معلوم ہوا کہ کہ معمر اسپیکر صاحب روزانہ دس کلومیٹر کی مسافت سائیکل کے ذریعہ طے کرکے اپنے دفتر پہنچتے ہیں۔ ان سے بھی میں نے سوال کیا تھا کہ ان کا ملک بد عنوانی سے کیسے پاک ہے؟ ان کا کہنا تھا کہ ان کے سیاسی نظام میں بد عنوانی کی گنجائش نہیں ہے۔ مثال کے طور پر انتخابی مہم چلانے کے لئے سیاسی پارٹیوں کو قومی خزانے سے رقم دی جاتی ہے۔ لائکے ٹافٹ نے بتایا کہ ’’اس کا طریقہ کاریہ ہے کہ سابقہ الیکشن میں جو پارٹی قومی او رعلاقائی سطح پر جتنا ووٹ حاصل کرتی ہے اسی کے حساب سے اسے پیسے دیے جاتے ہیں۔ میری پارٹی سوشلسٹ ڈیموکریٹک پارٹی (ایس ڈی پی) کو ہر ووٹر کے بدلے 10 کرون (100ہندوستانی روپے) کے حساب سے20 ملین ڈینش کرون ملے تھے‘‘۔۔انہوں نے بتایا کہ 2011 کے الیکشن میں انہوں نے اپنے حلقہ انتخاب پر20,000 ڈالر خرچ کئے تھے لیکن انہیں اپنی جیب سے ایک پھوٹی کوڑی بھی نہیں دینی پڑی۔کیوں کہ یہ پیسے یا تو پارٹی نے دیے تھے یا پھر سرکار ی فنڈ سے ملے تھے۔ انہو ں نے کہا کہ ہمارا انتخابی مہم بھی بہت مختصر‘ یعنی تقریباََ تین ہفتے کا ہوتا ہے ‘ جس کی وجہ سے بھی اخراجات کم ہوتے ہیں۔اسکے علاوہ بدعنوانی میں ذرا سا بھی ملوث پائے جانے والوں کے خلاف صرف سرکاری کارروائی ہی نہیں ہوتی بلکہ انہیںعوامی سطح پر بھی سخت ہزیمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔جہاز رانی کے اس وقت کے وزیر بڑی مصیبت میں پھنس گئے تھے جب معلوم ہوا کہ ڈنمارک کی ایک مشہورکارگو کمپنی کے ایک بڑے شپنگ پروجیکٹ کا افتتاح کرنے کے بعدانہوں نے کمپنی کی طرف سے تحفتاََ پیش کی گئی قیمتی کلائی گھڑی قبول کرلی تھی۔ میڈیا نے اس معاملے پر ان کا ناطقہ بند کردیا جس کے بعد انہیں معذرت کرنی پڑی۔ایسے ہرمعاملے کو جس میں بدعنوانی کا کوئی شائبہ پیدا ہوتا ہو میڈیاپوری شدت سے اٹھاتا ہے۔میڈیا کی اسی سرگرمی کی وجہ سے کئی سیاست دانوں کو فٹ با ل میچ کے مفت میں موصول ہونے والے ٹکٹ واپس کرنے پڑ گئے تھے۔لائکے ٹافٹ نے بتایا کہ 250ڈینش کرون (تقریباََ2500روپے)کی مالیت سے زیادہ کا کوئی بھی تحفہ یہاں ٹیکس قانون کے تحت آتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ 80 کی دہائی میں ملک کی ایک وزیر خارجہ کو صرف اس لئے اپنے عہدہ سے استعفی دینا پڑ گیا تھا کہ انہوں نے برطانیہ میں قیام کے دوران لندن کے سات ستارہ رٹز ہوٹل کا کمرہ بک کرالیا تھا جس کا کرایہ کوئی ایک ہزارڈالر تھا۔’’حالانکہ وہ یہ رقم اپنی جیب سے ادا کرنے کے لئے تیار تھیں لیکن عوام نے ان کی اس پیش کش کوقبول کرنے سے انکار کردیاکیوں کہ ڈنمارک کے شہریوں کا خیال ہے کہ ان کا ملک کسی بھی سیاست داںکی ایسی فضول خرچی کا متحمل نہیں ہوسکتا ہے، چاہے وہ اپنی جیب سے ہی کیوں نہ ادا کرے۔ کوپن ہیگن کی ترک نژاد میئر آئفر بیکل کا کہنا تھا کہ یہاں کا انتظامی ڈھانچہ ایسا ہے کہ لوگ اپنی روزمرہ کی ضرورتوں کے لئے سرکاری حکام پر بہت کم انحصارکرتے ہیں۔ غالباََ اس سے بھی ملک کو بدعنوانی سے پاک رکھنے میںمدد ملی ہے۔لیکن ان کا کہنا تھا کہ بدعنوانی کے خلاف عملی جنگ کا پرچم خود سیاست دانوں نے ہی بلند کیا ہے اور اس معاملے میں وہ عوام کے رول ماڈل ہیں۔جبکہ بدعنوانی سے جنگ میں عوام بھی پوری طرح ساتھ دیتے ہیں اور اطلاعات کی فراہمی میں پوری طرح شفافیت کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے نائب صدر کنت گاٹ فریڈسن نے بدعنوانی پر قابو پانے میں ڈنمارک کی کامیابی کی ایک وجہ یہ بھی بتائی کہ ڈنمارک میںقومی آڈیٹر (محتسب) یا لوک آیکت کافی مضبوط ہے۔ ان کا انتخاب پارلیمنٹ کے ذریعہ ہوتا ہے اور ان کی ملک کے سول اور فوجی انتظامیہ پر گہری نگاہ رہتی ہے۔ ملک کی وزیر خارجہ ولی سوونڈل ڈنمارک کے ایک دورافتادہ صوبہ جوٹلینڈ کی مکین تھی اور کوپن ہیگن میں ان کا اپنا کوئی مکان تک نہیں تھا۔وہ دارالحکومت کے نواحی علاقے میں دو کمرے کے کرائے کے ایک مکان میں رہتی تھی اور اپنا دفتر پہنچنے کے لئے عام طور پر سرکاری ٹرانسپورٹ کا سہارا لیتی تھی۔ عوام کو سوشل سکیورٹی فراہم کرانے کے علاوہ جس چیز نے ڈنمارک کو میری تحقیق کے مطابق بدعنوانی سے پاک رکھا ہے وہ سیاست دانوں کی سادہ زندگی ہے۔وہ سادگی کا عملی نمونہ پیش کرتے ہیں۔ یہی سیاست داں بیورو کریسی ‘ کارپویٹ اور ملک کے عوام کے لئے رول ماڈل بن جاتے ہیں۔ غالباََ یہی وہ بات ہے جس کی نصیحت موہن داس کرم چند یعنی مہاتما گاندھی نے 1937ء میں اس وقت کے کانگریسی وزراء اعلی کو کی تھی جب انہوں نے مختلف صوبوں میں عہدے سنبھالے تھے۔ گاندھی جی نے انہیں تحریر کردہ اپنے خط میں لکھا تھا ’’.... کانگریسیوں کو یہ نہیںسمجھ لینا چاہئے کہ سادگی ان کی ہی اجارہ داری ہے ‘ جس کا مظاہرہ وہ 1920 ء سے کھادی کے کرتے اور دھوتی کی صورت میں کررہے ہیں۔میں حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کی مثال پیش کرنا چاہتا ہوں۔ میں رام اور کرشن کو مثال کے طور پر اس لئے پیش نہیں کرسکتا کہ یہ ماقبل تاریخ نام ہیں۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ مہارانا پرتاپ اور شیواجی انتہائی سادہ زندگی گذارتے تھے لیکن اس بات پر اختلاف ہے کہ جب وہ اقتدار میں آئے تو انہوں نے کیا طرز عمل اپنایا۔ البتہ پیغمبراسلام‘ؐ حضرت ابوبکر ؓاور عمرؓ کے بارے میں کوئی دو رائے نہیں ہے۔ پوری دنیا کی دولت ان کے قدموں میں تھی اس کے باوجود انہوں نے جس طرح کی جفاکشی اور سادہ زندگی گذاری اس کی کوئی دوسری مثال تاریخ میں ملنی مشکل ہے۔حضرت عمر نے اپنے گورنروں کو بھی موٹا کپڑا پہننے اور موٹا آٹا کھانے کی ہدایت دی تھی۔اگر کانگریسی وزراء بھی اسی سادگی اور کفایت شعاری کو برقرار رکھیں گے جس پر وہ1920 ء سے گامزن ہیں تو اس سے ہزاروں روپے بچیں گے‘ جس سے غریبوں کی امیدیں روشن ہوسکتی ہیںاور خدمات کے آہنگ میں تبدیلی آسکتی ہے۔ میں اس جانب اشارہ کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ سادگی کا مطلب پھٹے حالی ہر گز نہیں ہے ۔سادگی میں ایک خوبصورتی اور کشش ہوتی ہے جسے اس خوبی کو اپنانے والے بخوبی دیکھ سکتا ہے۔ پاک صاف اور باوقاررہنے کے لئے پیسے کی ضرورت نہیں پڑتی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے گاندھی جی کی نصیحتوں کو ڈنمارک کے سیاست دانوں نے حرف بہ حرف اپنا لیا ہے لیکن مہاتما گاندھی کے پیروکار ں نیز آخری رسولؐ کو ماننے والو نے ان تعلیمات کو بہت پہلے ہی بھلا دیا ہے ‘ جس کا انجام آج عوام کو بدحالی اور تباہی کی صورت میں بھگتنا پڑ رہا ہے۔ جنوبی ایشیا میںآزادی کے بعد فرسودہ اور ناقص انتخا بی نظام کے نتیجہ میں جمہوری لبادہ میں اشرافیہ (Oligarchy)کا جو طبقہ معرض وجود میں آیا، اس نے ملک کے وسائل اور دولت کو دونوں ہاتھوں لوٹا ہے۔