مسلم لیگ(ن) کی مصلحت پسند قیادت کے پاس وضاحتوں کے سوا اب رکھا کیا ہے؟۔ میاں نواز شریف کی وطن واپسی پر وہ لاہور میں اتنے لوگ بھی اکٹھے نہ کر سکی جو ڈاکٹر طاہر القادری اور حافظ سعید بآسانی کر لیتے ہیں۔ ایئر پورٹ کا محاصرہ تو خیر مسلم لیگیوں کے بس کی بات نہیںکہ حب الوطنی کے جذبے سے سرشار مسلم لیگی کارکن ایسی غیر قانونی حرکتوں کو درست سمجھتے ہیں نہ وہ اپنی قیادت کی طرح عقل سے پیدل ہیں کہ ناممکن کو ممکن بنانے پر تُل جائیں۔ عافیت پسندی ان کے مزاج کا حصہ ہے اور توڑ پھوڑ پر وہ یقین نہیں رکھتے۔ سیاسی حرکیات سے نابلد مشیروں کی ترغیب اور مریم نواز شریف کے سوشل میڈیا سیل کے پروپیگنڈے سے متاثر ہو کر میاں نواز شریف نے اگر یہ سمجھ لیا تھا کہ پاکستان کے عوام ان کے بے معنی بیانئے کو قبول کر چکے ہیںاور جب وہ اپنے صاحبزادگان کو لندن کی محفوظ پناہ گاہ میں چھوڑ کر لاہور ایئر پورٹ پر اترے تو لاکھوں لوگ ان کے استقبال اور پولیس و انتظامیہ سے ٹکرانے کے لیے موجود ہوں گے تو یہ ان کی غلط فہمی تھی کسی اور کا قصور نہیں۔ لاہور میں لاکھوں لوگوں کے جمع ہونے کی کسی باشعور کو توقع تھی نہ میاں نواز شریف کے ایئر پورٹ سے باہر نکل کر عوام سے خطاب کا دور دور تک امکان؟جو ہوا حسب توقع تھا اور 25جولائی کو جو ہو گا وہ بھی مسلم لیگی قیادت بالخصوص شریف خاندان کی اپنی کرنی کا پھل۔ مستونگ میں بم دھماکے اور سو سے زائد افراد کی شہادت کے بعد میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کو قدرت نے فیس سیونگ کا موقع فراہم کیا ۔ بلوچستان کے دکھی عوام سے اظہار یکجہتی کے لیے ریلی منسوخ کر دی جاتی تو بھرم رہ جاتا اور ناقدین کو یہ کہنے کا موقع نہ ملتا کہ مسلم لیگ اپنے گڑھ لاہور میں متاثر کن شو نہ کر پائی۔ سوا کروڑ آبادی کے شہر میں جہاں مسلم لیگ کے تیرہ ایم این اے‘ بائیس تئیس ایم پی اے‘ درجنوں چیئرمین و وائس چیئرمین اور سینکڑوں کونسلر ہیں بارہ چودہ ہزار افراد اکٹھے کرنا مشکل نہ تھا مگر میاں نواز شریف کے متوالے یہ بھی نہ کر سکے۔ دعوے پورے ملک سے کارکنوں کی آمد کے ہوئے۔گرفتاریوں‘ رکاوٹوں اور ریاستی جبر و تشدد کا پروپیگنڈا غلط ثابت ہوا اور کسی ایک لیڈر کی گرفتاری عمل میں نہ آئی ‘جو یہ کہہ سکتا کہ میں اگر پکڑا نہ جاتا تو دس ہزار افراد سڑک پر لے آتا۔ نگران حکومت کو مصلحت کیش قیادت کی موجودگی میں ضرورت ہی نہیں پڑی۔ناتجربہ کار پروفیسر وزیر اعلیٰ نے تجربہ کار اور ہر فن مولا خادم اعلیٰ کی حکمت عملی کو ناکام بنا دیا۔ میاں نواز شریف ابوظہبی سے لاہور پہنچ گئے مگر پرواز میں تین گھنٹے کی تاخیر کے باوجود مسلم لیگی ریلی ساڑھے چھ گھنٹے میں لوہاری دروازے سے ایئر پورٹ تک نہ پہنچ پائی۔ جب میاں صاحب کو لاہور ایئر پورٹ سے لے کر طیارہ اسلام آباد جا رہا تھا تو ریلی چیئرنگ کراس پر رکی اپنے قائد کے اسلام آباد پہنچنے کا انتظار کر رہی تھی مگر کیوں؟ اک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا۔ بعض لوگ اس سست روی اور تاخیر کو میاں شہباز شریف اور حمزہ شہباز کی طے شدہ پالیسی کا حصہ قرار دے رہے ہیں جس سے مجھے ذاتی طور پر اتفاق نہیں مگر کہنا ان کا یہ ہے کہ میاں نواز شریف نے میاں شہباز شریف اور حمزہ شہباز کی حق تلفی کی‘ مریم نواز کو کسی میرٹ کے بغیر اپنے چھوٹے مگر تجربہ کار بھائی اور بھتیجے پر ترجیح دی اور کئی مواقع پر شہباز شریف کو اسٹیبلشمنٹ کے سامنے شرمندہ کرایا۔ تصادم اور محاذ آرائی کی پالیسی اختیار کر کے صرف مسلم لیگ ہی نہیں خاندان کی مشکلات میں بھی اضافہ کیا جس کا دونوں باپ بیٹوں کو قلق تھا۔ احتساب عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل کے لیے میاں نواز شریف اور مریم نواز کی وطن واپسی قانونی ضرورت تھی مگر اسے بھی دونوں باپ بیٹی نے‘ عوام کے موڈ اور ملکی حالات سے بے بہرہ مشیروں کی شہ پر ایک انقلابی اقدام کے طور پر پیش کرنے کا فیصلہ کیا اور انتخابی معرکے میں شریک امیدواروں اور کارکنوں کو استقبال و احتجاج کی بھینٹ چڑھانا چاہا تو اس مجنونانہ حکمت عملی سے الرجک میاں شہباز شریف اور حمزہ شہباز شریف نے موقع غنیمت جانا اور ’’مقبول بیانئے‘‘ کے غبارے سے ہوا نکالنے کی ٹھان لی۔ میاں شہباز شریف عملیت پسند سیاستدان کے طور پر جانتے تھے کہ گزشتہ پانچ سال میں ہم نے کارکنوں پر کبھی اعتماد کیانہ جماعت کی تنظیم پر توجہ دی اور نہ مسلم لیگ طیب اردوان کی جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی ہے جس کے کارکن ٹینکوں کے آگے لیٹ کر اپنے لیڈر کے اقتدار اور جمہوریت کا تحفظ کریں ۔خوشامدی مشیروں‘موقع پرست قلمی کارندوں اور بندگان زر تجزیہ کاروں نے غالباً میاں صاحب کو یہی باور کرایا ہو گا کہ جونہی ان کا طیارہ پاکستانی حدود میں داخل ہو گا حکومت‘ نیب کی قیادت اور ان کی مخالف اسٹیبلشمنٹ بوریا بستر سمیٹ کر ملک سے باہر جا چکی ہو گی۔ ایئر پورٹ پر فوج کا چاک و چوبند دستہ انہیں سلامی دینے کے لیے موجود ہو گا اور لاکھوں عوام ایئر پورٹ کے اردگرد استقبال کے لیے موجود مگر حج ٹرمینل کے سامنے نیب ٹیم دیکھ کر انہوں نے سوچا ضرور ہو گا۔ ع خواب تھا جو کچھ کہ دیکھاجو سنا افسانہ تھا مسلم لیگی کارکن ٹینکوں کے سامنے کیا لیٹتے‘ انتظامیہ کے روبرو لیٹ گئے۔لاہور کا فلاپ شو انتخابی نتائج پر منفی اثرات مرتب کرے گا اور صرف لاہور نہیں بلکہ پورے پنجاب میں مسلم لیگی کارکنوں کے علاوہ ووٹروں کا حوصلہ پست ہو گا۔ سیاسی کارکن اور ووٹر میاں صاحب کی جیل یاترا سے مایوس ہوں گے اور انہیں یہ سمجھنے میں دقت نہیں ہو گی کہ شریف خاندان اقتدار کے ایوانوں اور اسٹیبلشمنٹ کی گڈ بک سے نکل چکا ہے۔ ڈیل کی اطلاعات اور میاں شہباز کے اعلیٰ سطحی رابطوں کے تاثر نے کارکنوں اور ووٹروں کے حوصلے پست نہ ہونے دیے اور میاں صاحب کی وطن واپسی کو بھی کسی خفیہ مفاہمت سے تعبیر کیا گیا مگر جس انداز میں میاں صاحب اور مریم نواز اڈیالہ جیل پہنچے اور انہیں عام قیدی کی طرح ٹریٹ کیا جا رہا ہے‘ جس کا ٹرائل بھی جیل میں ہو گا ‘وہ عوام کے لیے چشم کشا ہے۔ ہمدردی کی جس لہر کا پروپیگنڈا ہمارے تجزیہ کاروں اور دانشوروں نے شدومد سے کیا وہ کل سب کو نظر آ گئی‘ دن دیہاڑے آ گئی۔ تیس سال تک اقتدار میں رہنے والے سابق وزیر اعظم کو اگر ریاست کی طاقت کا علم ہے نہ عوام کے مزاج کا اور نہ مسلم لیگی کارکنوں کی افتاد طبع کا تو اللہ تعالیٰ ان کے حال پر رحم فرمائے۔ جس ’’دانا‘‘ مشیر نے میاں صاحب کو مشورہ دیا تھا کہ غیر ملکی پرواز میں ستر اسیّ کن ٹٹے بٹھا کر لاہور ایئر پورٹ پر اے ایس ایف ‘ پولیس‘ رینجرز اور فوج کو ناکوں چنے چبوائے جا سکتے ہیں اور پاکستانی چینلز کے لندن میں مقیم نمائندوں کے علاوہ چند اینکروں کی موجودگی کا فائدہ اٹھا کر قوم سے خطاب ممکن ہے‘ فوج اور عدلیہ کو ایک بار پھر گالیاں دی جا سکتی ہیں‘ اس کے بارے میں میاں صاحب اڈیالہ جیل میں بیٹھ کر سوچیں ضرور کہ وہ ان کا دانا دشمن ہے یا نادان دوست؟ پاکستان بنانا ری پبلک نہیں‘ اگرچہ میاں صاحب نے بنانے کی ہر ممکن سعی ضرور کی اور نہ یہاں جنگل کا قانون ہے کہ ساٹھ ستر کن ٹٹوں اور دو چار ہزار کرائے کے مظاہرین کے بل بوتے پر من مانی کی جا سکے۔ سوشل میڈیا کے مجاہدین اور مریم نواز کے ٹوئٹس سے انقلاب لانا ممکن ہوتا تو احتساب عدالت سے دس سال قید بامشقت ملنے پر آ جاتا ۔اگر وہ دن خیرو عافیت سے گزر گیا پاکستان پر کوئی قیامت نہیں ٹوٹی‘ کوئی آفت نہیں آئی تو 13جولائی کو ذرہ بھر امکان نہ تھا خوش فہمی کا البتہ کوئی علاج نہیں۔28جولائی کے فیصلہ کے بعد موٹر وے کے بجائے راولپنڈی سے لاہور براستہ جی ٹی روڈ اور 13جولائی کو لندن سے بذریعہ لاہور ایئر پورٹ واپسی کا سفر‘ سفر رائیگاں تھا جس کی قیمت شریف خاندان چکا رہا ہے۔ بانس پر چڑھانے تقریریں رٹانے‘ اورثمر پانے والے مشیرگھروں میں بیٹھے شاداں و فرحاں ہیں۔ اور ایک دوسرے سے کہہ رہے ہیں ع ہاتھ لا استاد کیوں کیسی کہی