پاکستانی ریاست ہو یا ہماری مختلف حکومتیں، ان پر تنقید کرنے والوں کی کبھی کمی نہیں رہی۔اس حوالے سے پاکستانی خود کفیل رہے ہیں۔ ہر نسل، رنگ، سوچ اور سٹائل کا ایک سے بڑھ کر ایک تیز، تلخ ، کاٹ دار جملے اچھالنے والا ہمارے ہاں موجود ہے۔ معمولی سی غلطی پر رعایت نہیں دی جاتی، بلکہ کبھی تو غلطی کا انتظار بھی نہیں ہوتا، پہلے ہی سے حفظ ماتقدم کے تحت ایک عدد مذمتی تقریر جاری کر دی جاتی ہے۔ شاعری میں ٹیپ کے مصرع یا شعر(مخمس، مثلث وغیرہ کا آخری شعر) کی اصطلاح موجود ہے، یہ بار بار آتا ہے۔ اکثر قدرے طویل فلمی نغمے سنتے ہوئے ایک مصرع یا شعر کو بار بار دہرایا جاتا ہے، اسے ٹیپ کا شعر کہتے ہیں۔ہمارے ہاں مذمتی تقریروں میں ٹیپ کا مصرع ’’یہاںسب برا ہے، یہاں کچھ نہیں ہونا‘‘ہے۔ یہ عمومی مذمتی رویہ صرف سیاست کے لئے مخصوص نہیں۔ایک حلقہ ایسا ہے جو ہمیشہ اپنے وطن، دھرتی سے نالاں ،ناخوش رہتا ہے یا پھر انہیں لگتا ہے کہ ہر بات کو تنقید کا نشانہ بنا کر وہ خود کو غیر جانبدار ثابت کریں گے اور واہ واہ سمیٹیں گے۔ ملک میں خواہ کچھ بھی اچھا ہوجائے، حکومتیں لاکھ مثبت، اچھا قدم اٹھائیں، انہیں کسی بات کو سراہنے کی توفیق نہیں ہوگی۔ الٹا تیوریوں پر بل پڑ جائیں گے، کسی نے تعریف کر دی تو فوراً پنجے جھاڑ کر پیچھے پڑجائیں گے۔جیسے ہی کسی دشمن یا مخالف ملک نے پاکستان پر الزام لگایا، ان کی باچھیں کھل جاتی ہیں۔’’ دیکھا، میں نے کہاتھا ناں ‘‘ جیسا چہرہ بنا کر فوراً ملک، قوم اور حکومت کو لتاڑنا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ معلوم کرنے کی زحمت ہی نہیں فرماتے کہ الزام درست ہے یا محض پروپیگنڈے کا حصہ؟ خیر ان دونوں طرح کے حلقوں کوخبر ہو کہ اس بار انہیں خاصی مایوسی کا سامنا کرنا پڑے گا۔پچھلے چار پانچ دنوں میں دو اہم واقعات ہوئے۔ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے پاکستان کا دورہ کیا اوردونوں ممالک کے مابین ایک نئے، پرامید، روشن فیز کا آغاز ہوتا نظر آرہا ہے۔ دوسرا بھارت نے پلوامہ ، مقبوضہ کشمیر میں فوجی کانوائے پر حملہ کی ذمہ داری پاکستان پر ڈالنے اور اس بہانے ہمیں دنیا بھر میں تنہا، الگ کرنے کی کوشش کی، وہ بڑی حد تک ناکام ہوتی نظر آ رہی ہے۔ عمران خان کے بارے میں ن لیگ اور ان کے میڈیا سیلز سے وابستہ لکھاریوں نے یہ تاثر عمدگی سے پھیلا دیا تھا کہ خان صاحب اپنے تیز تبصروں کی وجہ سے پاکستان کے روایتی دوست ممالک چین، سعودی عرب، امارات ، ترکی وغیرہ میں سخت ناپسندیدہ شخصیت کا درجہ اختیار کر چکے ہیں ، اگر کبھی عمران خان وزیراعظم بنے تو پھر خارجہ پالیسی کا اللہ ہی حافظ ہوگا۔ اس تاثر کے بالکل برعکس ہوا ہے۔عمران خان کی داخلی پالیسیوں پر تو ابھی سوال اٹھائے جاسکتے ہیں،ایک شعبہ جسے تسلی بخش اور کامیاب کہا جا سکتا ہے، وہ خارجہ پالیسی ہی ہے۔ نئی حکومت نے چین کے ساتھ بڑے اچھے، خوشگوار تعلقات قائم کئے، ترکی کے ساتھ معاملات بہتر کئے۔آج سعودی عرب اور پاکستان کے تعلقات تاریخ کے سب سے اونچے اور بلند مقام پر پہنچ گئے ہیں۔ سعودی ولی عہد کا دورہ جتنا کامیاب رہا، انہوں نے جس مثبت، دوستانہ باڈی لینگویج کے ساتھ مذاکرات اور ملاقاتیں کیں، اس نے ہر ایک کو حیران رکھ دیا۔ مسلم لیگ ن کے حلقے تو ابھی تک مبہوت ہیں، انہیں سمجھ ہی نہیں آ رہی کہ کیا کہیں۔ ایک دو نے منمنا کر کہا کہ یہ سب کچھ ان کی حکومت میں طے ہوگیا تھا۔ کسی نے اس بات کو تبصرے کے قابل ہی نہیں سمجھا ۔ میرے خیال میں پاکستانی حکومت نے بڑے اچھے طریقے سے سعودی ولی عہد کے وزٹ کو ہینڈل کیا۔ جس قدر غیر معمولی دورہ تھا، اس کو ایسے ہی تاریخی اور پرجوش انداز میں سیلی بریٹ اور ہائی پروفائل بنانا چاہیے تھا۔ عمران خان سے ہمیشہ کسی نہ کسی بھول چوک کی توقع رہتی ہے۔ وہ طبعاً اتنے فارمل آدمی نہیں ، مگر اس بار انہوں نے عمدگی سے اپنا کردار نمٹایا۔ سعودی ولی عہد کے تقریر کے بعد وہ دو منٹ کے لئے کھڑے ہوئے اور جس دلسوزی سے سعودی عرب میں مقیم پاکستانیوںکے مسائل کا تذکرہ کیا، وہ نہایت دل خوش کن تھا۔ معزز مہمان نے جوابی طور پر ویسی خیر سگالی دکھائی۔ ایک حلقے نے سوشل میڈیا پر خاص طور سے سعودی مہمان کے دورے کو متنازع بنانے کی کوشش کی، وہ نامناسب اور افسوسناک تھا۔ مہمان کی تکریم ہماری روایت ہے، اس کے حوالے سے بدزبانی کا کوئی جواز موجود نہیں۔لوگوں کوامید کرنی چاہیے کہ ان تعلقات سے کسی دوسرے برادر ہمسایہ ملک کو نقصان نہیں پہنچے گا۔ پلوامہ حملے کو بھارت نے پاکستان پر ڈالنے کی پوری کوشش کی،مگر ناکامی ہوئی۔ اس کی وجوہات واضح ہیں۔ پہلی بار ایسا ہوا کہ حملہ آور نہ صرف بھارتی کا رہائشی ، کشمیری بلکہ وہاں کے ایک معروف مقامی گھرانے سے تعلق تھا۔یہ نہیں کہا جا سکتا کہ حملہ آور پاکستان سے آیا۔ دوسرا بارود بھی مقامی سطح پر حاصل کیا گیا، یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ پاکستانی مدد سے دھماکہ ہوا۔ایک کالعدم جہادی تنظیم جیش محمد پر یہ ذمہ داری ڈالی گئی ، حملہ آور کی ویڈیو میں بھی اس کا نام لیا گیا۔ عسکریت پسندی کو مانیٹر کرنے والے جانتے ہیں کہ جیش محمد برسوں پہلے ٹوٹ پھوٹ گئی تھی ، اس کے بیشتر سپلنٹر گروپ ٹی ٹی پی، القاعدہ کا حصہ بن گئے۔ جیش محمد نے ماضی کی معروف جہادی تنظیم حرکت المجاہدین کے وجود سے جنم لیا تھا۔ جب مسعود اظہر رہا ہو کر پاکستان آئے، تب اس تنظیم کا وجود عمل میں آیا۔ یہ اٹھارہ، انیس برس پہلے کا قصہ ہے۔ آج جہادی تنظیموں کے تناظر میں جیش محمد صرف ایک نام، ایک سایہ ہی ہے۔ اگر حزب المجاہدین کی بات کی جاتی تو بات سمجھ میں آ جاتی۔ لشکر طیبہ کا پاکستان چیپٹر ختم ہوچکا، مگر مقبوضہ کشمیر میں شائد اکادکا لڑکے اس کے موجود ہوں۔ جیش محمد کا تو نہ صرف سٹرکچر ختم ہوابلکہ اس کے فیلڈ جنگجو بھی ٹی ٹی پی میں شامل ہو کر پاکستانی فورسز کے ہاتھوں مارے یا گرفتار ہوچکے۔ اس لئے یہ کہنا کہ جیش محمد نے یہ کارروائی کرائی ، تو بات منطقی طور پر جچی نہیں۔ جیش کے پاس وہ سیٹ اپ ہی نہیں۔ یہ البتہ ممکن ہوسکتا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے نوجوان اس تنظیم کو آئیڈیلائز کرتے ہوئے اپنے طور پر اس کا نام استعمال کر رہے ہوں۔ اس میں مگر پاکستان کا کیا قصور ؟چی گویرا کی استعمار کے خلاف جدوجہد کو دنیا کے بے شمار ممالک میں انقلابی نوجوان آئیڈیلائز کرتے ، اسی انداز کی ٹوپی پہنتے اور خود کو چی کا کامریڈ کہتے۔ ظاہر ہے چی گویرا تو اس سب کے لئے ذمہ دار نہیں تھا۔ اگر ہم چند منٹ کے لئے خود کو پاکستانی نہ سمجھیں اور غیر جانبداری سے اس ایشو پر غور کریں ، تب بھی حیرت ہوگی کہ پاکستان اپنے نازک ترین دور سے گزر رہا ہے، کئی اطراف سے الجھا ہوا، دیوالیہ ہونے کے خدشے سے دوچار۔ ایک طرف ایف اے ٹی ایف کامعاملہ ہے، پاکستان ہر حال میں بلیک لسٹ ہونے سے بچنا چاہ رہا ہے، اس میں اصل رکاوٹ ہی کالعدم تنظیمیں، ان کی فنانسنگ روکنے کے معاملات ہیں۔ چین کا سی پیک اپنے فیصلہ کن دور میں داخل ہورہا، چینی حکومت کا دبائو ہے کہ ہر قسم کی جہادی تنظیموں سے ہاتھ کھینچا جائے۔ چین بار بار عالمی فورم پر مسعود اظہر کو دہشت گرد قرار دلوانے کی بھارتی کوششوں کو بلاک کر رہا ہے، ایسے میں کون پلوامہ حملے جیسی غلطی کرے گا، جس کے بعد چین کے لئے بھارتی قرارداد کو بلاک کرنا ممکن نہ رہے۔ اس کے ساتھ ساتھ طالبان امریکہ مذاکرات اسلام آباد میں کرانے کا فیصلہ ہوگیا تھا۔ پاکستان امریکہ تعلقات میں موجود برف پگھل رہی ہے۔ سعودی شہزادہ ایک غیر معمولی دورے پر پاکستان پہنچنے والاتھا، اس دورے سے عین دو دن پہلے ایسا ہائی پروفائل حملہ کون کرا سکتا ہے؟ تھوڑا غیر جانبدار ہو کر سوچیں تو بات سمجھ آ جاتی ہے کہ پاکستان کسی بھی طرح اس قسم کے ایڈونچر کا متحمل نہیں ہوسکتا تھا۔ پھر اس کا پاکستان کو کیا فائدہ ملنا تھا یا ملا؟ کچھ بھی نہیں۔ اس حملے کے نتیجے میں پاکستان کے موجودہ مصائب ، پریشانیوں ، مسائل میں بے پناہ اضافہ ہوجانے کے امکانات تھے بلکہ ابھی تک ہیں۔ اس لئے اس میں پاکستانی کنکشن ڈھونڈنا عقلمندی نہیں۔ بھارت کا رویہ عجیب جنونی سا رہا ۔ چلیں مودی حکومت کی تو سمجھ آ تی ہے کہ ان کا تو’’ بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا‘‘ والے محاورے والا حال ہوا۔ وہ تو نہال ہوگئے کہ چلو اب اینٹی پاکستان جذبات کی بنیاد پر الیکشن جیتا جائے۔ بھارتی میڈیا کو کیا ہوا؟ لگتا ہے جنونیوں اور پاگلوں کا حلقہ ہے جس کے ہاتھ میں تمام بھارتی چینلز، ویب سائٹس ، اخبارات ہیں۔دنیا میں ایسا کہاں ہوتا ہے؟بھارتیوں نے یہ ثابت کر دیا کہ وہ دنیا کی چھٹی طاقت بننے کے قابل نہیں۔ ان میں بڑے ملک والا تحمل ، برداشت اور سمجھ بوجھ ہی نہیں۔نیوز چینلز تو ایک طرف سپورٹس کوریج کرنے والی کمپنیوں نے اپنے معاہدے توڑ کر پی ایس ایل نہ دکھانے کا فیصلہ کیا۔ موسیقی کی کمپنیوں نے پاکستانی گلوکاروں کے نغمے یوٹیوب سے ہٹا لئے۔ یہ تو پاگل پن ہے۔ہم پاکستانیو ں کو جذباتی اور شدت تک پہنچ جانے والی قوم سمجھتے تھے۔بنگلہ دیش کی وزیراعظم حسینہ واجد کے جنون اوراب بھارتیوں کو دیکھ کر اپنی قوم کی قدر ہوئی ہے۔ یہاں تو بہت کچھ دوسروں سے بدرجہا بہتر ہے یارو۔