میاں نواز شریف کو اللہ تعالیٰ شفا دے اور تادیر سلامت رکھے‘ اسلام آباد ہائی کورٹ سے طبی بنیادوں پر ضمانت کی درخواست مسترد ہونا صرف اُن کے لئے نہیں‘ اہل خانہ‘ دوست احباب اور مداحوں کے لئے تکلیف دہ ہے مگر ذمہ دار‘ حکومت ہے نہ نیب ع اے باد صبا ایں ہمہ آوردۂ تست میاں نواز شریف ذوالفقار علی بھٹو کی طرح سیاست میں کسی ارفع قومی مقصد کے حصول کے لئے آئے نہ جمہوریت کی ترویج و بقا ان کا نصب العین تھا اور نہ جیلوں کی صعوبتیں برداشت کرنے کے لئے انہوں نے سیاست کی وادی پرخار میں قدم رکھادو نوں نے فوجی آمروں کی خوشنودی طبع کے طفیل وزیر نے اور اقتدار و اختیار کے مزے لوٹے‘ آخری عمر میں مگر دونوں کو آمریت کی ہم نشینی اور ہوس اقتدار کا کفارہ ادا کرنا پڑا۔ وہ اور ہی لوگ تھے جو سیاست میں کچھ لینے نہیں‘ دینے‘ کمانے نہیں لٹانے اور پانے نہیں گنوانے آئے بقول آغا شورش کاشمیری ؎ ہم نے اس وقت سیاست میں قدم رکھا تھا جب سیاست کا صلہ آہنی زنجیریں تھیں سرفروشوں کے لئے داد درسن قائم تھے خان زادوں کے لئے مفت کی جاگیریں تھیں بے گناہوں کا لہو عام تھا بازاروں میں خون احرار میں ڈوبی ہوئی شمشیریں تھیں از افق تابہ افق خوف کا سناٹا تھا رات کی قید میں خورشید کی تنویریں تھیں مولانا محمد علی جوہرؒ مولانا حسرت موہانی ؒ ‘سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ ‘ مولانا عبدالستار خان نیازیؒ‘ نواب بہادر یار جنگ‘ سردار عبدالرب نشتر‘ حسین شہید سہروردی‘ نوابزادہ نصراللہ خان‘ مولانا شاہ احمد نورانی اور سردار شیر باز خان مزاری جیسے اُجلے ‘ نظریاتی اور دلیر لوگ سیاست کو حصول مقصد کا ذریعہ سمجھ کر آئے‘ صلہ و ستائش کی تمنا سے بے نیاز جانگسل جدوجہد کرتے گزر گئے۔ مولانا محمد علی جوہر جیل میں تھے‘ جب انہیں اپنی لاڈلی بیٹی آمنہ کی شدید علالت کی اطلاع ملی‘ حکومت‘ عدالت سے رہائی کی استدعا کرنے کے بجائے اپنے معبود حقیقی سے دعا کی‘ بیٹی کو ارسال کی گئی ’’دعائے اسیر ‘‘کے نام سے نظم آج بھی دل کو چھو لیتی ہے ؎ میں ہوں مجبور پر اللہ تو مجبور نہیں تجھ سے میں دور سہی وہ تو مگر دور نہیں ہم کو تقدیر الٰہی سے شکوہ ہے نہ گلہ اہل تسلیم و رضا کا تو یہ دستور نہیں تیری قدرت سے خدایا تیری رحمت نہیں کم آمنہ بھی جو شفا پائے تو کچھ دور نہیں صرف مسلم ہی نہیں غیر مسلم سیاستدانوں نے بھی انگریز دور میں جیلوں میں رہ کر استقامت کا مظاہرہ کیا۔ ایک بار علامہ عنایت اللہ مشرقی نے جیل مینوئل کے مطابق حکام سے مراعات کا مطالبہ کیا ‘ اخبارو جرائد کے علاوہ سیاسی لیڈروں اور کارکنوں کی طرف سے خوب مذاق اڑا‘ قیام پاکستان کے بعد مختلف سیاسی اور آمرانہ ادوار میں سیاستدانوں نے بہادری سے میانوالی‘ ساہیوال اور مچھ کی خوفناک جیلیں کاٹیں۔ شاہی قلعے کی صعوبتیں برداشت کیں اور ذہنی و جسمانی تشدد سہا مگر رہائی کے لئے ہاتھ پھیلایا نہ علاج معالجے کے لئے بیرون ملک جانے کی استدعا کی۔ پاکستان میں نواب آف کالا باغ‘ ذوالفقار علی بھٹو اور جنرل ضیاء الحق کے دور حکمرانی میں سیاسی لیڈروں اورکارکنوں نے سب سے زیادہ عذاب سہا‘ جنرل ضیاء الحق اور امیر محمد خان کے دور میں جسمانی مگر قائد عوام کے عہد میںذہنی‘ نفسیاتی اور روحانی‘ آج تو بھٹو صاحب کا نام باوضو نہ لیا جائے تو وہ لوگ بھی ناک بھوں چڑھاتے ہیں جو اس عہد کم ظرف میں زیر عتاب رہے مگر میری عمر کے سب لوگوں کو یاد ہے کہ قائد عوام اپنے مخالفین کی بہو بیٹیوں کو بخشنے کے عادی نہ تھے۔ حبیب جالب نے اسی دور میں ایک اداکارہ کو زبردستی لاڑکانہ لے جائے جانے پر کہا تھا ؎ قصرشاہی سے یہ حکم صادر ہوا لاڑکانے چلو ورنہ تھانے چلو اپنے ہونٹوں کی خوشبو لٹانے چلو گیت گانے چلو ورنہ تھانے چلو منتظر ہیں تمہارے شکاری وہاں کیف کا ہے سماں اپنے جلوئوں سے محفل سجانے چلو ‘ورنہ تھانے چلو حاکموں کو بہت تم پسند آئی ہو‘ ذہن پر چھائی ہو جسم کی لو سے شمعیں جلانے چلو‘ غم بھلانے چلو ورنہ تھانے چلو ہمارے دوست مجاہد بریلوی کے بقول جس اداکارہ کو ’’لاڑکانہ چلو‘‘ کا حکم ملا‘ وہی تھیں جسے ایوب دور میں اذن رقص پر ’’تو کہ ناواقف آداب شہنشاہی ہے ابھی۔رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے ‘‘جیسا صدا بہار نغمہ تخلیق ہوا۔1953ء کی تحریک ختم نبوت کے دوران فوجی عدالت سے مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی اور مولانا عبدالستار خان نیازی کو سزائے موت ملی مگر دونوں نے سزا کو جوتے کی نوک پر رکھا‘ حکمرانوں کی طرف سے رحم کی اپیل کا مشورہ حقارت سے ٹھکرا دیا۔ بھٹو صاحب اگرچہ حکمرانی کے مزے لوٹنے کے لئے سکندر مرزا اورایوب خان کے کندھے پر سوار ہو کر سیاست میں آئے اور طویل عرصہ تک ایوب خان کا ہونہار بیٹاہونے پر فخر کرتے رہے مگر جنرل ضیاء الحق کے دور میں قید انہوں نے ایک بہادر رہنما کے طور پر کاٹی۔ میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری اس جیل کا تصور نہیں کر سکتے جو بھٹو اور اس عہد کے دیگر سیاستدانوں کا مقدر بنی‘ کمرے میں پلنگ‘ ایئرکنڈیشنڈ‘ نہ گھر کے مرغن کھانے۔ دنیا بھر کے رہنمائوں نے بھٹو کی رہائی کی اپیل کی‘ اگر مرحوم چاہتے تو ضیاء الحق سے جلاوطنی کا معاہدہ کر کے بیرون ملک چلے جاتے مگر ایسا سوچا‘ نہ کیا۔ میاں نواز شریف مگر جب سے جیل گئے ہیں اپنی اسقامت و دلیری کا تاثر دینے کے باوجود کسی نہ کسی بہانے‘ ملک سے باہر چلے جانے کے لئے کوشاں ہیں اور ہرگز نہیں سوچتے کہ یہ طرز عمل کسی ایسے لیڈر کے ہرگز شایان شان نہیں جو قوم کے سامنے اصولوں پر ڈٹے رہنے اور ووٹ کی عزت کے لئے ہر قربانی دینے کے بلند بانگ دعوے کرتا ہے۔ سپریم کورٹ نے طبی بنیادوں پر انہیں چھ ہفتے کے لئے رہا کر کے علاج معالجے کا موقع فراہم کیا مگر معلوم نہیں کس بنا پر وہ ایک دن بھی ڈھنگ کے کسی ہسپتال میں داخل نہ ہوئے۔ چھ ہفتے سیاسی ملاقاتوں‘ عمران خان کے خلاف منصوبہ بندی اور لایعنی ٹیسٹوں میں ضائع کر دیے‘ عدلیہ کے علاوہ قوم کو یہ باور کرایا کہ علاج محض بہانہ ہے اصل ہدف کسی نہ کسی طرح خود ساختہ جلاوطنی ہے۔ اہل خانہ میں سے بھی کسی کو ایک عمر رسیدہ شخص پر ترس نہ آیا کہ موقع غنیمت جان کر ان کا تسلی بخش علاج کرا لیا جائے۔ مدت ضمانت ختم ہونے پر امراض قلب و گردے کے سنجیدہ مریض کو جس طرح چار گھنٹے تک گاڑی میں بٹھا کر سڑکوں پر گھمایا گیا‘ اس سے ناقدین کو یہ کہنے کا موقع ملا کہ دل اور شوگر کا مریض بھلا متحمل کیسے ہو سکتا ہے۔ میاں صاحب اور ان کے مشیر بار بار عدالتوں سے رجوع کر کے بزعم خویش حکومت اور نظام عدل کو ظالم وسنگدل ثابت کرنے کے درپے ہیں اور اپنے کارکنوں‘ پیروکاروں کا حوصلہ بڑھانے کے خواہش مند کہ ایک نہ ایک دن وہ ان کے بیچ موجود ہوں گے لیکن درحقیقت فنی و تکنیکی وجوہات کی بنا پر رہائی کی ان کوششوں سے سیاسی کارکنوں اور عوام کو یہ پیغام مل رہا ہے کہ شیر پنجرے سے اُکتا گیا ہے اور کم ہمتی کا تاثر دیئے بغیر صرف زنداں نہیں ملک سے نکل کر انگلستان کی آزاد فضائوں میں سانس لینے کا خواہش مند ہے۔ چھ ہفتوں کی مہلت ضائع نہ کرتے تو شائد کسی نہ کسی عدالت اور حکومت کا دل پسیچ جاتا مگر بلا وجہ کی چالاکیاں شریف خاندان کے پائوں کی زنجیر بن چکی ہیں‘ خود کردہ را علاجے نیست