دو روز قبلــ ’’راوی کنارے‘‘ نئے شہر کا سنگِٔ بنیاد رکھتے ہوئے، وزیر اعظم نے ریاست مدینہ کے قیام کے خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنے کے عزم کا ، ایک مرتبہ پھر اعادہ کیا ۔شہری آبادیوں کا ایک خاص حد سے متجاوز ہونا، کوئی آج کا مسئلہ نہیں ہے ، بلکہ چودہ سو بیالیس سال قبل، ’’ریاستِ مدینہ‘‘کی تشکیل کے بالکل ابتدائی مرحلے پر ہی، نبی اکرمﷺ نے مہاجرین کی آبادکاری اور مواخات کے مراحل کے بعد،مدینہ منورہ میں آباد ہونے والے مسلمانوں کی فہرست کی تیار ی کا حکم فرمایا تھا ،جس کی تفصیل صحیح بخاری سمیت ، دیگر کتبِ سیرت میں موجود ہے ، اسلام کی اس اوّلین’’مردم شماری‘‘ میں پندرہ سو مسلمان مردوں ، عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کے نام ریکارڈ میں لکھے گئے ، اور’’مواخات‘‘ کے عمل میں 186 مدنی خاندانوں نے ، اتنے ہی مکی خاندانوں کو اپنے اندر ضم کیا۔ مواخات کے اس عمل کی تفصیل پڑھیں تو ایثار و قربانی کے وہ نقشے سامنے آتے ہیں، جس کی مثال انسانی تاریخ پیش کرنے سے قاصر ہے ۔ دفاع، خزانہ، عدلیہ اور انتظامیہ کے اداروں کا عربوں کے ہاں کوئی تصّور نہ تھا، ان امور کو’’نقطہ آغاز‘‘ سے اُٹھایا اور ادارہ سازی کے عمل سے گزار کر ، ایک جدید دفتری نظام اور سیکرٹریٹ کی تشکیل فرمائی،جس کی تفصیل کتب ِ حدیث والسیّر میںدیکھی جاسکتی ہے،جس کے مطابق سیکرٹریٹ، ریاست کا مرکز ثقل۔اور ریاست کا نظم چلانے کے لیے محنتی اور دیانتدار اہلکار، اس نظام کی بنیادی ضرورت قرار پائے۔ مدینہ کی شہری آبادی جب ایک خاص حد سے بڑھنے لگی تو آپﷺ نے مدینہ منورہ سے متصل نئی آبادیوں کے قیام کی ہدایت فرمائی اورساتھ ہی’’ٹائون پلاننگ‘‘ کے خدوخال بھی ، اسی موقع پر دنیا کو عطا فرمائے، جس کے مطابق سڑک اتنی کشادہ ہو کہ دو لَد ے ہوئے جانور آسانی سے گذر پائیں ، آج کی زبان میں، دو موٹر کاریں بسہولت رواں دواں ہوسکیں۔گھر کی تعمیر میں دیواریں اتنی اونچی نہ ہوں کہ ہمسائے کی روشنی اور ہوا متاثر ہو۔دوسری گول میز کانفرنس (17 ستمبر1931ئ) میں شرکت کے بعد وطن واپسی کے سفر میں علامہ محمد اقبالؒ اٹلی رُکے اور ان کی مسولینی سے ملاقات ہوئی تو مسولینی نے اقبال سے بعض امور پر مشاورت کی تو آپؒ نے فرمایا:ہر شہرکی آبادی مقرر کرکے اسے حد سے نہ بڑھنے دیں۔مسولینی نے حیران ہو کر پوچھا : اس میں کیا مصلحت ہے؟ اقبالؒ نے کہا شہر کی آبادی جس قدر بڑھتی ہے، اس کی تہذہبی واقتصادی تو انائی اسی قدر کم ہو جاتی ہے اور ثقافتی توانائی کی جگہ’’محرکاتِ شر‘‘لے لیتے ہیں۔اقبال نے مزید کہا: یہ میرا ذاتی نظر نہیں بلکہ میرے پیغمبر ؐ نے آج سے تیرہ سو سال قبل یہ ہدایت اس وقت فرمائی تھی جب مدینہ منورہ کی آبادی ایک حد سے تجاوز کرنے لگی تو آپ ؐ نے قریب نئی بستیاں آباد کرنے کا حکم فرمایا۔آپ ؐ نے مدنی زندگی میں لوگوں کو معاشرتی تحفظات کی ضمانت مہیا کی کیونکہ سوشل سکیورٹی کی بہم رسانی ہی جرائم کا اصل سدِّ باب ہے۔ میثاق مدینہ کے دستخط کنندہ قبائل کو سوسو اونٹ بیت المال میں جمع کرانے کیلئے کہا گیا تا کہ اگر کوئی ناگہانی اُفتاد آجائے تو بیت المال سے اس شخص یا قبیلے کی مدد کی جاسکے ۔ مدینہ کی خودمختار ریاست کے دستور میں :’’للمسلمین دینہم وللیہودد ینہم‘‘(یعنی مسلمان اپنے دین اور یہود اپنے دین پر رہ کر مذہبی آزادی کے حامل ہوں گے ) جیسی اہم شق شامل کی گئی ۔مزید یہ کہ شہر میں داخل ہونے کا مرکزی راستہ بہ آسانی مسجد تک پہنچتا ہو۔ مسجد کیساتھ مارکیٹ ہو، مارکیٹ ٹیکس فری ہو ۔ قیمتوں کا باقاعدہ تعین ہو، جس کی مانٹیرنگ سرکاری سطح پر ہو۔ شہری آبادی ماحولیاتی پاکیزگی سے متصف ، جبکہ انڈسٹریل ایریا شہروں سے باہر ہو ۔ سیر و تفریح کیلئے شہر سے متصل سیر گاہ اور باغ ہو ، مدینہ منورہ کے باغ میں از خود نبی اکرم ﷺ تشریف فرما ہوتے تھے ۔ اس وقت جبکہ ہمارے ہاں،شہروں کی طرف نقل مکانی کا رحجان تیز--- بلکہ تیز تر ہورہا ہے ۔زر خیز زرعی زمین --- ہاوسنگ سوسائیٹیوں میں ڈھل رہی ہیں ، کھیتوں کی پگڈنڈیوں پر پروان چڑھنے والے ، لینڈ کروزر کے سوار اور گائوں سے براہِ راست پوش ایریازکے مکین بنتے جارہے ہیں۔ آبادی کے حالیہ اعدادو شمار 22 کروڑ90 لاکھ--- صرف تیس سال بعد اسی آبادی کے دوگنا ، یعنی 45 کروڑ ہونے کا خدشہ بلکہ خطرہ… 23 کروڑ قابو میں نہیں، 45کروڑ کس کے قابو میں آئیں گے ۔ پھر ایک منٹ میں ایک نومولود… ترقی کا اگر پیمانہ’’آبادی‘‘میں اضافہ رہا تو دنیا میں ہمارے مدمقابل اور کون ہوسکتا ہے ۔ دوسری طرف’’غذائی قلت‘‘اور سامانِ خوردونوش قلیل سے قلیل تر… تعلیم ہمارے ہاتھ سے نکل چکی ہے ، جس’’جدّت طرازی‘‘ کے پیچھے ہم اپنی اسلامی اور مشرقی روایات کا جنازہ نکالنے کے درپیٔ ہیں، اس کا حال یہ ہے۔ کوا چلا ہنس کی چال--- بچے کا ’’سکول بیگ‘‘ اتناوزنی ہوچکا ہے کہ اسے ’’اے ، بی ، سی ‘‘ ہی سے فرصت نہیں۔ تعمیر سیرت اور تشکیل کردار کے سَوتے پَوٹھیں تو کہاں سے ؟ ’’ہیلتھ‘‘ کا یہ حال ہے کہ اقوام عالم کی صف میں بالکل آخری نمبروں پر ہم ہیں۔ان حالات میں ہماری رہبری اور راہنمائی کا سامان صرف اور صرف’’ ریاست و حکومتِ مدینہ‘‘ ہی سے میسر آسکتا ہے، اس لیے کہ یہ’’ریاست ِ مدینہ‘‘ کی تشکیل تاریخی اعتبار سے ایک ایسا سیا سی معجزہ تھا ، جس سے انسانیت ہمیشہ روشنی اور راہنمائی حاصل کرتی رہے گی،یہ انقلاب ایک ایسے خطِّے میں آیا، جہاں باقاعدہ کسی ریاست کا تصّور تھا ، اور نہ ہی وہ کبھی کسی ریاست کے ماتحت یا زیر اثر رہے تھے ۔ وہ قبائلی نظام اور’’بدویانہ‘‘ طرزِ زندگی کے رسیا تھے، اسلام کی آمد، یا، رسول اللہ ﷺ کی مدینہ ہجرت کے ساتھ ہی ،’’ریاست ‘‘ کا تصّور عملی سطح پر نمایاں ہوا اور پھر بتدریج نبی اکرم ﷺ کی قیاد ت میں، ’’ریاستِ مدینہ‘‘عملی سطح پر، وسعت پاکر مدینہ منورہ سے جزیرہ نمائے عرب تک پھیلتی چلی گئی۔ لامحالہ ریاستِ مدینہ کی تشکیل نے ابتداً انفرادی اور اجتماعی سطح پر ، سب سے زیادہ ’’مدینہ منورہ‘‘ کو متاثر کیا، جس کے سبب یہاں کی معاشرت اور سماج میں نمایاں تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ سب سے اہم، کہ نہ صرف مکہ مکرمہ--- بلکہ تمام عرب سے مسلمان ہجر ت کرکے مدینہ منورہ میں سمٹے چلے آرہے تھے، اور یہ سلسلہ 8ہجری تک جاری رہا۔ اس سے مدینے کی آبادی میں ایک تنوع اُبھر کر سامنے آیا، اب یہ شہر محض یہود یا اوس و خزرج کے قبائل پر ہی مشتمل نہ تھا بلکہ’’قریش‘‘کے مہاجرین بھی یہاں آباد ہوچکے تھے،اب یہاں کا معاشرتی ڈھانچہ دینی عقائد اور محکم معاشرتی اصولوں کی مضبوط بنیادوں پر استوار ہورہا تھا۔ ان مہاجرین کے مسائل میں اہم ترین مسئلہ یہ تھا کہ یہ بے سروپا تھے، بالخصوص مکہ میں ان کی موروثی اور ذاتی جائیدادیں چھِن گئیں تھیں۔ غزوہ خندق(5ہجری) جب مسلمانوں کو اپنے خلاف تمام متحدہ طاقتوں سے سرخروئی نصیب ہوئی، تو’’مدینہ ہجرت‘‘کی پالیسی نرم کردی گئی ، اس لیے کہ اب مزید طاقت اور افرادی قوت کی ضرورت نہ تھی ، بلکہ اب وہ مقام آگیا تھا کہ مدینے کی اسلامی ریاست …دفاعی حیثیت سے نکل کر ، از خود حملہ آور ہونے کی طاقت حاصل کرچکی تھی ،چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے اس غزوہ کے بعد اپنا وہ تاریخ ساز فرمان عطا فرمایا ، جس نے آنیوالے ایّام کی نقشہ کشی فرمادی ، آپ ﷺ نے فرمایا ’’ اب ہم ان پر حملہ کریں گے ، اور وہ کبھی ہم پر حملہ کرنے کے قابل نہ ہوسکیں گے ‘‘۔ مزید ،آپﷺ شہر مدینہ کی بڑھتی ہوئی آبادی ، اس کی خوراک اور رہائش وغیرہ کے امور کی طرف بھی ہمہ وقت متوجہ تھے ۔