ملک میں گرمی اور گرفتاریاں عروج پہ ہیں۔نہ گرمی نئی ہے نہ گرفتاریاں۔سابق صدر آصف علی زرداری پہلے بھی گیارہ سال جیل کاٹ چکے۔کس طرح کاٹی اور وہ جیل میں کن مراعات سے لطف اندوز ہوتے رہے یہ ایک علیحدہ بات ہے۔ نواز شریف کی قید اس بار البتہ کچھ طویل ہوگئی ہے۔جنرل مشرف کی مجبوری تھی کہ وہ انہیں بہت عرصہ پس زنداں نہیں رکھ سکتے تھے۔ ایک وجہ یہ تھی کہ نواز شریف کو نیلسن مینڈیلا بننے کا کوئی خاص شوق نہیں تھا ۔ دوسری بات یہ تھی کہ جنرل مشرف ایک مخصوص عالمی ایجنڈے کے تحت پاکستان پہ مسلط کئے گئے تھے ۔انہیں نہ عوام سے کوئی دلچسپی تھی نہ ملک کی لوٹی ہوئی دولت اور خاندان شریف اور بھٹو کی بدعنوانی سے کوئی سروکار۔ ایسے میں بہتر یہی تھا کہ نواز شریف کو مع اہل و عیال و کاروبار برادر بزرگ کے حوالے کردیا جائے جہاں وہ باقی عمر اللہ اللہ کرتے اور ریال گنتے گزار دیں لیکن اپنی ہی پالیسیوں کے باعث کمزور پڑتے مشرف نے انہیں ایک بار پھر سیاسی منظر نامے میں کود پڑنے کی راہ دکھائی یا یوں کہہ لیںکہ پاکستان میں بڑھتی سیاسی حرارت میں انہیں پھل پکنے کی توقع کچھ زیادہ تھی۔انہیں سعودی عرب میں گمنامی کی زندگی گزارنا گوارا نہیں تھا۔ انہوں نے معاہدے کی خلاف ورزی کی اور مناسب وقت دیکھ کر ملک واپس آگئے۔ بے نظیر بھٹو کے ساتھ میثاق جمہوریت ایک آمر کے خلاف معاہدہ نہیں بلکہ یہ وعدہ تھاکہ اس بار وہ ایک دوسرے کے خلاف استعمال نہیں ہونگے۔ آئی جے آئی کا زخم بے نظیر بھٹو بھولی نہیں تھیں۔اس کے بعدبے نظیر بھٹو راستے سے ہٹا دی گئیں۔ یہ دنیا بھر میں نامعلوم اور پراسرار سیاسی قتل میں سے ایک تھا جن کا سراغ کبھی نہیں ملتا۔ ضیاء الحق نے بھٹو کو راستے سے ہٹانے کے لئے نامعلوم وجوہات کی بنا پہ عدلیہ کا انتخاب کیااور زمانے بھر کی کالک اپنے دامن میں بھرلی۔آج پاکستان میں خود عدلیہ اسے عدالتی قتل کہتی ہے۔مرتضی بھٹو کاخون آلود لاشہ اس کی اپنی بہن کی عملداری میں سڑک پہ لاوارث پڑا رہ جاتا ہے۔ اس کی بیٹی فاطمہ بھٹو آصف علی زرداری کی گرفتاری پہ ٹوئیٹ کرتی ہے کہ اس گرفتاری سے اس کا باپ واپس نہیں آسکتا۔ یہ قتل لیکن کسی سیاسی شخصیت کے دامن پہ داغ نہیں بنتا۔اس قتل کی تحقیقات میں انصاف اور قانون کا ہی نہیں تین ایس ایچ اوز کا بھی خون ہوا، تمام ملزمان بری ہوگئے لیکن کوئی جمہوریت کو گالیاں نہیں دیتا۔مشرف کومجاہد فروش ، قاتل اور غدار کہا جاتا رہا ۔دس سال میں اس کے خلاف مقدمے کی پیروی کس نے روکی؟یہی نواز شریف اور زرادری ہی حکمران تھے۔مشرف کی امریکہ نواز پالیسیوں پہ اسے چہ ارزاں فروختند جیسے طعنے چہکتی سرخیوں کے ساتھ دیے گئے لیکن کیا اس کے بعد آنے والے جمہوری حکمرانوںنے اسی کی خارجہ پالیسی نہیں اپنائی۔جب تک امریکہ بہادر نے اپنا ہاتھ خود سر سے نہ اٹھالیا ہم چپ چاپ احکامات کی بجا آوری کرتے رہے۔ مشرف کو منہ کھول کھول کر غدار کہا جاتا رہا لیکن نواز شریف کو بھارت میں دو قومی نظریے کی مٹی پلید کرنے پہ کسی کو غدار کہنے کی جرات نہ ہوئی۔عوامی حمایت جو حاصل تھی۔ کسی آمر کو یہ سعادت حاصل نہیں ہوئی کہ وہ اپنے خلاف کرپشن یاغداری کے کسی کیس میں عوامی ہجوم میں فاتحانہ پیش ہو اور وکٹری کا نشان بناتا ہوا لوٹ جائے۔یہ مطلوبہ سہولت صرف عوامی حمایت رکھنے والے چوروں لٹیروں اوربدعنوانوں کے نیٹ ورک پہ میسر ہے۔ اب آپ اعتراض کرسکتے ہیں کہ مقدمات کا سامنا بھی تو سیاسی لوگ کرتے ہیں۔اسکا جواب یہ ہے کہ ان سیاسی لوگوں کو اچھی طرح علم ہے کہ سیاسی مقدمات ان کے سیاسی قد میں اضافہ کرتے ہیں اور ان کا بال بھی بیکا ہونے والا نہیں۔یقین نہ آئے تو اب تک کے تمام سیاسی مقدمات اٹھا کر دیکھ لیں اور اگر کسی کو قرار واقعی سزاہوئی ہو تو ایسے ملک کے شہری ہونے پہ فخر کریں۔اگر ان مقدمات کی تاریخ اٹھا کر دیکھی جائے تو یہ مخالف سیاسی جماعت کے دور میں بنتے اور اپنے دور میں تحلیل ہوتے نظر آجاتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ مقدمات میں کوئی جان نہیں ہوتی یا ان کی پیروی ممکن ہی نہیں ہے ہاں وہ بنائے ہی اس طرح جاتے ہیں کہ سیاسی مخالفوں کا شکنجہ کسا جاسکے اور وقت پڑنے پہ وہ باآسانی فائلوں میں دبائے جاسکیں۔ عدالتوںکو سیاسی مقدمات میں استعمال کرنا ان ہی جمہوری حکومتوں کا طرہ امتیاز ہے۔یہی وہ رویہ ہے جس کی طرف عمرا ن خان نے اپنی رات گئے تقریر میں اشارہ کیا۔ چوروں اور مجرموں کو ہار پھول پہنانا چھوڑ دیں۔انہیں جئے بھٹو اور میاں دے نعرے وجن گے کے شور میں عدالت لانا اور لے جانا ترک کریں۔یہ قومی مجرم ہیں۔ہاں بس یہی مجرم نہیں ہیں یہ بھی ایک حقیقت ہے۔ عمران خان گزشتہ دس سالوں کا حساب مانگتے ہیں اور اسی لئے مانگتے ہیں کہ یہ عوام کا ووٹ لے کر برسراقتدار آئے اور عوامی نمائندہ ہونے کا شرف اپنے گلے میں ڈالے بیٹھے ہیں۔ اس بار جو گرفتاریاں ہوئی ہیں وہ اس لئے مختلف ہیں کہ عمران خان کے ساتھ ڈیل کرنے یا انہیں بلیک میل کرنے کا کوئی آپشن موجود نہیں ۔جنہیں یہ خیال خام ہے کہ گرفتاریاں بجٹ کے شور کو دبانے کے لئے کی گئی ہیں تو انہیں اسے فی الفور دور کرلینا چاہیے۔اول تو بجٹ میں ایسا کچھ بھی نہیں ہے جس سے گرفتاریوں کا شور دب سکے۔عوام پہ بوجھ بہت کم ڈالا گیا ہے۔ اتنے ٹیکس تو ہر سال ایک ہی حکومت لگادیا کرتی ہے۔بجٹ کا اصل مقصد ریوینیو کلیشکن ہے اور وہ اسی طرح ڈیزائن کیا گیا ہے۔ سارا بجٹ اسی پہ منحصر ہے۔اگر متوقع ٹیکس وصول نہ ہوا تو اخراجات کہاں سے پورے ہونگے اور باقی تخمینہ کہاں جائے گا یہ بہت بڑا سوال ہے۔عمران خان نے نیب کی طرز پہ ایک ہائی کمیشن بنانے کا اعلان کیا ہے جو گزشتہ دس سالوں کے قرضے کا حساب کرے گا۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر عشرت حسین کی رپورٹ جو پاکستان کے 2000-2017 تک کے قرضہ جات کے تجزئیے پہ مشتمل ہے، معاون ثابت ہوسکتی ہے۔اس میں مشرف دور کے امریکی قرضے بھی شامل ہیں۔آپ بے شک ان کو اگنور کردیں لیکن اسی آمریت کے زیر سایہ سیاست دانوں نے جن میں چوہدری برادران جو حکومت کے اتحادی ہیں بھی شامل ہیں،این ڈی ایف سی سے اٹھاسی ارب روپے کے قرضے معاف کروائے۔ ان میں سے بائیس ارب روپے کی ریکوری ہونے والی تھی لیکن شوکت عزیز نے ان ہی سیاست دانوں سے ڈیل کی اور یہ قرضے واپس نہ ہوسکے۔آمر کو گالیاں دینے والی قوم جس دن اپنے پسندیدہ سیاسی رہنماوں کی چوری اور خیانت پہ ان کی حمایت سے دست بردار ہوگئی وہ اس ملک کا ٹرننگ پوائنٹ ہوگا۔