کشمیر کے یک نکاتی ایجنڈے پہ پارلیمنٹ کا دوسرا مشترکہ اجلاس براہ راست دیکھتے ہوئے میں اس سوچ میں ہوں کہ کیا پارلیمنٹ میں بیٹھے حزب اختلاف کے قانون سازوں کو حالات کی سنگینی کا احساس بھی ہے؟ اپوزیشن کا رویہ تکلیف دہ حد تک خود غرضانہ اور بے رحمانہ ہے۔ اسے یہ احساس تو ہوگا کہ اس وقت بھارتی میڈیا پاکستانی پارلیمنٹ میں کہے جانے والے ایک ایک لفظ کو نہ صرف مانیٹر کررہا ہے بلکہ اس میں سے حسب خواہش مواد نکال کر ساری دنیا میں ڈھنڈورا پیٹنے کی تیاری کررہا ہے۔ سینیٹر مشاہد اللہ خان نے جو تقریر کی اسے نرم ترین الفاظ میں زہر اگلنا کہتے ہیں۔ ان کے طویل خطاب میں عمران خان پہ طنز و استہزا، زہرناکی اور سفاکانہ لاپرواہی کے ساتھ حساس معاملات پہ غیر ذمہ دارانہ بیان بازی کے سوا کچھ نہیں تھا۔اسپیکر کی بار بارمداخلت کے باوجود وہ کشمیر کے مسئلے پہ بات کرنے کو تیار نہیں تھے اور ان کا فوکس عمران خان کی ذات اور اپوزیشن کے خلاف کرپشن کے وہ کیس رہے جو ان حالات میں بھی جاری ہیں۔ اسی دوران مفتاح اسماعیل کو ضمانت میں توسیع کی درخواست مسترد ہونے کے بعد گرفتار بھی کرلیا گیا۔دیگر کیس بھی جوں کے توں چل رہے ہیں۔اپوزیشن کو غالباً امید تھی کہ موجودہ حالات کے باعث حکومت اپوزیشن کے ساتھ اس خصوصی معاملے میں نرمی کا برتاو ٔ کرے گی لیکن ایسا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔یہی تلخی بلکہ زہر مشاہد اللہ خان کے لہجے میں گھلا نظر آیا۔۔ غیر ذمہ دارانہ رپورٹنگ سے پرہیز کرتے ہوئے یہ کہنا بعید از حقیقت نہ ہوگا کہ انہوں نے ڈھکے چھپے انداز میں این آر او کی پیشکش بھی کرڈالی۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر حکومت مسئلہ کشمیر پہ موجودہ حساس صورتحال پہ، جو کسی بھی وقت جنگ میں تبدیل ہوسکتی ہے، اپوزیشن کا تعاون چاہتی ہے تو اسے کوٹ لکھپت میں قید نواز شریف اور نیب کے محبوس آصف زرداری سے ملاقات کرنی ہوگی۔بصورت دیگر اتحاد و اتفاق کا خواب خواب ہی رہے گا۔ مجھے علم نہیں کہ بلیک میلنگ اور کیا ہوتی ہے او ر ان حالات میں جب ساری دنیا کی نظر آپ کی پارلیمنٹ پہ ہو، اس قسم کی باتیں کون سی سیاسی بصیرت اور قومی غیرت کا مظہر ہیں۔ خواجہ آصف ان سے بھی ایک ہاتھ آگے نکل گئے۔انہوں نے کہا کہ آپ ساری دنیا میں کشکول لئے پھرتے رہے۔سب کو ہماری معاشی صورتحال کا علم ہے باالفاظ دیگر ہم اس قابل ہی نہیں ہیں کہ جنگ کر سکیں۔کیا خواجہ آصف بتانا پسند کریں گے کہ در در کشکول لئے پھرنے کی نوبت کس کی وجہ سے آئی۔ کیا ملک پہ گزشتہ دس سال سے تحریک انصاف کی حکومت تھی یا اس نے پہلے دو ماہ میں خزانے خالی کردیئے تھے؟کیاوہ بتانا پسند کریں گے کہ نواز شریف کے دور میں وزیر خارجہ کون تھا؟اورتین سال یہ اہم وزارت خالی کیوں رہی اور نواز شریف خود اس اہم وزارت پہ فائز کیا کرتے رہے؟ نواز شریف کی تاریخ گواہ ہے کہ وزارت خارجہ کے معاملے میں انہوں نے اپنے سوا کسی پہ بھروسہ نہیں کیا۔ سرتاج عزیز ایک ناکام وزیر خزانہ تھے جنہیں نواز شریف نے بعد ازاں ایک سال کے لئے وزیر خارجہ لگایا اور کارگل ہوگیا۔ ان کی ناکامی کا یہ عالم تھا کہ وہ دنیا کے سامنے پاکستان کا موقف واضح نہ کرسکے اور ساری دنیا میں ہماری فوج درانداز اور جارح کی حیثیت سے سامنے آئی حتی کہ نواز شریف کو بل کلنٹن کے سامنے امریکہ کے قومی دن یعنی 4 جولائی کو صفائی پیش کرنی پڑی جس میں انہوں نے اپنی جان یہ کہہ کر چھڑانے کی کوشش کی کہ کارگل ایڈوینچر کا انہیں علم ہی نہیں تھا۔ چوہدری شجاعت کہتے ہیں کہ انہیں مکمل بریفنگ دی گئی تھی۔2013 ء میں جب نواز شریف تیسری بار برسراقتدار آئے تب بھی انہوں نے سرتاج عزیز کو مشیر خارجہ مقرر کیا اور وزارت خارجہ کا قلمدان اپنے ہی پاس رکھنے میں کوئی مصلحت جانی۔اس دوران نریندرا مودی نے بنگلہ دیش میں کھڑے ہوکر سقوط ڈھاکہ کے متعلق ہرزہ سرائی کی اور کہا کہ پاکستان سے بنگلہ دیش کی علیحدگی بھارت کے دیرینہ خواب کی تکمیل ہے۔نواز شریف مودی کی والدہ کو ساڑھیاں بھیجتے رہے۔ عین اس وقت جب کلبھوشن جادیو کو پاکستان نے مقدمہ چلا کر سزائے موت سنائی ، نواز شریف بھارت کے چند بڑے سرمایہ داروں میں سے ایک سجن جندال ہمراہ مزید تین پراسرار شخصیتوں کے،خفیہ ملاقاتیں کرہے تھے۔ انہیں بے نظیر ائیر پورٹ پہ ان کے داماد کیپٹن صفدر اور ان کی صاحبزادی کے داماد راحیل منیر نے خاموشی سے ریسیو کیا۔ جب میڈیا کو بھنک پڑی اور شور مچا تو بحیثیت وزیر اعظم نواز شریف خاموش رہے البتہ ان کی ان سے زیادہ متحرک صاحبزادی نے اعتراف کیا کہ سجن جندال بغیرسفارتی کاغذات کے، نواز شریف سے ملنے آئے تھے اور یہ ایک نجی کاروباری ملاقات تھی۔ ملک کا وزیر اعظم ہمارے دیرینہ روایتی دشمن ملک کے ان سرمایہ کاروں سے نجی خفیہ ملاقاتیں کررہا تھا جو آج مقبوضہ کشمیر میں آرٹیکل 35 اے کی منسوخی کے بعد کشمیریوں کی زمینیں خریدیں گے۔ کیا نواز شریف کو علم تھا کہ آنے والے دنوں میں کشمیر میں کیا ہونے جارہا ہے۔نواز شریف سے قوم یہ سوال کرنے کا حق رکھتی ہے کہ سجن جندا ل اور دیگر سرمایہ کاروں سے جو آج کشمیر میں یہودی سرمایہ کاروں کی طرز پہ کشمیریوں سے ان کی زمینیں خریدیں گے، ان کا کیا تعلق تھا؟ان کی خارجہ پالیسیوں کا نتیجہ یہ تھا کہ پاکستان کے سر پہ فیٹف کی تلوار لٹک رہی تھی،مودی امریکہ کے چار دورے کرچکا تھا۔ اس نے ا س اوبامہ سے سات کامیاب ترین ملاقاتیں کیں جسکے ملک میں کبھی اس کا داخلہ ممنوع تھا۔ نواز شریف واشنگٹن میں اپنی فیملی کے ہمراہ فوٹو سیشن کرواتے رہے اورامریکہ نے پاکستان کو ایف سولہ کے لئے مالی معاونت بند کردی۔بھارت خلیج میں تاریخ کی سب سے بڑی سرمایہ کاری کررہا تھا ، ایران سعودی تنازعہ میں ہم مکمل طور پہ سعودی عرب کیمپ میں تھے،بھارت ہمیں افغانستان سے کک آوٹ کرچکا تھا اور پاکستان ساری دنیا میں تنہا ہو کر رہ گیا تھا۔ دوسری طرف ملک کا وزیر اعظم اور اس کی ٹیم کیا کررہی تھی؟ اپنی ہی فوج کے خلاف بیان بازی اور ڈان لیکس اور ممبئی حملوں میں پاکستان کے ہاتھ کا اعتراف۔ آج عمران خان کی خارجہ پالیسی کا نتیجہ یہ ہے کہ امریکہ میں ان کا ایسا استقبال ہوتا ہے کہ مودی سرکار کو اپنی وہ موو جو شاید وہ اگلے چارسال میں بھارتی پارلیمنٹ میں لے کر آتے، فوری طور پہ لانی پڑتی ہے۔ افغانستان سے مکھن سے بال کی طرح نکال دیئے جانے والا پاکستان آج مرکزی حیثیت میں طالبان کے ساتھ مزاکرات کا سہولت کار ہے اور بھارت کہیں دکھائی نہیں دیتا۔ عمران خان کشمیر پہ پارلیمنٹ میں تقریر کرتا ہے تو بھارتی میڈیا میں آگ لگ جاتی ہے کہ عمران خان نے جنگ کی دھمکی دی ہے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں دھمکی دی گئی ہے۔نہیں سمجھ رہی تو اپوزیشن جو موجودہ حالات میں بھی اپنے ہی حالات کا رونا رہ رہی ہے اوراسے اتنی بھی پروا نہیں کہ پاکستان کی مقننہ سے دنیا کو کیا پیغام جارہا ہے۔ ٭٭٭٭٭