت ضرورت کے مطابق بیانات ضرور جاری کرتی ہے۔ اسی طرح کے بیانات جاری کرنے کے لیے ’’عالمی حکومت‘‘ کا ترجمان ادارہ اقوام متحدہ ہے۔ اسی لیے تو اقوام متحدہ کے سربراہ یا سیکٹری جنرل نہ ضرورت محسوس کرتے ہیں اور نہ ہمت رکھتے ہیں کہ کھل کر اور صاف الفاظ میں اسرائیل اور صہیونی طاقتوں کی پشت پناہی کرنے والے ممالک سے کوئی سوال کر سکیں ( روکنا تو بہت دور کی بات ہے)۔ جس طرح کشمیر عملی طور پر بھارت کا اندرونی مسئلہ بن چکا ہے ( اور ہم شاید خاموشی سے یہ تسلیم کر چکے ہیں) اسی طرح فلسطین اور غزہ بھی شاید اسرائیل کا اندرونی مسئلہ ہی ہے۔ تمام مسلمان ممالک عملی طور پر یہ حقیقت تسلیم کر چکے ہیں، کچھ ہفتوںیا مہینوں کے بعد اعلان بھی کر دیں گے۔ ویسے تو مسلم ممالک اپنے مشترکہ اعلامیہ میں غزہ کا محاصرہ ختم کر کے وہاں انسانی امداد کی فراہمی اور اسرائیل کو ہتھیاروں کی فراہمی بند کرنے کا مطالبہ کر چکے ہیں لیکن انہو ں نے اس مطالبے کے ساتھ یہ نہیں بتایا تھا کہ اگر انکے مطالبے پر عمل نہ کیا گیا تو یہ کیا کریں گے۔ معلوم نہیں انہوں نے یہ مطالبہ کرنے کے لیے اس سے پہلے اجلاسوں اور تقاریر پر اتنا پیسہ کیوں خرچ کیا کیونکہ اس مطالبے کی حیثیت اور اسرائیل، امریکہ اور مغربی ممالک پر ا نکے مطالبے کا وہی اثر ہوا ہے جو میرے یا آپ کے کسی مطالبے کا ہوتا۔ ان ممالک کے خلاف یا غزہ کے مظلوموں کے حق میں کوئی عملی اقدام کرنے کے ذرائع میں اور آپ نہیں رکھتے اور ذرائع ہونے کے باوجود ایسا کچھ کرنے کا ارادہ ہماری ’’مسلم امہ ‘‘ کے حکمران نہیں رکھتے۔ او آئی سی اور عرب لیگ کے مشترکہ اعلامیہ میں اسرائیلی بربریت، جنگی جرائم اور انسانی حقوق کی پامالی کی مذمت تو کی گئی ہے لیکن اسرائیل کے خلاف کسی قسم کے جنگی، سیاسی یا معاشی اقدامات کا نہ تو کوئی ذکر کیا گیا ہے نہ ارادہ اور نہ ہی اس سلسلے میں کوئی اتفاق رائے۔ ایسے میں اس مذمت کی وہی حیثیت ہے جو ’’مقدس ریسٹورنٹ‘‘ میں بیٹھ کر چائے پیتے دانشوروں کی جانب سے کی گئی مذمت کی ہو سکتی ہے۔ یعنی صفر بٹا صفر۔ میرے خیال میں بہتر یہی ہے کہ ہم بھی اپنے مہنگے انگریزی سکولوں میں پڑھنے والے بچوں کے حقوق کی باتیں کریں اور اسی مناسبت سے تقاریر اور تقاریب۔