اگر یک سرِ موئے برتر پرم فروغ تجلی بسوزد پرم یہ بات کتنی بھی سچ کیوں نا ہو‘ یہ موقف کتنا بھی درست کیوں نا ہو‘ اس کا اس وقت یوں بیان کرنا کسی طور مناسب نہیں ہے۔ یہ سرل المیڈا کون ہیں۔ یہ ڈان لیکس میں بھی پیش پیش تھا اور آپ نے اسے اتنی چاہت سے انٹرویو دیا ہے۔ اس کی وجہ کیا ہے۔ مجھے معلوم ہے یہ کوئی نئی بات نہیں ہے کہ ہمارے ذمہ دار افراد نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ ممبئی سانحے کے کردار اس سرزمین سے گئے تھے۔ تاہم دنیا نے اس کا اعتبار کیا ہے کہ اسے پاکستان کے کسی سرکاری ادارے نے نہیں بھیجا تھا۔ بلکہ یہ غیر سرکاری اداروں کی سرگرمی تھی۔ جنرل پرویز مشرف اور ہماری خفیہ ایجنسی کے سربراہ جنرل پاشا نے ماضی میں کچھ ایسی باتیں کہیں ہیں جنہیں اس زمانے میں اسی طرح قابل اعتراض کہا گیا۔ مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان نے بہت سے افراد کے خلاف کارروائی کی ہے۔ حافظ سعید گرفتار ہوئے ‘ مولانا لکھوی جیل میں ڈالے گئے۔ لشکر طیبہ ‘ جماعتہ الدعوۃ پر پابندی عاید کر دی گئی۔ اس لیے یہ کوئی نیا بیانیہ نہیں ہے۔ پھر بھی اس وقت اسے بیان کرنے کی ضرورت نہ تھی۔ یا جو سوال اس کے ساتھ نتھی کیا گیا کہ آخر مقدمے کا فیصلہ کیوں نہیں ہوتا‘ وہ یقینا اسے ایک نیا رخ دیتا ہے۔ چودھری نثار نے اس کی وضاحت کی ہے کہ اس مقدمے کے فیصلے کی تاخیر میں پاکستان کا کوئی قصور نہیں ہے۔ بھارت نے تعاون ہی نہیں کیا۔ اجمل قصاب تک رسائی بھی نہیں دی۔ یہی تو اس مقدمے کا اصل کردار ہے جس کے بارے میں اس دن سے یہ بات سامنے آ رہی ہے کہ وہ پہلے ہی بھارتی حراست میں تھا۔ اسے نیپال سے گرفتار کیا گیا تھا۔ دنیا میں بہت سا مواد ایسا شائع ہو چکا ہے جو بھارتی موقف کے بخیے ادھیڑ کر رکھ دیتا ہے۔ یہ سب باتیں درست ہیں تاہم اس وقت اس بات کو ایک ایسے شخص کو بیان کرنا جو پہلے ہی آپ کے لیے مشکلات پیدا کر چکا ہے کہاں کی عقل مندی ہے۔ اس کا کس سے تعلق ہے۔ ڈان لیکس میں بہت سے سر اڑائے گئے۔اہم لوگوں کو سزائیں ہوئیں۔ کسی نے اس شخص سے پوچھنے کی جرأت نہ کی کہ اس نے یہ خبر کس بنا پر دی۔ آج وہی شخص اس خبر کا بھی مرکزی کردار ہے۔ نہیں میاں صاحب‘ نہیں‘ اپنے گرد اپنے ساتھیوں پر نظر ڈالیے۔ جب مسلم لیگ کی حکومت بن رہی تھی تو میں نے عرض کیا تھا کہ ذرا افراد کے انتخاب میں احتیاط کیجیے۔ جس طرح آدمی اپنے ساتھیوں سے پہچانا جاتا ہے‘ اس طرح ایک لیڈر کی پہچان وہ ٹیم ہوتی ہے جو وہ اپنے لیے منتخب کرتا ہے۔ عرض کیا تھا‘ احتیاط کیجیے جب یہ ٹیم منتخب ہوئی تو بعض لوگوں کے انتخاب پر حیرانی ہوئی۔ بعض اوقات چاہے جتنے بھی وفادار رہے ہوں‘ وہ اس عہدے کے سزاوار نہ تھے جو انہیں سونپا گیا۔ مسلم لیگ کا اپنا مزاج ہے ۔ اس کے بعض مناصب ایسے ہیں جو مخصوص ذہن کے افرادپر کرتے ہیں۔ افسوس اس کا خیال نہ رکھا گیا جہاں اتنا برداشت کیا اس وقت بھی احتیاط کرنا چاہتا ہوں۔ کوئی بات بھی اہم نہیں ہوتی۔ یہ بھی اہم ہوتا ہے کہ وہ بات کہاں اور کب کہی گئی۔ جب میاں صاحب نے اپنی وہ متنازعہ تقریر کی بعض لوگوں کی نظر میں ایک طرح سے نظریہ پاکستان کی نفی ہوئی تھی تو میاں صاحب سے براہ راست عرض کیا تھا کہ آپ کی یہ تقریر مناسب نہیں۔ یہ کونسل آف نیشنل افیئرز کے ایک وفد کی ان سے جاتی امرا میں ملاقات تھی۔ عرض کیا کہ آپ کو یہ تقریر سیفما ہی میں کرنا تھی جو بھارت سے دوستی کے لیے معروف ہے یا یوم آزادی پر کرنا تھی جو بھارت کے حوالے سے ہمیں بہت سے دکھ یاد دلاتا ہے۔ جگہ اور وقت اہم ہوا کرتا ہے۔ مجھے یاد ہے ‘ میں نے یہ مثال بھی دی تھی کہ جب بش نے عراق پر حملے کا اعلان کرنا تھا تو اس کے لیے ایک امریکن انٹرپرائز انسٹی ٹیوٹ کا انتخاب کیا جو عراق پر حملے کا سب سے بڑا حامی سمجھا جاتا ہے۔ آپ نے بھارت سے دوستی کے لیے اس ادارے کا انتخاب کر کے کوئی اچھا نہیں کیا‘ کوئی درست پیغام نہیں دیا۔بھارت سے دوستی کوئی برا خیال نہیں۔ کون ہے جو اس کا حامی نہ ہو‘ مشرف ایک طرف کہتے ہیں کہ ہم نے واجپائی کو سلیوٹ نہیں کیا‘ دوسری طرف تاریخ بدلنے کے لیے آگرہ جا پہنچے تھے اور آخری وقت تک کشمیر پر کوئی ایسا حل ڈھونڈتے رہے جو پاکستان کے روایتی موقف سے ہٹ کر تھا۔ یہ کہنا کہ فوج اچھے تعلقات نہیں چاہتی‘ درست نہیں‘ مگر ابھی تو وہ صورت حال نہیں آئی کہ ہمارے سویلین لیڈر یہ بات کھل کر یا سلیقے سے بھی کر سکیں۔ آصف زرداری‘ بے نظیر بھٹو کون ہے جن کے بیانات کو مشکوک قرار نہیں دیا گیا‘ تاہم مسلم لیگ کے رہنما کی طرف سے اس طرح کے بیانات بہت احتیاط کا تقاضا کرتے ہیں۔ مجھے معلوم ہے کہ میاں نواز شریف پاکستان میں نان سٹیٹ ایکٹرز کی ہر طرح کی ان سرگرمیوں کے مخالف ہیں جن سے دنیا میں پاکستان کے خلاف انگلیاں اٹھائی جا سکیں۔ مجھے یاد ہے کہ سری لنکا کے دورے کے دوران جب میں بھی اس وفد میں شامل تھا۔ پٹھان کوٹ کا واقعہ پیش آ گیا۔ انہوں نے ہمیں تو اتنا بتایا کہ انہیں خبر ہے کہ اس کے پیچھے کون ہے‘ مگر لگتا تھا وہ بہت پریشان ہیں اور اس کے ان کرداروں کو کیفر کردار تک پہنچانا چاہتے ہیں جو ممکنہ طور پر پاکستان میں ہو سکتے ہیں۔ اس معاملے میں وہ بہت یک سو تھے۔ یہ سب درست ہے‘ میں نے عرض کیا ہے ہر بات کا وقت ہوتا ہے اور جگہ بھی۔ آپ کو سرل المیڈا ہی اس کام کے لیے ملا تھا۔ پھر آپ نے یہ بیان ان دنوں دینا تھا جب صاف دکھائی دیتا ہے کہ آپ کی اداروں سے ٹھن چکی ہے اور آپ کہہ بھی چکے ہیں کہ سدھر جائو وگرنہ وہ بھی زبان پر لے آئوں گا جو نہیں آنا چاہیے۔ جہاں تک اداروں سے آپ کی لڑائی کا تعلق ہے‘ اس بارے میں دو آرا ہو سکتی ہیں۔ میرے جیسے سمجھ سکتے ہیں کہ آپ کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے۔ عدالت کے فیصلے کے خلاف بھی ہم نے آواز اٹھائی ہے مگر یہ برداشت نہیں کہ آپ کے منہ سے ایسی بات نکلے جس سے یہ تاثر ابھرے کہ آپ پاک فوج کے خلاف کسی ایسی بات کا اشارہ بھی دیں جو ملکی مفاد کے خلاف ہو۔ ہم حالت جنگ میں ہیں۔ ہماری فوج کئی محاذوں پر الجھی ہوئی ہے۔ کراچی‘ بلوچستان اور فاٹا میں فوج کو سخت آپریشن کرنا پڑے۔ اب خاص طور پر خیبر پختونخواہ کے علاقے میں ایک طرح کی مزاحمتی تحریک اٹھ کھڑی ہوئی ہے۔ ایسے میں پنجاب میں فوج کے حوالے سے کسی بھی قسم کے منفی رجحانات پیدا ہونا‘ پاکستان کے لیے مہلک ہے۔ میجر عامر کی حب الوطنی پر کون شک کر سکتا ہے۔ وہ ابھی دو چار روز پہلے لاہور میں ایک تقریر میں کہہ رہے تھے۔ مجھے فوج سے نقصان پہنچا ہے میرا سارا کیرئر ختم ہوا میں جیل میں رہا۔ مگر فوج کو کوئی نقصان پہنچا تو یہ پاکستان کو نقصان ہو گا۔ آج محمود خاں اچکزئی کوئٹہ میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ کھڑا یہ کہتا ہے کہ دیکھا تم نے میں نے پنجابی سیاستدان کو پنجابی قوم سے لڑا دیا ہے۔ یقینا یہ خطرناک صورت حال ہے۔ میں نے عرض کیا کہ افراد اور وقت کا انتخاب بہت اہم ہوتا ہے۔ محمود خاں اچکزئی کے پہلو میں کھڑے ہو کر آپ یہ کہیں گے کہ میں نظریاتی ہو گیا ہوں تو اس کے غلط معنی لیے جائیں گے حالانکہ اس کام کے لیے اچکزئی ہی نہیں‘ پرویز رشید کا ساتھ ہی کافی ہے۔ خدا کے لیے احتیاط برتیے۔ ایک بات عرض کیے دیتا ہوں۔ آپ کے جانثار بے شمار ہیں مگر یہ ایک حقیقت کہ آپکے جانثاروں کی اکثریت فوج کی بھی جانثار ہے فوج کے ساتھ کھل کر لڑائی کا تاثر پاکستان کے لیے تو نقصان دہ ہو گا ہی‘ مگر خود آپ کی سیاست کے لیے بھی اس کے مثبت اثرات نہ ہوں گے۔ لہٰذا اپنے گرد اکٹھے لوگوں پر نظر ڈالیے۔ کہیں ان میں اور آپ کے گرد اکٹھے ہجوم میں بہت فرق تو نہیں ہے۔ میری بات سمجھیے۔ یہ بات میں آپ ہی کے مفاد میں نہیں‘ پاکستان کے مفاد میں بھی کہہ رہا ہوں۔ ؎ اگر یک سرِ موئے برتر پرم فروغ تجلی بسوزد پرم