کچھ عرصہ قبل شہر یار آفریدی نے چرس اور منشیات کے طبی استعمال کے لیے ایک فیکٹری لگانے کی بات کی تو اسے طنز اور حقارت کا عنوان بنا دیا گیا۔ اب پاکستان نے بھنگ کا تیل برآمد کرنے کا کوئی منصوبہ بنا یا ہے تو ناقدین کا حال ایک بار پھر تنگ ہو رہا ہے۔ سوال یہ ہے ہمیں تحقیق اور مطالعے کا ذوق نہیں اور ہم اپنے گردو پیش میں ہونے والی پیش رفت سے لاعلم ہیں تو کیا یہ بھی عمران خان کا قصور ہے؟ اقوام متحدہ کی دستاویزات کے مطابق پاکستان میں افیون کا جائز ، قانونی اور طبی استعمال بہت قدیم ہے اور قیام پاکستان کے وقت ہی پاکستان نے بھارت سے ایک معاہدہ کیا جس کے تحت بھارت کے علاقے غازی آباد میں قائم فیکٹری سے پاکستان کو افیون فروخت کی جاتی تھی۔یہ افیون جائز اور قانونی طریقے سے لی جاتی تھی اور طبی استعمال میں لائی جاتی تھی۔اقوام متحدہ ہی کی دستاویزات بتاتی ہیں کہ افیون سے پیٹ کے امراض ، ملیریا ، جسم کے درد ، پیچش وغیرہ کا علاج کیا جاتا تھا۔یہ دستاویزات بتاتی ہیں کہ اس وقت سالانہ 500 من افیون طبی استعمال میں لائی جاتی تھی۔ یہ دلچسپ انکشاف بھی اقوام متحدہ ہی کی دستاویز میں موجود ہے کہ 1948 ء میں افیون کی پیداوار میں خودکفالت کے لیے مغربی پاکستان میں باقاعدہ 491 ایکڑ زمین مختص کی گئی لیکن یہ تجربہ ناکام ہوا اور صرف تین ہزار کی بجائے صرف اکتیس سیر ( کلو)افیون حاصل ہوئی چنانچہ اگلے سال حکومت نے مزید تربیت یافتہ ماہرین کا عملہ یہاں بھیجا تا کہ پیداروا بڑھائی جا سکے۔یہی نہیں بلکہ اس پر سرکاری سطح پر باقاعدہ تحقیقی رپورٹ مرتب کی گئی کہ افیون کی کاشت اس قدر کم ہونے کی وجوہات کیا ہیں۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ بتاتی ہے کہ پاکستان کو خطرہ تھا کہ بھارت سے افیون کی سپلائی بند نہ ہو جائے اس لیے اب کی بار پاکستان نے منٹگمری یعنی ساہیوال میں افیون کاشت کرنے کا فیصلہ کیا اور اس کے لیے4600 ایکڑ مختص کیے گئے۔اچھا بیج دستیاب نہ ہونے ، پانی کی کمی اور موسمی مسائل کی وجہ سے یہ تجربہ بھی ناکام ہو گیا اور صرف 254 سیر افیون حاصل ہو سکی۔تاہم اس تجربے سے یہ ثابت ہو گیا کہ مغربی پاکستان میں تھوڑی محنت کر کے اتنی افیون کاشت کی جا سکتی ہے کہ بھارت سے نہ خریدنا پڑے۔ چنانچہ ایک اور تجربہ کیا گیا۔ 1951 ء میں 982 ایکڑ پر افیون کاشت کی گئی اور 784 سیر افیون حاصل ہوئی۔اس تجربے کے بعد حکومت نے فیصلہ کیا کہ افیون کی مزید کاشت اب ریاست بہاولپور اور صوبہ سرحد ( کے پی کے ) میں کی جائے گی۔چنانچہ اگلا تجربہ مردان اور رحیم یار خان میں کیا گیا۔ اس تجربے کی روشنی میں پھر یہ فیصلہ ہوا کہ اب بہاولپور میں بھی افیون کاشت نہیں ہو گی۔ مزید افیون اب صوبہ سرحد میں کاشت کی جائے گی اور وسیع پیمانے پر کاشت کی جائے گی۔چنانچہ 1953 ء میں صوبہ سرحد میں 756 ایکڑ پر افیون کاشت کی گئی اور حیران کن پیداوار حاصل ہوئی۔128من۔اقوام متحدہ کی دستاویز بتاتی ہے کہ یہ 128من افیون بھی پاکستان کی جائز اور قانونی ضرورت کا صرف 28 فیصد تھا۔ عمران خان نے افیون اور چرس کے طبی استعمال کی بات کی تو شور مچ گیا۔ کیا ناقدین کو علم ہے کہ افیون کے طبی استعمال کے لیے پاکستان میں پہلی فیکٹری 1950ء میں لاہور میں قائم کی گئی تھی۔یہی نہیں گورنمنٹ فارسٹ کالج ایبٹ آباد اور پنجاب یونیورسٹی میں افیون پر باقاعدہ تحقیق شروع کی گئی کہ افیون کی مختلف اقسام کو کیسے کاشت کیا جا سکتا ہے۔ اقوام متحدہ کی اس دستاویز میں ایک بڑا اہم سوال اٹھایا گیا کہ جب پاکستان افیون کے خاتمے کے لیے اقوام متحدہ سے معاہدہ کر چکا تھا تو کیا اس کے باوجود پاکستان میں افیون کی کاشت اور فیکٹری کا قیام مناسب تھا؟ دل چسپ بات ہے کہ دستاویز میں ہی اقوام متحدہ نے خود ہی اس کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ہاں یہ مناسب تھا کیونکہ یہ پاکستان کی جائز ضرورت تھی۔دستاویز میںLarge Ligitimate Demand کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔ اب آئیے اس سوال کی طرف کہ اس افیون ، بھنگ وغیرہ کے بارے میں دنیا کیا کہہ رہی ہے اور کیا طب میںان کے استعمال کے حوالے سے شہر یار آفریدی یا عمران خان نے کوئی بہت انہونی اور غیر منطقی بات کہہ دی ہے؟ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ 2006 ء میں برطانیہ نے میک فالین سمتھ نامی فارما سوٹیکل کمپنی کو طبی مقاصد کے لیے برطانیہ میں افیون کاشت کرنے کی اجازت دی۔برطانیہ نے تو یہ تجویز بھی دے رکھی ہے کہ افغانستان میں افیون کاشت کرنے کی اجازت دی جائے تا کہ برطانیہ طبی مقاصد کے لیے اس سے افیون خرید سکے۔یہ بھی ہمارے علم میں ہونا چاہیے کہ اقوام متحدہ کے ’’ سنگل کنونشن آن نارکوٹکس ڈرگس‘‘ کے تحت افیون کی طبی مقاصد کے لیے کاشت جائز اور قانونی ہے۔بھارت دنیا میں طبی مقاصد کے لیے افیون کا سب سے بڑا مینو فیکچرر ہے۔نیمچھ اور غازی پور میں خود بھارتی حکومت نے فیکٹریاں بنا رکھی ہیں جہاں بھارت میں صرف ایک سال میں افیون کاشت کرنے کے 44 ہزار سے زائد لائسنس دیے گئے۔ اتر پردیش ، راجستھان ، لکھنئو ، رتلام ، مدھیا پردیش بریلی اور فیض آباد میں اس کی اعلانیہ کاشت ہوتی ہے ۔ وہ اس سے اربوں روپے کما رہا ہے۔ ترکی کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ اس نے افیون کا باقاعدہ قانونی اور جائز کاروبار کیا ہے۔چنانچہ 2005 ء میں اس جائز کاروبار کے صرف ایک جزو یعنی مارفین کی ایکسپورٹ سے 60 ملین ڈالر کمائے ہیں۔وہاں ساڑھے چھ لاکھ لوگ اس کی کاشت کے قانونی عمل سے روزگار کما رہے ہیں۔فارما سوٹیکل کمپنیوں کے ساتھ ایک قانونی کاروبار کر کے ترکی نے ناجائز کاشت پر بھی قابو پا لیا ہے۔اب کاشت ہوتی ہے تو منشیات کی بجائے ادویات میں استعمال ہوتی ہے۔ بھارت اور ترکی سے افیون قانونی طریقے سے برطانیہ اور امریکہ کو بیچی جا رہی ہے اور اس کام میںگلیکسو سمتھ ، ایبٹ ، جانسن اینڈ جانسن جیسی بڑی کمپنیاں شامل ہیں۔ انٹر نیشنل کونسل آن سکیورٹی ایند ڈیویلپمنٹ یہ تجویز بھی دے چکی ہے کہ افغانستان میں پوست کے کاشتکاروں سے باقاعدہ معاہدہ کیا جائے کہ وہ بین الاقوامی مارکیٹ میں فارما سوٹیکل کمپنیوں کو جائز طریقے سے افیون بیچا کریں۔ڈبلیو ایچ او کی ڈرگ رپورٹ کے مطابق فارماسوٹیکل کمپنیوں کو افیون کی اتنی شدید ضرورت ہے کہ اسے پورا کرنے کے لیے دنیا میں افیون کی پیداوار کو پانچ گنا بڑھانا ہو گا۔ چنانچہ برطانیہ ہی نے ، چلی نے بھی افیون کی کاشت کی اجازت دے رکھی ہے۔واشنگٹن اور کولوریڈو میں بھنگ کاشت کرنا جائز اور قانونی کام قرار دیا جا چکا ہے۔یوروگوئے میں اب چرس کی خریداری کا باقاعدہ بازار بن چکا جہاں سے فارماسوٹیکل کمپنیاں مال اٹھاتی ہیں۔جرمنی میں عدالت محدود پیمانے پر بھنگ کی کاشت جائز قرار دے چکی۔ اقوام متحدہ کے ’’ سنگل کنونشن آن نارکوٹکس ڈرگس‘‘ کے تحت یہی کام پاکستان کرنے لگے تو یہاں شور مچ جاتا ہے۔آفرین ہے ۔