وہ روز روز ترقی پہ حسن ہے ان کا کہ صورت ان کی مجھے بھول بھول جاتی ہے امریکہ نے ایران معاہدے سے علیحدگی اختیار کر لی ہے اور شمالی کوریا کے ساتھ معاملات سیدھے کرنا شروع کر دیے ہیں! یہ عجیب تماشا ہے کہ شمالی کوریا سے، تقریبا، اسی قسم کا معاہدہ کیا جا رہا ہے، جیسا ایران کے ساتھ ہوا تھا! جوہری ہتھیاروں کے حصول کے سلسلے میں، یہ دونوں ملک برابر متہم کیے جاتے تھے۔ تو پھر ان میں ایسا کیا فرق نکل آیا کہ ایک کے ساتھ سنورتے تعلقات، بگاڑے جا رہے ہیں اور دوسرے کے ساتھ از سر ِنو، تعلقات کا ڈول ڈالا جا رہا ہے؟ در اصل، یہ فرق صاف اور واضح ہے۔ ایک کو تباہ کرنے پر، اسرائیل اور بعض دوسرے ملک تْلے ہوئے ہیں۔ دوسرے کو اگر گانٹھ کر، راہ پر لایا جا سکا، تو یہ ’’کارنامہ‘‘ جھنڈے پر چڑھا دیا جاے گا! یعنی، دونوں فیصلے، لگتا ہے کہ بدنیتی پر مبنی ہیں۔ امریکی انتظامیہ پہلی دفعہ، خارجی معاملات میں، یک زبان ہوتی جا رہی ہے۔ سی آئی اے کی نئی چیف، جینا ہَیسپل کی تقرری، اس سلسلے کی آخری کڑی تھی۔ امریکن صدر ڈونلڈ ٹرمپ، نائب صدر مائیک پَینس، صدر کے سکیورٹی ایڈوائزر جان بولٹن، وزیر ِخارجہ مائیک پومپیو اور سی آئی کی چیف جینا ہَیسپل۔ پانچوں انگلیاں، پانچوں چراغ! ٹرمپ تو خیر ٹرمپ ہی ہیں، ریپلکن پارٹی کے نزدیک، ان کے مقابلے میں مائیک پَینس کی بات زیادہ وزنی اور پائیدار ہوتی ہے۔ اس انتظامیہ میں، کہا جاتا ہے کہ دماغ کی حیثیت پینس ہی کی ہے۔ جان بولٹن وہ آدمی ہیں، جو سینیئر اور جونیئر بش، دونوں کی انتظامیہ میں جنگیں شروع کرانے والوں میں سے تھے۔ انہیں آج بھی، عراق کے خلاف جنگ اور اس میں اپنے کردار پر نہ شرمندگی ہے اور نہ افسوس۔ مائیک پومپیو جب سی آئی اے کے چیف تھے اور وزیر ِخارجہ کے عہدے کے لیے، ان کی نامزدگی ہوئی تھی، تو انسانی حقوق کی علمبردار تنظیموں نے بڑی تشویش کا اظہار کیا تھا۔ اس لیے کہ ان کے اکثر بیانات کو اسلام اور مسلمان دشمنی پر مبنی قرار دیا جاتا رہا ہے۔ جینا ہیسپل پر بھی، انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے سنگین الزامات لگائے گئے ہیں۔ اب یہ سب لوگ، یک جا اور یک زبان ہی نہیں، کلیدی عہدوں پر موجود ہیں۔ اب جو کچھ نہ قیامت برپا ہو جائے کم ہے! اسرائیل اور ایران کے درمیان جھڑپیں، براہ ِراست نہیں تو پراکسی، صاف نظر آ رہا ہے کہ شروع ہوا ہی چاہتی ہیں۔ اس معاملے میں بعض مسلمان ممالک کا کردار، ظاہر و باہر ہے۔ ان کا اپنا اقتدار، چونکہ عوام کی حمایت نہیں، بلکہ ’’خواص‘‘ کا مرہون ِمنت ہے، ان کی نگاہ بھی ’’خواص‘‘ کی طرف لگی رہتی ہے۔ ان کا سارا ظاہری اختیار، دراصل مجبوری کی داستان ہے۔ یوں بھی گِل را چہ مجال ست کہ گوید بہ کْلال کز بہر ِ چہ سازی و چرا می شکنی یعنی، کوزے میں اتنا بْوتا کہاں کہ کوزہ گر سے سوال کرے کہ بناتے اور بگاڑتے کیوں ہو! اسرائیل کے ہمسائے برے حال میں ہیں۔ اب ان ہمسایوں کے ہمسایوں کی باری آ رہی ہے! ایران کی طرف سے بھی، جب اس پر پابندیاں لگتی ہیں، بڑے سخت بیانات سامنے آتے ہیں۔ ایک نئی اور بڑی جنگ، خدا نہ کرے، شروع ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ نئے امریکن وزیر ِخارجہ کا ایران کے خلاف تازہ بیان، سراسر اکسانے اور بھڑکانے کا عنوان ہے۔ امریکہ، جب تک، مشرق ِوسطٰی کے معاملات کو اسرائیل کی آنکھ سے دیکھنا بند نہیں کرے گا، دنیا بھر میں اس کی مقبولیت میں اضافہ ہی ہوتا رہے گا۔ اسرائیل کا تصرف، امریکی خارجہ پالیسی میں، صاف دکھائی دیتا ہے۔ یہ رشتہ در گردنم افگندہ دوست می برد ہر جا کہ خاطر خواہ ِاوست کا مضمون، ہرگز نہیں ہے۔ بلکہ یوں لگتا ہے کہ ایک نظر نہ آنے والا پھندہ ہے، جو ایک نے دوسرے کی گردن میں ڈالا ہوا ہے! نتیجہ بہر حال اچھا نہیں نکلے گا! ٭٭٭٭٭ لوٹوں کی حکومت ہر زبان میں نئی اصطلاحات، شامل ہوتی رہتی ہیں۔ ان میں سے بعض اتنی بلیغ ہوتی ہیں کہ ترجمہ ممکن نہیں۔ اردو صحافت میں بھی، ٹوڈی سے لے کر لوٹے تک، ایسی کئی اصطلاحیں داخل ہوئیں، جن کی کاٹ کا ٹھکانا نہیں! نئی نسل غالبا واقف نہ ہو گی کہ صدی بھر پہلے، انگریزوں کے پٹھوئوں، مخبروں اور چاپلوسوں کے لیے، ٹوڈی کا لفظ گھڑا گیا تھا۔ اس کے موجد، مولانا ظفر علی خاں تھے۔ گو حق ِملکیت، عبدالمجید سالک بھی جتاتے تھے، مگر مولانا نے اسے، نظم و نثر، دونوں میں جا بجا اور اس خوبی سے استعمال کیا کہ ٹوڈی کا لفظ سنتے ہی مولانا کا کوئی شعر یاد آ جاتا ہے۔ مثلا کسی نظم کا غالبا آغاز یوں ہوتا ہے ع ڈاکٹر نارنگ ٹوڈی ہو گئے آگے چل کر کہتے ہیں ہڈیاں پنجاب کے ناموس کی کر کے نذر ِگنگ، ٹوڈی ہو گئے انگریز گئے تو یہ اصطلاح بھی رخصت ہو گئی اور اب تاریخ کی کتابوں ہی میں ملتی ہے۔ لیکن ٹوڈی پن نئی شکل اختیار کر کے، لوٹا پن ہو گیا! خصوصا، پچھلے بیس برسوں میں لوٹوں نے اتنا فروغ پایا ہے کہ جس کی مثال نہیںملتی۔ لوٹا، عموما، طہارت کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ مگر سیاسی لوٹے، وہ شے ہیں، جو صرف گندگی پھیلانے کے لیے استعمال ہوتے ہیں! گویا ع بر عکس نہند نام ِزنگی کافور پاکستان میں عام انتخابات کی آمد آمد ہے اور اسی لیے، لوٹوں کی ہجرت بھی، زوروں پر ہے! تینوں بڑی پارٹیوں کے سربراہوں کو ہٹا دیجیے اور پھر بتائیے کہ پارٹی پر راج کس کا ہے! بلکہ جو جماعت جتنی مقبول ہے، اس میں اتنے ہی زیادہ لوٹے ہیں! ع مدار ِروزگار ِسفلہ پرور را تماشا کْن لازم ہے کہ لوٹوں کی تاریخ لکھی جائے، جس میں لوٹوں کی بغاوت سے لے کر لوٹوں کی ہجرت اور لوٹوں کی حکومت کے عنوان قائم کر کے ایک سلسلہ مضامین شروع کیا جاے۔ یقین ہے کہ کم از کم پچاس فیصد مشہور سیاستدان، لوٹے نکلیں گے۔ عوام کو معلوم رہے کہ پارٹی کوئی بھی جیتے، حکومت لوٹوں کی ہی بنے گی۔ لوٹے بجا طور پر کِہ سکتے ہیں کہ ع چِت بھی میری ہے، پَٹ بھی میری ہے!