سوشل میڈیا پر الزامات ،جوابی الزامات اورگالم گلوچ کے ذریعے اس دفعہ الیکشن کا معرکہ لڑاجارہاہے۔ سیاسی جماعتوں اور سیاستدانوں کی سوشل میڈیا ٹیمیں ایک دوسرے کو چور، بدعنوان، ملک دشمن اور بے حیا ثابت کرنے کے لیے سرگرم ہیں۔پاکستانی سیاست سوشل میڈیا بالخصوص ٹوئٹر نے جس قدر تیزی سے مقبولیت حاصل کی اور روایتی میڈیا کو پس منظر میں دھکیلا وہ حیرت انگیز ہے۔ الیکشن کمیشن کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق اس وقت ملک بھر میں رجسٹرڈ ووٹروں کی تعداد 10 کروڑ 42 لاکھ 67ہے ۔ چار کروڑ 58 لاکھ کے لگ بھگ خواتین ہیں۔سیاسی جماعتوں کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ ان ووٹروں کو کیسے اپنی طرف راغب کیا جائے؟مثبت پیغام اور اچھا منشور پیش کرنے سے کام نہیں بنتا ۔چنانچہ ہر جماعت نے فیصلہ کیا کہ مخالف سیاستدانوں اور جماعتوں کو گندا کیا جائے۔اخبارات کو اس کام کے لیے ایک حد سے زیادہ استعمال نہیں کیاجاسکتا۔ ریاستی قوانین اور میڈیا کے اخلاقی ضابطوں کے مطابق انہیں کام کرنا ہوتاہے۔ ٹی وی چینلز کا خوب بھدا استعمال ہوا۔ آہستہ آہستہ یہ ہتھیار بھی کارگر نہیں رہا۔ جو ٹی وی چینل ایک جماعت یا گروہ کا ترجمان بن جاتاہے اس کا کاروبار متاثر ہوتاہے اور مخالف سیاسی جماعتیں بھی اسے نقصان پہنچاتی ہیں۔ متبادل حکمت عملی کے طور پر سوشل میڈیا کا سہارا لیا گیا جو بے مہار ہے اور ابھی تک ایسے قوانین حرکت میں نہیں آسکے جو سوشل میڈیا صارفین کو کسی ضابطے کا پابند بناتے ہوں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ملک میں ووٹروں کی تعداد ساڑے دس کروڑ جب کہ ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کے مطابق موبائل صارفین کی تعداد 14 کروڑ اور انٹرنیٹ استعمال کرنے والوںکی تعداد 4کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے ۔ یہ ہی نہیں اس تعداد میں 185 فیصد سالانہ کے حساب سے اضافہ ہو رہا ہے۔ آج کل جس بھی شخص کے ہاتھ میں موبائل ہے وہ صحافی ہے۔وہ خبریں دیتااور تصویریں بھی شائع کرتاہے۔ یہ خبریں اور تصویریں لاکھوں افراد تک لمحوں میں پہنچ جاتی ہیں۔پاکستان کے تمام سیاستدان حتیٰ کہ پاک فوج کے ترجمان بھی ٹوئٹر کے ذریعے پیغام رسانی کرتے ہیں۔ عمران خان ، مریم نواز، شہباز شریف، بلاول بھٹو زرداری اور احسن قبال کے مابین ٹوئٹر پر مسلسل جنگ چلتی رہتی ہے۔ان کے فالورز لاکھوں کی تعداد میں ہیںجن کے درمیان بھی نوک جھونک جاری رہتی ہے۔ حال ہی میں ریحام خان کی کتاب کے اقتباسات پر ہونے والی بحث نے بھی شہریوں کی ایک بہت بڑی تعداد کو سوشل میڈیا کی جانب متوجہ کیا۔ کتاب ابھی پوری طرح منظر عا م پر آئی بھی نہیں کہ شرفا نے دانتوں میں انگلیاں دبا لیں ۔ کیا مشرقی روایات کی چھتر سایہ میں پلی ایک خاتون اس قدر بے باک ہوسکتی ہے؟ یا پھر وہ جس طبقہ کی نمائندگی کرتی ہے وہاں اس طرح کی گفتگو اور حرکات معمول کی زندگی کا حصہ ہیں۔ایک بات مانا پڑے گی کہ ریحام خان کی کتاب اور ایک مولانا صاحب کی تقاریر نے اردو ادب اور سیاست میں ایک انوکھا اسلوب متعارف کرایا ۔ یہ لب ولہجہ اس قدر مقبول ہوچکا ہے کہ خلق خدا اب اسی میں کلام کرکے لطف اٹھاتی ہے۔ ریحام خان کی کتاب کے حوالے سے جو کچھ سامنے آرہاہے وہ کوئی نیا نہیں۔ تاریخ کی کتابیں ایسے واقعات سے بھری پڑی ہیں۔ہوس جنس اور زر اشرافیہ کی روزمرہ کی زندگی کا غیر معمولی حصہ ہے۔فرق صرف اتنا پڑا کہ جو کچھ پہلے صرف خواض کے علم میںتھا اب زباں زردعام ہوگیا۔ جو کہانیاں پہلے محلات کے تہہ خانوں میںدفن ہوجاتی تھیں ۔سوشل میڈیا ان جھوٹی سچی داستانوںکو چوکوں و چراہوں پر زیر بحث لے آیا۔ ریحام خان کی کتاب نے پاکستان کی سیاست کو بری طرح متاثر کیا ۔ ممکن ہے کہ عمران خان کا ووٹر زیادہ متاثر نہ ہو کہ وہ لیڈروں کے ساتھ گہری وابستگی رکھتاہے۔ اپنی اپنی جماعتوں ، ان کے نظریات اور مقامی سطح پر نمائندگی کرنے والی شخصیات کے ساتھ جڑا ہواہوتاہے۔لیکن یہ کتاب انتقام درانتقام کا ایک باب کھولنے میں کامیاب ہوگئی ہے۔ تحریک انصاف اور عمران خان کو پختہ یقین ہے کہ نون لیگ نے بھاری سرمایہ لگا کر یہ کتاب لکھوائی، چھپوائی اور اب وہ تقسیم کریں گے۔ نون لیگ کا ریکارڈ اس حوالے سے کوئی زیادہ اچھا نہیں۔ وہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ ایسا ہاتھ کرچکی ہے۔ اگرچہ نون لیگ کی موجودہ قیادت پہلے کے مقابلے میںزیادہ تحمل اور سیاسی رواداری کا مظاہرہ کرتی ہے لیکن اس کے باوجود تحریک انصاف کو جو زخم لگا ہے وہ مندمل ہوتے ہوتے عشرے لگ جائیں گے۔ خاص طور پرجس پست سطح کے الزامات سامنے آرہے ہیں ان پر یقین کرنا تو دور کی بات ان کو سن کر بھی کان سرخ ہوجاتے ہیں۔ یہ عام الیکشن کے دن ہیں۔ دنیا بھر میں ان دنوں میڈیا پر سیاسی جماعتیں الیکشن کے منشور پر بحث کرتی ہیں۔ ووٹروں کو ترقی اور خوشحالی کے خواب دکھاتی ہیں۔اگست تک نئی حکومت اسلام آباد اور چاروں صوبائی دارالحکومتوں میں قائم ہوگئی ۔ اس وقت تک ملک میں سیاسی درجہ حرارت نہ صرف برقراررہے گا بلکہ بڑھتارہے گا۔ قومی افق پر گزشتہ چند ہفتوں سے جس طرح کے مباحث جارہی ہیں انہیں دیکھ اور سن کر دل دکھتاہے۔ ریحام خا ن کی کتاب نے سارے میڈیا اور سیاست کو اپنے سحر میں جکڑ رکھا ہے۔ نون لیگ، تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی شہریوں کو کچھ نہیں بتارہی ہیں کہ اگر وہ برسراقتدارآئیں تو ان کی خارجہ پالیسی کیا ہوگی۔ وہ امریکہ، بھارت اور دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات کو اسی ڈگر پر جاری رکھیں گے یا پھر کوئی نیا راستہ تلاش کریں گے۔ معاشی ترقی اور روزگار کی فراہمی کاکیا منصوبہ ہے۔ عمران خان کی تحریک انصاف نے پہلے سو دن تک پروگرام پیش کرکے اچھی شروعات کی تھی لیکن اب وہ ایک نئے گرداب میں پھنس چکی ہے۔نون لیگ اور پیپلزپارٹی تو بالکل ہی خاموش ہیں۔ متحدہ مجلس عمل نے اپنا منشور پیش کیا لیکن میڈیا نے زیادہ توجہ نہیں دی۔ میڈیا چٹ پٹی خبروں اور تبصروں کا دلدادہ ہے ۔اسے سنجیدہ موضوعات سے کوفت ہوتی ہے۔ کچھ دن قبل ایک دوست نے استفسار کیا کہ اب جنرل (ر) اسد درانی کا کیا بنے گا؟ ان کی کتاب بہت متنازعہ ہے۔ خاکی اسٹیبلشمنٹ شاکی اور معاشرے کے فعال طبقات خوش نہیں۔ سیاسی جماعتیں اسد درانی کی آڑ میں عسکری لیڈر شپ پر غصہ نکال رہی ہیں۔عرض کیا فکر نہ کرو۔ریحام خان کی کتاب وہ طوفان اٹھائے گی کہ کسی کو اسد درانی یاد نہیں رہیں گے۔وہ ہی ہوا۔اب میڈیا میں ان کی کتاب پر گفتگو ہی نہیں ہورہی۔وہ وقت دور نہیں کہ لوگ ریحام خان کی کتاب کو بھول کر کسی اور موضوع کے پیچھے بھاگیں گے ۔ ساری داستانیں قصہ پارینہ ہوجائیں گی۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ بحیثیت قوم ہمارے دینے اورلینے کے الگ الگ باٹ ہیں۔ اس لیے کوئی بھی حادثہ یا واقعے ہمارے ذہنی سانچے کو نہیں بدلتا۔