آجکل پشتون تحفظ مومنٹ کے بارے میں بہت کچھ کہا اور لکھا جا رہا ہے ۔خصوصاً سوشل میڈیا پر بہت تندو تیز بحث مبا حثہ جاری ہے ۔کچھ لوگ پی ٹی ایم کو کسی انقلاب کا پیش خیمہ قرار دے رہے ہیں ۔ددسری طرف اتنی ہی شدت کے ساتھ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ منظور پشتین اور اس کے حواری ملک دشمن بیرونی طاقتوں کے کہنے پر ملک میں انتشار پھیلا رہے ہیں۔ دونوں فریق اپنے موقف کی آبیاری کے لئے ڈھیروں دلیلیں پیش کر رہے ہیں۔نتیجتاً عمومی طور پر شہروں کے اندر اور خصوصی طور پر پڑھے لکھے طبقے میں کنفیوژن پھیل رہی ہے۔لوگ اس مومنٹ کے بارے میں طرح طرح کی تاویلیں پیش کر رہے ہیں ۔معاشرے میں بگاڑ پیدا ہو رہا ہے ۔اس ساری لڑائی میں ریاستی اداروں کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔یقینی طور پر اس مسئلے کے حل کی اشد ضرورت ہے ۔تبصروں اور تجزیوں سے ہٹ کر زمینی حقائق کی بات کرتے ہیں جن کے پس منظر میں پی ٹی ایم بظاہر معرض وجود میں آئی ۔لاپتہ افراد کا مسئلہ ہو یاپھر ماورائے عدالت قتل کا معاملہ جن کی طرف منظور پشتین توجہ دلاتے سنائی دے رہے ہیں کیونکر پید ا ہوئے ۔افواج پاکستان کو پہلے کیوں سوات میں اور پھر جنوبی اورشمالی وزیر ستان میں جانا پڑا؟ایک جائز سوال جو پی ٹی ایم والوں سے پوچھا جا رہاہے یہ لوگ اس وقت کہاں تھے جب طالبان اِنہیں پشتون بھائیوں پہ ظلم اور بر بریت کے پہاڑ توڑ رہے تھے ۔یقینا منظور پشتین کی طرف سے پیش کئے گئے جائز مطالبات اور شکایات کا ازالہ ہونا چاہئے ۔لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان لوگوں سے یہ سوال بھی تو پوچھا جانا چاہئے کہ جس طرح کا بیانیہ‘ الفاظ اور نعرے وہ لوگ لگا رہے ہیں اس سے ملک و قوم کو کیا فائدہ ہوگا ؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے غیور قبائل نے جس طرح مملکت خداداد کے لئے قربانیا ں دی ہیں اس طرح ان کے حقوق کا تحفط نہیں کیا گیا ۔تحفظ تو دور کی بات چند ضروری چیزیں جن میں آئین پاکستان کا قبائلی علاقوں میں نفاذ سب سے اہم مرحلہ ہے ابھی تک زیر التوا ہے ۔اگلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون سے عوامل ہیں‘کردار ہیں‘ سیاسی مصلحتیں ہیں جن کی وجہ سے حالات اس نہج پہ پہنچ چکے ہیں ۔گڑھے مردے اکھاڑنے کے بجائے ماضی میں کس کس نے کیا غلطیاںکیں جن کی وجہ سے آج اکیسویں صدی میں بھی قبائلی عوام بنیادی حقوق سے محروم ہیں کچھ دور حاضر کی بات کرتے ہیں ۔ حکومتی پارٹی مسلم لیگ نواز نے معمر اورپرانے کارکن جناب سرتاج عزیز کی سربراہی میں پانچ رکنی کمیٹی تشکیل دی ۔اس کمیٹی نے نومبر 2015ء میں کام شروع کیا۔ اس کمیٹی کا واحد مقصد فاٹا کو قومی دہارے میں شامل کرنا تھا ۔فاٹامیںانتظامی ،سیاسی اور معاشی اصلاحات کا نفاذ بھی اس کمیٹی کی بنیادی ذمہ داریوں میں سے تھا ۔اس کمیٹی نے انتہائی جاں فشانی سے کام کیا ۔تمام قبائل کے سرداروں سے درجنوں ملاقاتیں کیں ۔جرگے ہوئے ہر سطح پر بحث ہوئی ۔ایک سے زیادہ بار اس کمیٹی کی سفارشات کابینہ میں زیر بحث آئیں۔ پارلیمنٹ میں تذکرہ ہوا تمام اطراف سے مشورے دئے گئے ۔بالآخر 2017ء کے آخری مہینوں میں اس کمیٹی کی تمام سفارشات کو مان لیا گیا۔ اس کمیٹی میں سرتاج عزیز کے علاوہ‘ عبد القادر بلوچ‘ وزیر قانون زاہد حامد‘ مشیر قومی سلامتی ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل ناصر خان جنجوعہ‘ خیبر پختونخوا کے گورنر ظفر اقبال جھگڑا اور سیفران کے سیکرٹری شامل تھے۔ کمیٹی کی سفارشات پر عملدرآمد کروا کر فاٹا کے عوام کے زخموں پر مرہم رکھا جا سکتا ہے۔ دوسری صورت میں آل پارٹیز کانفرنس طلب کرکے پشتون بھائیوں کے مطالبات پر بات چیت کے ذریعے کوئی راستہ نکالا۔ آسان الفاظ میں اس کمیٹی نے فاٹا کو خبیر پختون خواہ میں ضم کر دیا جائے ۔فاٹا سے نیشنل اسمبلی اور سینیٹ ارکان کو مبارکبادیں دی اور وصول کی گئیں ۔سب خوش تھے ۔پھر اچانک خبریں آنا شروع ہو گئیں کہ حکومت فاٹا کوخیبر پختونخواہ میں ضم کرنے کے فیصلے کو موخر کرنے جا رہی ہے ۔شروع میں وجوہات سامنے نہیں آ رہی تھی۔کیوں کہ تمام پارٹیز نے اس سارے عمل کو سپورٹ کیا تھا۔ بعد میں پتہ چلا کہ مولانا فضل الرحمان اور محمود اچکزئی نہیں چاہتے کہ یہ کام ہو ۔مولانا صاحب کا خیال ہے کہ اصل قبائل کو اس سارے عمل سے باہر رکھا گیا ۔دوسری طرف اچکزئی صاحب توجیح پیش کرتے سنے گئے کہ اگر ایسا ہوا تو افغانستان ناخوش ہو گا۔ محترم اچکزئی صاحب نے تو پاک افغان باڈر کے مسئلے کا بھی ذکر کیا کہ اگر فاٹا کو کے پی کے میں شامل کیا گیا تو دونوں ممالک کے درمیاں مسائل پیدا ہونگے ۔ اس سارے پس منظر میں چند سوالات جنم لیتے ہیں جو حل طلب ہیں ۔اگر پی ٹی ایم کے پیش نظر صرف اور صرف پختون لوگوں کے حقوق ہیں تو اس پر سرتاج عزیز کمیٹی نے ایک نہایت ہی جامع اور قابل عمل حل پیش کیا ہے ۔محترم منظور پشتین فاٹا ریفارمز کی بات کیوں نہیں کرتے ؟یقینی طور پر حقوق کا زیادہ سے زیادہ تحفظ آئین کے پورے عمل سے ہو سکتا ہے ۔کیونکر پی ٹی ایم والے مولانا فضل الرحمان اور محمود اچکزئی کے گھر کے باہر مظاہرہ نہیںکرتے ؟لاہور اور کراچی ضرور جائیں لیکن پی ٹی ایم والے پہلے اپنی بیماری کی اصل تشخیص کی طرف کیوں نہیں جاتے ؟لیکن حیران کن طور پر محمود اچکزئی صاحب پی ٹی ایم کے سب سے بڑے سپورٹر ہیں ۔اسی طرح کی محبت کا اظہار پی ٹی ایم والے محمود اچکزئی کے لئے کر رہے ہیں ۔کتنی عجیب بات ہے کہ فوج بار بار کہہ رہی ہے کہ حکومت قبائلی علاقوں کا کنٹرول سنبھال لے ۔جنگ زدہ علاقوں میں ترقیاتی کام کرے ۔قبائلی عوام کے مسائل کو حل کرے مگر ہمارے سیاسی لیڈران بجائے یہ کام کرنے کے ملک میں سیاسی انتشار پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایک نظر پختون بھائیوں کے ملک کے اندر مختلف شعبوں میں کردار پر بھی ڈالتے ہیں ۔ادھر یہ بات بھی قابل غور ہے کہ صوبے کی سب سے بڑی قوم پرست جماعت اے این پی تحریک کی حمایت نہیں کر رہی۔ یاد رہے پاک فوج میں پنجابیوں کے بعد پشتون فوجی اور افسران تعداد میں دوسرے نمبر پر ہیں۔ ملک کے ہر شعبے میں پشتون اہم کردار ادا کر رہے ہیں‘ کھیلوں میں جان شیر خان اور جہانگیر خان‘ شاہد آفریدی ‘ عمر گل‘ جنید خان‘ عثمان شنواری وغیرہ‘ٹرانسپورٹ میں دیکھ لیں خیبر سے کراچی تک پشتون بھائی چھائے ہوئے ہیں۔ ملک کے کسی کونے میںچلے جائیں ۔کاروباری دنیا میں بھی پشتون بھائی ہراول دستے کے طور پر مصروف عمل ہیں۔