عمران خان نے صرف اپوزیشن نہیں‘ احتساب کے عمل سے خائف دیگر طبقات کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا ہے۔ طرح طرح کے دلائل تراشے جا رہے ہیں کہ احتساب کا عمل جاری رہا تو معیشت کا بیڑا غرق ہو گا اور سرمایہ کار بھاگ جائے گاوغیرہ وغیرہ۔ چند ماہ قبل صحافیوں کے ایک وفد نے عوامی جمہوریہ چین کا دورہ کیا’’انڈر سٹینڈ چائنا‘‘ تنظیم کے سربراہ ظفر محمود نے مہارت سے چین کے بڑے سرمایہ کار گروپوں سے ملاقات کا اہتمام کیا تھا‘ جو پاکستان میں مختلف منصوبوں پر کام کر رہے ہیں۔ چین پاکستان کا آزمودہ یار ہے اور پاکستانی عوام کی چین پر جان بھی نثار ہے بہت سے مشکل مواقع پر چین اور سعودی عرب نے پاکستان کا ساتھ دے کر ہمیں بحران سے نکالا‘ چین جب امریکہ یورپ کے اقتصادی و معاشی مقاطعے کی وجہ سے مسائل سے دوچار تھا تو پاکستان نے اس کی مدد کی‘ جو چینی قیادت اور عوام کو یاد ہے اور وہ ملاقاتوں میں فراخدلی سے اس کا تذکرہ کرتے ہیں۔1965ء کی جنگ میں چین نے پاکستان کے لئے اسلحے کے گودام کھولے تو وزیر اعظم چواین لائی نے ہمارے وفد کو یہ یقین دہانی کرائی کہ اس لین دین کا اندراج کہیں نہیں ہو گا‘ ہم دوستوں کی مدد کا ریکارڈ نہیں رکھتے کہ اگلی نسلیں کسی مرحلے پر اسے احسان یا طعنے کے طور پر دھرا نہ سکیں۔ اس قدر دوستانہ اور مخلصانہ تعلقات کے باوجود کوئی اگر یہ کہے کہ چینی سرمایہ کار پاکستان کی مدد کے لئے یہاں سرمایہ کاری کرتے اور ہم پر احسان فرماتے ہیں تو یہ آدھا سچ اور کج فہمی ہے۔ بیجنگ میں ہواننگ شن ڈانگ کمپنی کے دفتر میں ہمیں ساہیوال کول پاور پراجیکٹ کے حوالے سے بریفنگ دی گئی۔ کمپنی کا سمارٹ عہدیدار پاکستان کے علاوہ دنیا کے مختلف حصوں میں جاری منصوبوں کی تفصیلات بتا رہا تھا کہ اچانک ہمارے رفیق سفر حبیب اکرم نے سوال داغا کہ ’’پاکستان میں سرمایہ کاری کی سب سے بڑی وجہ یا کشش کیا ہے؟ ’’غیر معمولی شرح منافع‘‘ صاف گو چینی عہدیدار نے برجستہ جواب دیا۔ بات سو فیصد درست تھی‘ غیر ملکی کیا ہمارے تاجر‘ صنعت کار اور سرمایہ کار صرف اس صورت میں پیسہ لگاتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ منافع کما سکیں۔ احسان البتہ وہ ہمیشہ یہی جتلاتے ہیں کہ حب الوطنی کے جذبے کے تحت گھاٹے کا کاروبار کر رہے ہیں‘ جب بھی پاکستان میں شرح منافع کم ہوئی‘ حالات خراب ہوئے اور کسی حکومت نے ٹیکس وصول کرنا چاہا‘ یہ محب وطن بھاگ کر کبھی بنگلہ دیش‘ کبھی ملائشیا اور دبئی اور گاہے ترکی و سپین جا پہنچے۔ پوری دنیا میں سرمایہ کار کا دین ایمان منافع ہوتا ہے اور وہ زیادہ منافع والی جگہ پر نہ صرف خوب پیسہ لگاتا ہے بلکہ منافع کو بھی اسی جگہ انویسٹ کرتا ہے مگر پاکستانی سرمایہ کار ماشاء اللہ اس کریڈٹ کے حقدار ہیں کہ یہ کماتے پاکستان میں‘ جائیدادیں دیگر ممالک میں بناتے ہیں‘ جواز یہ پیش کیا جاتا ہے کہ بُرے وقتوںمیں بیرون ملک سرمایہ اور اثاثہ کام آئے گا۔ قصورسرمایہ کاروں کا بھی نہیں‘ جس ملک کے حکمران خاندان دوران اقتدار لوٹ مار کو شعار کریں‘ صنعت کار و تاجر اپنا مال اورجائیدادیں ان بھتہ خوروں سے بچاتے پھریں اور لوٹ مار کا سارا پیسہ بیرون ملک منتقل کر کے یہ شہدے فخر سے اپنے ووٹروں اورکارکنوں کو بتائیں کہ ہمارا اندرون ملک کوئی کاروبار ہے نہ ہمارے بچے پاکستان کے شہری ہیں‘ جن کا کاروبار پاکستان میں ہو بھی‘ ان سے اثاثوں کا حساب طلب کیا جائے تو وہ آمدنی کا ذریعہ ترسیلات زرکو بتائیں وہاں عام صنعت کار ‘ تاجر اور سرمایہ کار کیا کریں۔ الناس علی دین ملوکھم (عوام حکمرانوں کے نقش قدم پرچلتے ہیں) طویل تمہید کامدعا یہ ہے کہ اندرونی اور بیرونی سرمایہ کار پاکستان میں سرمایہ کاری پُرامن حالات‘ سستی لیبراورغیر معمولی منافع کے لالچ میں کرتے ہیں یہ حب الوطنی اور پاکستان دوستی کا جذبہ ہوتا ہے نہ پاکستانی قوم پر احسان‘ جن لوگوں کو یہ خوش فہمی تھی وہ موجودہ حکومت آنے کے بعد دور ہو گئی کہ کسی نے حب الوطنی کے جذبے سے ڈالر گردی کو روکا نہ ٹیکس دے کر ریاست کی مدد کی ۔ احتساب کا عمل شروع ہونے کے بعد قوم‘ نیب اور موجودہ حکومت کو مسلسل ڈرایا جا رہا ہے کہ جوابدہی کے خوف سے سرمایہ کار پاکستان سے بھاگ گیا تو ہم معاشی تباہی کے گڑھے میں جا گریں گے اور ہمارا کوئی پرسان حال نہ ہو گا۔ عمران خان نے گزشتہ دس سال کے دوران لئے گئے قرضوں کے آڈٹ کا فیصلہ کیا اور ایک اعلیٰ سطحی کمشن کا اعلان ہوا تو ایک بار پھر ہاہا کار مچ گئی کہ وسیع پیمانے پر احتساب کا عمل سرمایہ کاری کو روک دے گا اور پاکستان میں ترقی کا پہیہ اُلٹا چلنے لگے گا۔ کسی کے پاس اس سوال کا جواب نہیں کہ دنیا کے کس مہذب ملک اور معاشرے میں حکمران‘ سیاستدان‘ صنعت کار‘ تاجر اور دیگر طبقات احتساب سے بالاتر ہوتے ہیں؟ غیر ملکی قرضے ارکان اسمبلی اور وزیر مشیر آپس میں بانٹ کر قوم پر قرضوں اورسود کی ادائیگی کا بوجھ لادتے ہیں اور کہاں ٹیکس چوری‘ قرضہ خوری اور ذخیرہ اندوزی پر پوچھ گچھ کا رواج نہیں؟ چین میں احتساب کا نظام سخت ہے اور سرمایہ کاروں کے لئے قوانین بھی امریکہ و یورپ کے مقابلے میں کافی حد تک گنجلک‘ مگر سستی لیبر‘ بجلی اور زیادہ منافع کے لالچ میں دنیا بھر کے سرمایہ کار کھنچے چلے آتے ہیں کسی کو وہاں کا آمرانہ نظام روکتا ہے نہ کرپشن کے الزام میں ہر سال درجنوں افراد کی پھانسی اور نہ ٹیکس وصولی کا جابرانہ طریقہ کار۔ کم و بیش سارے بڑے امریکی سرمایہ کار جمہوری معاشرے اور منڈی کی معیشت کو چھوڑ کر چین کے بند معاشرے کو کاروبار کے لئے ترجیح دے رہے ہیں اور صدر ٹرمپ کی دھمکیوں کو بھی خاطر میں نہیں لا رہے۔ چینی حکمرانوں اوردانشوروں سے پوچھیں تو وہ سرمایہ کاری کے فروغ‘ عوام کی فلاح و بہبود اور لوٹ مار کے سدباب کے لئے احتساب کو نظام معیشت کا جزو لاینفک قرار دیتے ہیں تاکہ عوام اپنے حکمرانوں کی کرپشن اور سرمایہ داروں کی ہوس زر کی بھینٹ نہ چڑھیں مگر پاکستان میں فخر سے یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ احتساب اور معیشت ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔ حکومت کو ڈرایا جاتا ہے کہ احتساب سے معیشت کا پہیہ جام ہو گا اور سرمایہ کار کا اعتماد مجروح۔ گویا حکمرانوں اور ان کے طفیلی سرمایہ داروں کی لوٹ مار کے بغیر پاکستان چل سکتا ہے نہ غربت و افلاس کے مارے پاکستانیوں کا زندہ رہنا آسان۔ انہیں زندہ رہنا ہے اور پاکستان کو آگے چلنا ہے تو لٹیروں کو کھلی چھٹی ملی رہے‘ وہ قومی وسائل لوٹ کر لندن ‘ دبئی اور دیگر مقامات پر جائیدادیں بناتے رہیں‘ بنک بھرتے رہیں اور ان کی آل اولاد عیش و عشرت کی زندگی بسرکرے‘ عوام جائیں بھاڑ میں‘ انہیں ایڈز کا مرض لاحق ہو یا کم خوراکی کی وجہ سے سوکڑے کی بیماری‘ جہالت راج کرے یا تنگدستی و پسماندگی بھنگڑا ڈالے‘ان کی بلا سے۔ حرام خوروں نے اپنی طرح دوسروں کو بھی وہ جانور سمجھ لیا ہے جسے دیسی گھی ہضم نہیں ہوتا، ہر صحت مند انسان کو دیسی گھی بخوبی ہضم ہوتا ہے جسے نہیں ہو رہا وہ اپنا علاج کرائے نہ کہ دوسروں کو دیسی گھی سے ڈرائے‘ حرام کی لت جنہیں پڑ چکی وہ رزق حلال کی لذت محسوس نہیں کر سکتے مگر اس میں دوسروں کا کیا قصور؟کرپشن دوسروں کی حق تلفی ہے‘ سنگین ظلم اورجرم‘ جس کا سدباب نیب کرے یا اعلیٰ سطحی کمشن چشم ماروشن دل ماشاد۔ بس انتقامی کارروائی نہ ہوتقاضائے عدل و انصاف ملحوظ رہے۔