لیڈی ڈیانا کے بیٹے پرنس ہیری کی شادی کا جشن تو اب اختتام کو پہنچا ہے مگر سوشل میڈیا میں اب تک اس کی سانولی دلہن میگھن مارکل کے حوالے سے یہ بحث جاری ہے کہ ’’کیا عورت کی خوبصورتی گورے رنگ کی محتاج ہے؟‘‘ پاکستان کی مشہور بینڈ وائٹل سائنز نے ایک گیت گایا تھا جو اب تک بڑی چاہ کے ساتھ سنا جاتا ہے ’’گورے رنگ کا زمانہ کبھی ہوگا نہ پرانا گوری ڈر تمہیں کس کا ہے؟ تیرا تے رنگ گورا ہے‘‘ یہ گورا رنگ آج بھی کاسمیٹک انڈسٹری کی بہت بڑی مارکیٹ بنا ہوا ہے۔ نہ صرف پاکستان بلکہ بھارت کے الیکٹرانک میڈیا میں بھی وہ اشتہار بڑے شوق کے ساتھ دیکھے جاتے ہیں؛ جورنگ گورا کرنے والی کریم کے بارے میں ہوتے ہیں۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ بھارت کی فلم انڈسٹری پر اکثر وہ اداکارائیں راج کرتی رہی ہیں؛ جن کا رنگ سانولا ہے۔ اشوریا رائے سے لیکر کاجول تک سانولی اداکاروں کے پوسٹر صرف شوبز والی دکانوں کی دیواروں پر نہیں بلکہ عوام کے دلوں پر بھی آویزاں رہے ہیں۔ مگر لوگ پھر بھی گورے رنگ کے دیوانے رہے ہیں۔ بھارت کے حوالے سے یہ ایک عجیب بات ہے۔ ہندو مذہب کی سب سے مقبول فگر بھگوان کرشن رہے ہیں۔کرشن بھگوان سانولے رنگ کے تھے۔ان کو سانولے رنگ کی وجہ سے شیام بھی کہا جاتا ہے۔ ان سے محبت کا اظہار کرتے ہوئے یہ گیت بھجن کی صورت گائے جاتے ہیں: ’’بھور بھئی پنگھٹ پر مجھے نٹ کھٹ شیام ستائے‘‘ آج بھی ہر گھر اور ہر مندر میں کرشن کی مورتیاں محبت کے ساتھ سجائی جاتی ہیں۔ مگر ان مورتیوں کے آگے آرتی اتارنے والی ہندو لڑکیاں بھگوان سے یہ پراتھنا کرتی ہیں کہ ان کا رنگ گورا ہوجائے۔ ہندی زبان کی مشہور شاعرہ میراں بائی کرشن کی دیوانی تھی۔ اس نے کرشن کے سانولے رنگ پر بہت خوبصورت گیت لکھے ہیں۔ میراں بائی کے بارے میں ایک لیکچر دیتے ہوئے بھارت کے مشہور صوفی دانشور رجنیش نے کہا تھا کہ’’ہم نے کرشن کو سانولا کہا ہے۔ بات یہ نہیں کہ کرشن سانولے تھے یا نہیں ؟ مگر ہم نے اسے سانولا اس لیے کہا کیوں کہ کرشن کے حسن میں ایک گہرائی تھی۔ گورے رنگ میں اتنی گہرائی نہیں ہوتی۔ سانولا رنگ بہت گہرا ہوتا ہے۔ بالکل اس طرح جس طرح جہاں پانی گہرا نہیں ہوتا؛ وہاں پانی کا رنگ سفید ہوتا ہے۔ جہاں پانی گہرا ہوتا ہے ؛ وہاں پانی کا رنگ نیلا اور سانولا سا ہوجاتا ہے۔ کرشن کے حسن میں گہرائی تھی؛ اس لیے اس کا رنگ سانولا تھا‘‘ مگر بھارت میں اپنا رنگ گورا کرنے کا ایک کریز ہے۔ وہ کریز کیوں ہے؟اس کا سبب ہندوستان پر انگریزوں کی حکومت تھی۔ انگریزوں سے پہلے بھی ہندوستانی ادب میں گورے رنگ کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ اس کا سبب بھی یہ تھا کہ سکندر اعظم سے لیکر وسطی ایشیا سے آنے والے فاتحوں کا رنگ گورا تھا۔ مگر انگریزوں کے زمانے میں اس رنگ کو بڑی اہمیت کے ساتھ دیکھا گیا۔ مگر اب جب انگلینڈ کی رائل فیملی کے شہزادے نے اس جیون ساتھی کا انتخاب کیا ہے جس کا رنگ سانولا ہے تب حسن کے حوالے سے رنگ کا مباحثہ پیدا ہونا ایک فطری بات ہے۔ یہ مباحثہ بھی بذات خود اس بات کا دلیل ہے کہ ہم حسن کا معیار حکمرانوں میں دیکھتے ہیں۔ اگر انگریز شہزادہ ایک سانولی لڑکی کا انتخاب نہ کرتا تو یہ بحث بھی نہ چھڑتی۔ یہ نیا دور ہے۔ اس میں حسن کے سلسلے میں گورے اور سانولے رنگ کا مقابلہ نئے ڈھنگ سے پیدا ہوا ہے۔ حالانکہ یہ گورے اور سانولے رنگ کا مباحثہ بہت پرانا بھی ہے۔ اس مباحثے کی جڑ اس بائبل کے شاعرانہ باب ’’سلیمان کے گیتوں کا گیت‘‘ میں بھی ملتی ہے۔ بائبل کے اس چیپڑ میں ایک لڑکی کہتی ہے: ’’میرے محبوب ! جب میں نے جنم لیا تھا تب میں گوری تھی دھوپ میں بھٹکتے بھٹکتے میرا رنگ سانولا ہوگیا ہے‘‘ جب بائبل کی ہیروئن اپنے سانولے رنگ پر اظہار افسوس کرتی ہے تب مغرب میں بھی اس رنگ کے حوالے سے ایک تفریق کی لکیر کھینچ جاتی ہے۔ وہ لکیر آج بھی اپنی جگہ موجود ہے مگر جب ماڈرن دور کی مغربی لڑکیاں ساحل سمندر پر سن باتھ لیتے ہوئے اپنا رنگ سانولا کرنے کی کوشش کرتی ہیں تب فکر کے ساحل پر یہ خیال لنگرانداز ہوتا ہے کہ ’’کیا سانولا رنگ گورے رنگ سے بہتر ہے؟‘‘ اگر سانولا رنگ گورے رنگ سے واقعی بہتر ہوتا تو امریکہ کا پاپ سنگر مائیکل جیکسن اپنی سیاہ جلد سرجری کرواکے اسے گورا بنانے کی کوشش کیوں کرتا؟ مغرب کے معاشرے میں رنگ کے حوالے سے بغاوت کی لہریں پیدا ہوتی رہی ہیں۔ اب تو ایک سیاہ فام کو نفرت کی نگاہ سے دیکھنا قانونی طور پر جرم ہے۔ خاص طور اس وقت جب اوباما کی صورت امریکہ نے اس سیاہ فام شخص کو اپنا صدر منتخب کیا جس کے انتخاب کو مارٹن لوتھر کنگ کے خواب کی تعبیر قرار دیا گیا۔ مگر اس سوچ نے مغربی معاشرے میں بہت بڑی بغاوت کی۔ ہم امریکہ کے سیاہ فام افراد کی اس تحریک کو پھر کبھی بحث کا موضوع بنائیں گے؛ جس کو ’’بلیک پینتھر موومینٹ‘‘ کا نام دیا گیا۔ مگر کیا یہ دور بھی اس انگریزی گیت کو فراموش کرسکتا ہے ؟ جس کی بازگشت ہمیں قرت العین حیدر کے شہرہ آفاق ناول ’’آگ کا دریا‘‘ میں ان الفاظ کی صورت سنائی دیتی ہے: If you are white allright If you are brown still around If you are balck No Brother get back No Brother get back ان الفاظ کا مطلب ہے: اگر تم گورے ہو پھر تو کوئی بات نہیں اگر تم سانولے ہو پھر بھی چل جائے گا اگر تم سیاہ فام ہو تو پھر بھائی! واپس جاؤ!! حالانکہ سیاہ رنگ میں بھی اپنی خوبصورتی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو صرف ایک سیاستدان نہیں تھے۔ وہ ایک دانشور بھی تھے۔ انہوں نے ایک جگہ لکھا ہے’’افریقہ زندہ رہے گا اور ثابت کرے گا کہ سیاہ رنگ بھی خوبصورت ہوتا ہے‘‘ وہ سیاہ رنگ جب ہمیں جنوبی افریقہ کے ہیرو نیلسن منڈیلا کے روپ میں نظر آتا ہے تو ہم اس کی عزت کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں ۔ مگر سیاست کی دنیا ابھی تک سماج (باقی صفحہ13پر ملاحظہ کریں) پر اثرانداز نہیں ہوئی۔ اب بھی سیاہ رنگ کو حسن کی علامت نہیں سمجھا جاتا۔ اس لیے سندھ کے عظیم شاعر شیخ ایاز نے بغاوت بھرتے لہجے میں لکھا تھا: ’’آندھرا دیش کی سندر ناری تم جو کالے پتھر کی ایک مورتی ہو کون کہے بدصورتی ہو؟‘‘ مگر ہمارا موضوع سیاہ رنگ نہیں بلکہ وہ سانولا رنگ ہے جہاں سفید اور سیاہ آپس میں سنگم کرتے ہیں۔ سانولے رنگ کو تو مشرقی شاعری میں بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا رہا ہے۔ اس لیے ایلس فیض جیسی سفید فام عورت سے شادی کرنے والے فیض احمد فیض نے لکھا تھا: ’’دے کوئی سنکھ دہائی کوئی پایل بولے کوئی بت جاگے کوئی سانولی گھونگھٹ کھولے‘‘ سانولا رنگ صرف انقلابی شاعروں کی شاعری میں اپنے آپ کو نہیں منواتا۔ سانولا رنگ ہمارے دیس کی صوفی شاعری میں بھی اس خوبصورت اظہار کا پیراہن پہن کر آتا ہے ’’میرا سانول مٹھڑا شام سلونا من موہن جانان وی توں‘‘ مگر یہ بات صرف صوفی صداؤں تک محدود نہیں۔ پاکستان کے جس میوزیکل بینڈ نے یہ گیت گایا تھا : ’’گورے رنگ کا زمانہ کبھی ہوگا نہ پرانا‘‘ اس میوزیکل بینڈ نے یہ گیت بھی گایا تھا ’’سانولی سلونی سی محبوبہ تیری چوڑیاں شرنگ کرکے‘‘ یہ گیت اس حقیقت کا گواہ ہے کہ سانولا رنگ بھی حسین ہوتا ہے۔ اگر سانولا رنگ حسین نہیں ہوتا تو سرائیکی شاعری کو محبت کی دنیا میں وہ مقام نہ ملتا جو مقام اس سے تاریخ کے سماجی اور سیاسی ماحول میں حاصل ہے۔ پنجابی شاعری میں آج بھی ’’دودھ ورگا‘‘ گورا رنگ اچھلتا اور کودتاہے۔ مگر سرائیکی سروں میں سانولے رنگ سے جو محبت جڑی ہوئی ہے؛ اس کو دنیا کی کاسمیٹک انڈسٹری شکست نہیں دے سکتی۔ اصل بات حسن نہیں ۔ اصل بات محبت ہے۔ وہ محبت جس رنگ پر مرمٹے وہ رنگ محبت کا رنگ بن جاتا ہے۔ اس رنگ کے بارے میں فیض صاحب نے کس قدر خوبصورت اظہار کرتے ہوئے لکھا تھا: ’’رنگ پیراہن کا خوشبو زلف بکھرانے کا نام موسم گل ہے تمہارے بام پہ آنے کا نام‘‘ اس پیراہن کا رنگ کوئی بھی ہوسکتا ہے سفید؛ سانولا یا سیاہ! محبت کا رنگ کوئی بھی ہوسکتا ہے محبت رنگ نہیں ہے محبت امنگ ہے! اور امنگ کا کوئی رنگ نہیں ہوتا!!