یہ سامنے ٹی وی پر شور مچاہے کہ آرمی چیف نے نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ملک مشکل معاشی حالات سے گزر رہا ہے اور معاشی استحکام کے بغیر قومی خود مختاری ممکن نہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ایک بہت بنیادی بات ہے۔ اقتصادیات اس وقت ہماری قومی خود مختاری کا مسئلہ ہے‘ بلکہ زیادہ وضاحت کے ساتھ کہوں تو قومی سلامتی کا بھی۔ روس کی بڑی سلطنت تھی‘ ہم سے کہیں بڑی عسکری اور ایٹمی طاقت تھی۔ کیسے جھاگ کی طرح بیٹھ گئی۔ ایسی بیٹھی کہ ہمارے ملک تک میں اس کے نظریاتی نام لیوا منہ چھپاتے پھرتے تھے۔ اس وقت جو ہنگامہ ہے ‘ وہ اسی بات پر تو ہے کہ اس بار ہم نے آئی ایم ایف کے ہاتھوں قومی خود مختاری گروی رکھ دی ہے۔ اس کی جرأت اس سے پہلے آئی ایم ایف کو کبھی نہ ہوئی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ آئی ایم ایف کا سیاپا کیا جا رہا ہے۔ اسے اکنامک ہٹ مین کے پس منظر میں دیکھا جا رہا ہے۔اب یہ بات راز نہیں رہی کہ یہ سب کچھ ہمیں سی پیک سے دور رکھنے کے لئے کیا گیا ہے۔ میں نے ہمیشہ کہا ہے یہ صرف اقتصادیات کا مسئلہ نہیں ہے‘ بلکہ خارجہ پالیسی کا مسئلہ ہے۔ ہم واپس امریکہ کے کیمپ میں دوڑے چلے جا رہے ہیں مگر اس بار امریکہ کو ہماری ضرورت نہیں۔ وہ ہمیں اتحادی بنانے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتا۔ وہ ہمیں اتحادی نہیں اپنا طفیلی بنانا چاہتے ہیں۔ اب کوئی ایوب خاں معاہدہ بغداد پر دستخط نہیں کرے گا۔ جنرل باجوہ نے ایک بہت عمدہ بات کی ہے کہ ہم سب کو مل کر اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔بالکل درست‘ یہاں ایک چھوٹی سی بات میں بھی عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ہم سب کو اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کا اعتراف کرنا پڑے گا۔ درست کہ سیاست دانوں نے اپنے منصب سے انصاف نہ کیا ہو گا۔ ان کی کھال میں چور اور لٹیرے گھس آئے ہوں گے۔ عوام نے دیانت داری سے ٹیکس ادا نہ کیا ہو گا۔ سب کچھ ہو گا‘ مگر بنیادی طور پر ہمیں ایک کمیشن بنانا چاہیے جسے جنوبی افریقہ کے تناظر میں ٹروتھ اینڈ ری کانسلیشن کمیشن کہا جاتا ہے جہاں ہر کوئی آ کر سچ بولے کہ اس سے کیا غلطی ہوئی ہے وہ اس کا اعتراف کرے اور اعلان کرے کہ وہ اپنی غلطیوں پر نادم ہے اور آئندہ قوم کے شانہ بشانہ دیانت داری سے چلنے کو تیار ہے۔ سب سے پہلے یہ کام ریاست کے سب اداروں کو کرنا چاہیے۔ اب سچ بولنا ہے تو صاف کہے دیتا ہوں فوج ‘ عدلیہ پارلیمنٹ سب اعتراف کریں۔ سیاست دان بھی ‘ وہ جو حکومت میں تھے یا ہیں اور وہ جو اپوزیشن کا حصہ رہے ہیں یا اب ہیں۔ ہمارے سپریم کورٹ کے ایک فاضل جج نے عدالت میں ببانگ دہل کہا تھا کہ ہمارا کام انصاف کرنا ہے چاہے آسمان ہی سر پر کیوں نہ گر پڑے۔ انہوں نے نیک نیتی سے انصاف کیا ہو گا اور سچ مچ آسمان قوم کے سروں پر آن گرا تھا۔ مری یہ سوچی سمجھی رائے ہے کہ جس دن پاناما کیس کی کارروائی شروع ہوئی اس دن کے بعد کے اعداد و شمار دیکھ لئے جائیں ہماری معاشی زندگیوں کے سروں پر آسمان ٹوٹ کر گرنے لگا تھا۔ اگر یہ سیاسی بحران نہ آتا تو ملک میں کوئی اقتصادی آفت کی توقع نہ تھی۔ کوئی سنجیدگی سے اس پر سوچنا چاہتا ہے تو اعداد و شمار پیش کئے جا سکتے ہیں۔ خیال رہے یہ نہیں کہہ رہا کہ 14کے دھرنے نے ملک تباہ کیا۔ وہ وار تو قوم برداشت کر گئی اور اپنی تعمیر نو میں منہمک ہو گئی۔ مگر یہ دوسرا ہلہ برداشت نہ ہو سکا۔ اگر اس معاملے کو برسر میدان ہی طے ہونے دیا جاتا تو بھی قیامت نہ آتی۔ ہماری سٹاک مارکیٹ اسی کے بعد گری۔ اس سے پہلے ہماری ریٹنگ کمال کی تھی۔ سرمایہ دار آنے کو پر تول رہے تھے کہ ہم نے انرجی‘ لاجسٹک اور لاء اینڈ آرڈر کے مسائل پر خاصا قابو پا لیا تھا۔ کچھ دیر تو خبر نہ ہوئی معیشت اپنے ہی زور پر چلتی رہی‘بہت دنوں بعد اندازہ ہوا نہ صرف یہ کہ سرمایہ کار آ نہیں رہے‘ بلکہ سرمایہ ملک سے جا رہا ہے۔ عالمی پالیسی ساز طے کئے بیٹھے تھے کہ ہمیں چین سے نہیں بیٹھنے دیا جائے گا۔ میں یہ نہیں کہتا کہ ہم پلاسی اور بکسر کی لڑائی ہار گئے تھے۔ نہ میں یہ کہتا ہوں کہ ہم نے اپنے ترکش کا آخری تیر ٹیپو سلطان کی شکل میں چلا دیا تھا۔صرف اتنا کہتا ہوں کہ آج کی ایسٹ انڈیا کمپنی نے چڑھائی شروع کی تو پھر رکنے کا نام تک نہ لیا۔ لگتا تھا کہ اب بہادر شاہ کی حکومت قلعہ تاپالم ہے۔ کوئی بخت خاں بھی نظر نہ آتا تھا کہ عارضی امید دلاتا۔ جب عبوری حکومت آئی تو ہم ڈھلان پر تیزی سے پھسلنے لگے۔ روپے کی قدر کم کرنے کا آغاز کر دیا گیا۔ شرح سود جسے ڈسکائونٹ ریٹ کہتے ہیں اسے بڑھانے کی ابتدا کر دی گئی۔ کابینہ کی میٹنگوں میں صاف کہا گیا کہ ہمیں آئی ایم ایف کے پاس چلے جانا چاہیے۔ کابینہ نے مشورہ دیا ذرا رک جائیے یہ کام آنے والوں کو کرنے دیا جائے۔ آنے والوں نے آتے ہی سی پیک کے خلاف اعلان جنگ کر دیا ۔یہ تک فرمایا اسے ایک سال کے لئے موخر کر دیا جائے۔ کہنے والوں نے کہا پیسہ موجود ہے۔ آپ نے طے کرنا ہے کہاں سے لینا ہے ‘سی پیک سے یا آئی ایم ایف کے سامنے گھٹنے ٹیک کر۔ آپ کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا گیا۔ پیسہ آ گیا یا آ رہا ہے‘ مگر ترقی کی رفتار رک گئی۔ جب تک ہم اس سارے پس منظر کو سمجھ نہیں لیتے اور کھل کر اپنی غلطی کا اعتراف نہیں کرتے ملک آگے نہیں بڑھ سکتا۔ معیشت کے مردہ جسم میں جان نہیں آ سکتی اس وقت ہم پھر ایک غلطی کر رہے ہیں ہم سمجھتے ہیں کہ مشکل وقت ہے‘ اس لئے مشکلات برداشت کر کے ہم اس مرحلے سے گزر سکتے ہیں۔ آج کل مشورہ دیا جا رہا ہے کہ قوم کو پیسے کی ضرورت ہے۔ اس لئے قربانی دو۔ دیکھیے اس میں شک نہیں کہ آمدنی بڑھانے کے دو طریقے ہیں‘ ایک تو یہ کہ آپ ملک میں ترقی کی رفتار کو تیز تر کر دیں۔ خود بخود سرکاری خزانے میں ٹیکسوں کی آمدنی بڑھ جائے گی اور کسی کو پتا بھی نہیں چلے گا۔ یہ ہم کر نہیں پا رہے۔ بلکہ اس سے الٹ کر رہے ہیں۔ ترقی کی رفتار کو نصف سے بھی کم کر دیا ہے اور توقع یہ کرتے ہیں کہ اس کے نتیجے میں جو غربت آئے گی‘ اس کے باوجود عوام آپ کو پہلے سے زیادہ ٹیکس دیں گے ۔جبر کا یہ نظام کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا۔ میرے خزانے میں جب دو ہزار بلین آتے تھے تو میں دفاع کے لئے 550ارب خرچ کرتا تھا۔ جب 4ہزار بلین آنے لگے تو میں 1100ارب خرچ کرنے لگا۔ کسی کو احساس تک نہ ہوا۔ایسے میں قرضے کی ادائیگی بھی مشکل نہیں لگتی تھی مگر جب آپ نے ترقی کے سارے راستے مسدود کر دیے‘ اب جب آپ لوگوں کی جیب خالی کرانا چاہتے ہیں ان سے قربانی کا تقاضا کرتے ہیں تو وہ چیخ اٹھتے ہیں کہ سارا خون تو آپ نے نچوڑ لیا۔ اب مزید کیا چاہیے ہمارے پاس بچا ہی کیا ہے؟۔ ہم ملک کی خود مختاری فروخت کر چکے ہیں مرے منہ میں خاک‘ صرف اقتصادی خود مختاری ہی نہیں‘ قومی خود مختاری بھی‘ ہمارا کوئی فیصلہ اب ہمارا اپنا نہیں ہے۔ اب تو ہم بھارت کو سلامتی کونسل کا ممبر بنانے کی بات بھی کر رہے ہیں۔ اللہ معاف کرے اس طرح تو ہم اور بہت کچھ کریں گے۔ آرمی چیف نے بروقت وارننگ دی ہے۔ مگرعلاج اس کا وہی اب نشاطِ انگیز ہے ساقی۔ آپ کو اپنی اس بدلتی خارجہ پالیسی کو ری وزٹ کرنا پڑے گا۔ یہ انگریزی کا لفظ میں نے اس لئے استعمال کیا کہ عموماً ہمارے لوگ اسے جلدی سمجھتے ہیں اور مثبت معنوں میں لیتے ہیں۔ ہمیں یہ بات سمجھنا ہو گی کہ خطے کی جیو سٹریٹجک صورت حال بدل چکی ہے۔ ہم آخری سوئیاں نکالنے کے جس پراسس میں ہیں اسے مکمل کریں اور نئی راہیں تراشیں ‘ہم اس عرصے میں بہت نقصان کر چکے۔ شاید اب بھی سنبھل جائیں اور بات بن جائے۔