وزیراعظم عمران خان کے شفافیت کے نعرے کو اس بات سے تقویت حاصل ہو گئی ہے کہ حکومت نے خود ہی وہ فہرست جاری کر دی جس کے مطابق معاونین خصوصی اور مشیروں کی انیس رکنی ٹیم میں سے دس بیرون ملک جائیدادوں کے مالک ہیں۔نیز خود حکومتی وزرا جن میں وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چودھری اور وزیر ہوا بازی غلام سرور خان شامل ہیں کے یہ خدشات درست ہیں کہ یہ غیر منتخب ارکان ایک ایک بیگ لے کر آئے ہیں اور اقتدار کے خاتمے پر بیگ لے کر واپس چلے جائیں گے ۔ان میں سے بعض کے پاس تو غیر ملکی شہریت ،گرین کارڈ اور ریذیڈینسی ہے ۔سب سے دلچسپ کیس وزیراعظم کے معتمد خصوصی، یار غار اور مددگار سید ذوالفقار عباس بخاری کا ہے ۔ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے امور کے بارے میں معاون خصوصی کے پاس برطانیہ میں 4.85 ملین پونڈ یعنی اڑتالیس لاکھ پچاس ہزار پونڈ مالیت کا لندن کے ایک فیشن ایبل علاقے میں پر تعیش گھر ہے جو پاکستان کے حساب سے سوا دس کروڑ روپے مالیت کا ہے ۔ اس کے علاوہ ان کے پاس برطانیہ میں گیارہ اپارٹمنٹس ہیں جن کی ما لیت 3.65 ملین پونڈ بنتی ہے مزید برآں ان کی ایک آف شور کمپنی بھی ہے ۔زلفی بخاری برطانوی پاسپورٹ ہولڈر بھی ہیں۔ اسی طرح معاون خصوصی برائے پٹرولیم ندیم بابر بھی امریکی شہری ہیں اور ان کے امریکہ میں خاصے اثاثے موجود ہیں ۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ خان صاحب کی ٹیم کے وہ رکن جو ہر وقت رطب اللسان رہتے ہیں کہ شریف برادران اور آصف زرداری کو پاکستان سے کوئی دلچسپی نہیں کیونکہ ان کے پاس غیر ملکی جائیدادیں اور بینک اکاؤنٹس ہیں بھی ا سی حمام میں کھڑے نظر آتے ہیں۔ مثال کے طور پر ڈاکٹر شہبازگل جو امریکی یونیورسٹی آف ایلینوس میں پروفیسر رہے ہیں کا بھی اسی ریاست میں13کروڑ روپے سے زائد مالیت کا گھر ہے۔ معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر جو اسی وقت میڈیا پر آتے ہیں جب انھوں نے شریف برادران کے اثاثوں کے بارے میں انکشافات کرنے ہوں نے اپنی اہلیہ کے نام پر سپین میں گھر لے رکھا ہے، یہ فہرست لامتناعی ہے ۔ اس معاملے میں اپوزیشن نے ہاہا کار فطری طور پر مچائی ہے ۔پیپلزپارٹی نے دوہری شہریت رکھنے والے مشیروں اور وزیروں کو برطرف کرنے کا مطالبہ کیا ہے،مسلم لیگ (ن) بھی یہی کہہ رہی ہے تاہم حکومت قانونی اور آئینی طور پر ایسا کرنے کی پابند نہیں ہے ۔ اگرچہ سیاسی اور اخلاقی طور پر پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کے داعی اور سادگی کا درس دینے والے حکومتی سربراہ کے قول و فعل میں تضاد نمایاں ہے ۔ یہ تو تسلیم کرنا چاہیے کہ متذکرہ فہرست کسی عدالتی حکم کے تحت جاری نہیں کی گئی اور تحریک انصاف کی بیرون ملک پاکستانیوں میں سپورٹ بیس بھی ہے لیکن اس صورتحال میں سیاسی اور آئینی طور پر اتنی تعداد میں ایسے لوگوں کو کلید ی عہدے دے دینا پارلیمانی نظام کی سپرٹ کے خلاف ہے ۔ یہ لوگ کابینہ کے اجلاس میں شرکت کرتے ہیں، ان میں سے بعض وزرائے مملکت کی حیثیت سے وہاں بیٹھتے ہیں جیسا کہ ندیم بابر کہنے تو معا ون خصوصی ہیں لیکن عملی طور پر انھوں نے وزیر توانائی و پٹرولیم عمر ایوب اور وزارت تیل و گیس دونو ں پر کاٹھی ڈالی ہوئی ہے یہی حال دیگر محکموں میں بھی ہے گویا کہ عملی طور پر وہ افراد جو پارلیمنٹ کے سامنے جوابدہ نہیں ہیں حکومت چلا رہے ہیں۔ غیر منتخب افراد کو معاون خصوصی یا مشیر بنانے کی سپرٹ یہ ہے کہ یہ اپنے شعبوں میں ماہر ہوں لیکن اتنی بڑی تعداد پارلیمانی نظام کی روح کے خلاف ہے ۔ حکومتی ترجمان پولے منہ سے کہہ رہے ہیں کہ گزشتہ دور حکومت میں بھی خصو صی معاونین کی تقرری کی گئی اورآئین بھی اجازت دیتا ہے لیکن اتنی بڑی تعداد میں معاونین خصوصی نے عملی طور پرپارلیمانی نظام کو نیم صدارتی نظام بنا دیا ہے ۔ سپریم کورٹ نے ان خدشات کا اظہار کیا تھا کہ اگر قومی سلامتی کے بارے میں حساس معلومات ایسے لوگوں کے پا س ہونگی جوغیر ملکی شہریت رکھتے ہیں تو وہ غیر ملکی طاقتیں جن کے وہ شہری ہیں ان پر دباؤ ڈال سکتی ہیں۔ امریکہ سمیت بعض ممالک میںقانون اجازت ہی نہیں دیتا کہ ان کا کوئی شہری کسی دوسرے ملک کی سرکاری ملازمت کرے ۔ بعض معاونین خصوصی کابینہ کے باقاعدہ رکن نہ ہونے کے باوجود اپنے اپنے محکموں کی سربراہی کر رہے ہیں اور اس لحاظ سے انھیں معمول کے مطابق کابینہ کے اجلاسوں میں شامل کیا جاتا ہے ۔ظاہر ہے کہ اس سے وہ وزراء جو پاپڑ بیل کر منتخب ہو کر آئے ہیں دیکھتے ہیں کہ کئی خصوصی معاونین اور مشیر وزیراعظم کی کور ٹیم میں شامل نظر آتے ہیں جبکہ انھیں وہ اہمیت نہیں دی جاتی جس کے وہ خود کو مستحق سمجھتے ہیں ۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں خود حکمران اتحاد میں بھی بے چینی پائی جاتی ہے کہ وہ لوگ جو غیر منتخب ہیں انھیں ان کے مقابلے میںزیادہ رسائی کیوں حاصل ہے کیونکہ ان میں سے اکثر کو وزیراعظم سے ہاتھ ملانے کا موقع بھی نہیں ملتا ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ان غیرمنتخب خواتین وحضرات کی اکثریت جن کے پاس غیر ملکی شہریت یا جائیدادیں ہیں جب حکومت کا سنگھاسن ڈولے گا تو اپنا سامان پیک کر کے واپس چلے جائیں گے گویا کہ وہ حلوہ کھانے آئے ہیں اور حلوہ کھا کر چلتے بنیں گے ۔اتنے بڑے انکشاف کے بعد حکومت کے پاس اس کے سوا کوئی راستہ نہیں کہ ان معاونین خصوصی اور مشیروں کی فوج ظفر موج میں سے اکثریت کی چھٹی کرائی جائے یہی پارلیمانی نظام کا تقاضا ہے ۔بعض مبصرین کا تو خیال ہے کہ کابینہ ڈویژن کی طرف سے ان کی فہرست جاری کر کے انھیں قربانی کا بکرا بنا کر خان صاحب سیاسی کریڈٹ لیں گے ۔اگر حکومت نے اس معاملے میں کچھ نہ کیا تو غالب امکان ہے یہ معاملہ عدالت میں جائے گا ۔