سحر کے ساتھ ہی سورج کا ہمرکاب ہوا جو اپنے آپ سے نکلا وہ کامیاب ہوا میں جاگتا رہا اک خواب دیکھ کر برسوں پھر اس کے بعد مرا جاگنا بھی خواب ہوا بے نظیر کی 66ویں سالگرہ پر بلاول نے کیا خوب تقریر کی کہ میں نے بڑے اشتیاق سے پوری کی پوری سنی۔ یہ تقریر ہرگز دلچسپی سے خالی نہیں تھی۔ اب وہ تقریر کرنا سیکھ گیا ہے اور انداز اس کا اپنا ہے ایک مرتبہ تو اس نے مہنگائی کے حوالے سے ایک جملہ یوں ادا کیا کہ مفہوم نکل رہا تھا کہ آسمان مہنگائی سے بات کر رہا ہے ۔ویسے یہ جملہ بھی تو معنی سے خالی نہیں ہے۔مجھے تو نوجوان کا لب و لہجہ پسندہے۔ جوش ہے‘ جذبہ ہے اور مکالمے میں ادائیگی کی مشقت ہے۔ دیکھیے بعض اوقات لوگوں کی بے ہنری بھی ہنر بن جاتی ہے۔ اس کی مثالیں سامنے کی ہیں۔اداکار مصطفی قریشی سندھی ہیں اور انہیں پنجابی بولنا نہیں آتی مگر ان کا پنجابی بولنا انہیں سپرہٹ کر گیا۔ اداکارہ شبنم بنگالن ہیں انہوں نے اردو بولی تو کمال کر دیا۔ ایسا لگتا تھا کہ ان کے ساتھ ساتھ اردو کو بھی سانس چڑھی ہوئی ہے۔ چندر شیکر بھارت کا سپنر تھا۔ اصل میں اس کے بازو پر فالج کا حملہ ہوا تھا اس نے فالج زدہ بازو سے بال پھینکا تو وہ سپنر بن گیا اسی طرح عمران خاں کو سیاست نہیں آتی تھی وہ سیاست میں آیا تو یوٹرن سمجھداری کی علامت بن گیا ،مگر بات تو ہو رہی تھی بلاول کی۔ اس نے اپنی تقریر کو لب و لہجہ سے ایسا بنا دیا کہ اس پر مزاحیہ پروگرام ہی نہیں ہوئے بلکہ بعض اوقات پاس کھڑی شیری رحمن بھی ہنس پڑتی ہے۔ جو بھی ہے بلاول نے خوب تقریر کی اور خان صاحب کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ کے بھی لتے لئے۔ اس نے سندھ کے لوگوں کو خواب بھی خوب دکھائے: خوابوں سی دل نواز حقیقت نہیں کوئی یہ بھی نہ ہو تو درد کا درمان بھی نہ ہو بلاول کی ساری باتیں غلط بھی نہیں تھیں کہ حکومت کے عمل میں تضاد تو ہے۔ کئی باتیں حکومتی لوگوں کے لئے جائز اور اپوزیشن کے لئے ناجائز‘ بلاول نے تو حلال اور حرام کی اصطلاحات استعمال کیں۔ بلاول کی چھوٹ اپنے نانا بھٹو پر بھی پڑتی ہے۔ بھٹو نے بھی خواب دکھائے تھے جس کی تعبیر آج تک لوگ ڈھونڈ رہے ہیں۔ وہ مگر کرشماتی شخصیت کے حامل تھے۔ ویسے سیاسی سطح پر دکھائے گئے خوابوں کا حقیقت سے کم ہی تعلق ہوتا ہے دور کیوں جائیں۔ پی ٹی آئی کے پچاس لاکھ گھر اور ایک کروڑ نوکریاں ابھی کل کی بات ہے اور انہیں اس وعدہ پر ہنسی بھی نہیں آتی۔ روزگار اور مکان تو چھوڑیں فیصل وڈوا جو طلسماتی تبدیلی کی بات کرتے تھے۔ آتے ہیں بلاول کی تقریر کی طرف یہ تو انہوں نے خالص سیاسی جملہ کہا کہ عمران اتنا ہی ظلم کریں جتنا وہ برداشت کریں۔ عمران اتنے ناسمجھ نہیں کہ بات نہ سمجھتے ہوں وگرنہ زرداری صاحب کے پروڈکشن آرڈر جاری نہ ہوتے۔ حکمران بننے کے بعد سب کچھ نظر آنے لگتا ہے وہ جو ووڈا نے کہا کہ عمران دیوار کے پار دیکھ سکتے ہیں۔ مصیبت یہ ہے کہ دیوار کی اس طرف بھی تو دیکھ لینا چاہیے۔ آپ کو یاد ہو گا کہ جب پارٹیوں میں شخصی تسلط کی بات چلی تھی تو اس خاندانی اجارہ داری کے خلاف پی ٹی آئی نے ووٹ نہیں ڈالا تھا اپنے گھر میں سب سمجھدار ہیں۔ باقی باتیں تو ٹھیک ہیں مگر بلاول نے ایک میزائل فضل الرحمن پر فضول میں داغ دیا۔ کہا کہ فضل الرحمن کی حکومت آئی تو آپ کو سنگسار کیا جائے گا۔ یہ بات اپنے اندر بے شمارمعنی رکھتی ہے ۔ بلاول نے بجٹ کو عوام دشمن قرار دیا تو غلط نہیں کیا۔ اب دیکھیے سونا 800روپے مزید مہنگا ہو گیا مگر سونا تو اب غریب کا مسئلہ ہی نہیں کہ اسے تو رات کو سونا نصیب نہیںکہ آنے والے دنوں ے ڈرائونے خواب اسے ڈراتے ہیں۔ اتنی تیزی سے چیزوں کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں کہ وہ لطیفہ یاد آتا ہے کہ ایک شخص بھاگتا ہوا گھر جا رہا تھا تو کسی نے وجہ پوچھ لی۔ کہنے لگا اپنی بیوی کا سوٹ لے کر گھر بھاگ رہا ہوں کہ کہیں گھر پہنچتے پہنچتے فیشن ہی تبدیل نہ ہو جائے۔ ابھی آٹے کا تھیلا 20اور گھی کا ٹین 100روپے مہنگا ہوا ہے۔ زیادہ تر ضروریات زندگی کو گراں کیا جا رہا ہے دوسری طرف سب کچھ وہی ہوتا دکھائی دے رہا ہے جو ماضی میں رائج رہا اب عمران خان کو میثاق معیشت کا خیال آ گیا کہ اپوزیشن کے ساتھ اس معاملے میں مدد لی جائے۔ تو اس کا کیا مطلب ہے جب زرداری کہتے ہیں کہ سب کچھ ختم کر کے آئے کی بات کی جائے تو اسے فردوس عاشق اعوان این آر او مانگنے سے تعبیر کرتی ہے۔ بلاول نے تو یہ بھی کہہ دیا کہ علیمہ خاں کو این ار او ہی توملا ہے۔ زرداری صاحب کچھ زیادہ سمجھدار ہیں انہیں معلوم ہے کہ کچھ سمجھدار ہیں انہیں معلوم ہے کہ کچھ نہیں ہو گا۔ بلاول نے تو صاف کہا ہے کہ اٹھارویں ترمیم کے خاتمہ کے لئے زرداری کو گرفتار کیا گیا ہے بلاول جانتا ہے کہ اٹھارہویں ترمیم ختم ہو گئی تو وہ خاندانی طور پر غریب ہو جائیں گے۔ کیا تماشہ ہے کہ بلاول پیسہ روکنے کی بات کرتا ہے کہ ا س پیسے سے سندھ میں کئی ہسپتال بن سکتے تھے اور پتہ نہیں کیا کیا انقلابات آ سکتے تھے۔ بندہ پوچھے کہ آپ نے پہلے کون سے کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں۔ ایڈز جیسی موذی مرض لاڑکانہ میں پھیل رہی۔ تھر میں بچے بھوک سے مر رہے ہیں۔ اب ایمنسٹی سکیم پر بھی ایک نظر ڈال لیں کہ چلیے یہ موجودہ حکمرانوں کے لئے جائز ہے مگر ساتھ ہی ساتھ جو ان کی آفر کا انداز اور رویہ ہے تو اس سے سب سہمے ہوتے ہیں کہ ان کا کچھ اعتبار نہیں کیا کریں کہ ہم کو تو امید کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے کہ اس کے بعد کیا تجربہ کریں گے: پھر چشم نیم وا سے ترا خواب دیکھنا اور اس کے بعد خود کو تہہ آب دیکھنا ٹوٹا ہے دل کا آئنہ اپنی نگاہ سے اب کیا شکست ذات کے اسباب دیکھنا فی الحال تو دونوں طرف سے تقریریں ہی ہو رہی ہیں کبھی دن کو تو کبھی آدھی رات کو۔ دونوں طرف سے دھمکیاں۔ ن لیگ بہرحال تیل دیکھو اور تیل کی دھار دیکھ کے مصداق تھوڑی سی محتاط ہے۔ پی پی پی احتجاج کے موڈ میں ہے مگر ن لیگ تو اس کی سکت نہیں رکھتی کہ سٹریٹ پاور اس کے پاس نہیں۔ مولانا فضل الرحمن کا معاملہ دلچسپ ہے کہ ان کے ساتھ چلنا بھی مشکل اور چھوڑنا بھی ممکن نہیں۔ جماعت اسلامی بہرحال اپنا فرض نبھا رہی ہے کہ جان لیوا مہنگائی کے باعث لوگوں کی زندگی اجیرن ہو گئی ہے۔ ایک خوبصورت شعر کے ساتھ اجازت: کھلونو کی دکانوں راستہ دو مرے بچے گزرنا چاہتے ہیں