حسن البنا شہید سے محمد مرسی تک اخوان المسلمون کی داستان لکھی جائے تو اس کا عنوان کیا ہوگا؟وفا اور استقامت ۔ مصر کے حکمرانوں کی تاریخ لکھی جائے تو اس کا عنوان کیا ہونا چاہئے؟آمریت اور جبر و استبداد کا سلسلہ رواں،جس کا نشانہ ہر دور میں اخوان المسلمون رہی۔مصر کے حکمرانوں کا سیاسی سلسلہ نسب فرعون سے ملتا ہے۔ عرب اسرائیل جنگ میں جمال عبدالناصر نے اپنی قوم کو مخاطب کرتے ہوئے بڑی رعونت سے کہا تھا:فرعون کے بیٹو آج تمہارا مقابلہ موسی کے بیٹوں سے ہے۔ پھر فرعون کے بیٹے تو حسب سابق و روایت بحر ذلت میں غرق ہوگئے اور موسی کے نام نہاد بیٹوں نے اسرائیل کی فتح کا جشن منایا۔جس قوم کو فراعنہ سے نسبت پہ آج بھی فخر ہو، اس پہ آمر تادم مرگ ہی حکومت کریں گے لہذہ انہوں نے ایسا ہی کیا۔دکھ کی بات یہ ہے کہ اپنے قیام سے لے کر آج تک اخوان المسلمون ہرآمرانہ حکومت کا نشانہ رہی۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ جس دم مصر نے آمریت سے نجات حاصل کی تو فراعنہ سے فاخرانہ نسبت کا اظہار کرنے والے مصر کی تاریخ کی پہلی جمہوری حکومت اسی اخوان المسلمون کے حصے میں آئی۔اسی اخوان المسلمون کے محمد مرسی جو ایک جمہوری عمل کے نتیجے میں مصر کے پہلے جمہوری صدر منتخب ہوئے ، بالآخراپنے مرشد مہدی عاکف رحمہ اللہ علیہ کے پاس پہنچ گئے۔صرف دو سال قبل مہدی عاکف کا نوحہ لکھتے ہوئے راقم کو خوب اندازہ تھا کہ ایک دن محمد مرسی کا نوحہ بھی اسے لکھنا ہوگا کہ اخوان المسلمون کی قسمت ہی کچھ ایسی رہی ہے۔مرشد مہدی عاکف اتنی بارپابند سلاسل ہوئے کہ بلا شبہ دیوار زنداں سے ان کی خوشبو آج بھی آتی ہوگی۔عرب دنیا نے انہیں سجین کل عصور یعنی ہر دور کا قیدی کا لقب دیا۔ اخوان المسلمون کے تاسیس کے سال پیدا ہونے والے مہدی عاکف پہلی بار اس وقت بیس سال کے لئے پس زنداں گئے جب ان کی عمر صرف چھبیس سال تھی اور اخوان المسلمون جمال عبد الناصر پہ ایک ناکام قاتلانہ حملے کے نتیجے میں حسب معمول کریک ڈاون بھگت رہی تھی۔ اخوان المسلمون کے خلاف مصری حکومت کے جبر کی ابتدا اس وقت ہوئی جب 1948 ء میں وزیر اعظم محمود پاشا کو ایک اخوانی نے قتل کردیا۔ اس قتل کی مذمت اخوان المسلمون کے بانی حسن البنا نے ضرور کی لیکن قتل اور مذمت میں جرم اور جواز کا بڑا بے جوڑ فرق تھا۔مصر کی غربت میں آنکھ کھولنے اور اسلامی نشا ۃ ثانیہ کا خواب دیکھنے اور دکھانے والا انقلابی حسن البنا مصر کی اشرافیہ کی آنکھوں میں پہلے ہی کھٹک رہا تھا۔فلسطین سے برطانیہ کے انخلا کے بعد اخوان نے بڑی بے جگری کے ساتھ جہاد فلسطین میں حصہ لیا تھا ور سرکاری افواج سے زیادہ شجاعت کا مظاہرہ کیا تھا۔دوران جنگ برطانیہ نے مصر کی آزادی کا جو مطالبہ کیا تھا ، اس کی یاددہانی پہ ڈٹ جانے سے بھی اخوان المسلمون کی عوامی حمایت میں بے حد اضافہ ہوا۔اخوان کے عوامی خدمت کے کام اس کے علاوہ پہلے ہی جاری تھے۔دو سال کے اندر اندر اخوان کے ارکان کی تعداد پانچ لاکھ تک پہنچ گئی تھی۔ اس صورتحال سے شاہ فاروق اور اس کا پشتیبان برطانیہ دونوں خائف تھے۔برطانیہ کے مطالبے پہ اخوان المسلمون پہ پابندی لگا دی گئی۔ محمود پاشا کو قتل کیا گیا اور حسن البنا کو بڑی بزدلی کے ساتھ رات کے اندھیرے میں گولی مار کر شہید کردیا گیا۔مرشد مہدی عاکف المعروف سجین کل عصور حسن البنا کے خون کی خوشبو میں بسی روایت کو تھامے اخوان المسلمون کو تدرج کے راستے مسند اقتدار پہ دیکھنے کے خواہش مند تھے۔آزادی کی جنگ کے دوران اخوان المسلمون کا قوم پرستوں کا ساتھ دینا بھی اسی سلسلے کی کڑی تھی۔یہ مہدی عاکف کی جراتمندانہ قیادت اور شبانہ روز محنت تھی کہ جب 2005 ء میں مصر میں پہلے کثیر جماعتی انتخابات ہوئے تو اخوان المسلمون نے بیس فیصد سیٹیں حاصل کیں۔اپنی اس کامیابی کے متعلق مہدی عاکف خاصے پر اعتماد تھے۔انہیں یقین تھا کہ اخوان المسلمون کی جڑیں عوام میں ہیں جن کا ووٹ انہیں اقتدار کے ایوانوں تک پہچائے گا۔عوام میں اپنی اثر پذیری کی وجہ سے انہیں یقین تھا کہ آزادانہ اور شفاف انتخابات ہوئے تو اخوان المسلمون کو ایوان اقتدار تک پہنچنے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔یہی وجہ تھی کہ انتخابات سے قبل جب اخوان المسلمون کے اقتدار میں آنے کے امکانات سے متعلق مہدی عاکف سے پوچھا گیا تو انہوں نے بھرپور اعتماد کے ساتھ جواب دیا کہ اخوان پہلے ہی اقتدار میں ہے کیونکہ عوام کی طاقت ہمارے ساتھ ہے اور یہی اصل جمہوریت ہے۔بے شمار کارکنوں اور قائدین کی شہادتوں، گرفتاریوں اور پابندیوں کے باوجود کوئی ہمیں حق گوئی سے باز نہیں رکھ سکا۔ یہی وہ وصف ہے جو عوام میں ہمیں پذیرائی دلاتا ہے اور وہ ہمارے ساتھ ہیں۔ 2011 ء میں عرب بہار کے نتیجے میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں عوام نے انہیں مایوس نہیں کیا۔فراعنہ مصر کی روایت میں آمروں کی تا دم مرگ مطلق العنان حکمرانی کے تسلسل میں جب مصر میں پہلی بار منصفانہ انتخابات ہوئے تو اخوان المسلمون فتح یاب ٹھہری۔اسی اخوان المسلمون کے فتح یاب صدر مرسی، مسند اقتدار پہ صرف ایک سال کچھ ماہ فائز رہے۔بالآخر فوج نے حکومت کا تختہ الٹ دیا اور جنرل سیسی نے اقتدار پہ قبضہ کرلیا۔اخوان المسلمون کے خلاف حسب روایت جبر کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوا۔ صدر مرسی حسن البنا اور سید قطب شہید کی راہ کے مسافر ہوئے۔مرشد عام سید مہدی عاکف ، محمد مرسی کے ساتھ پابند سلاسل ہوئے ۔امریکہ اور عرب ممالک کی آشیر واد سے ایک جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے والے آمر سیسی نے نہ محمد مرسی کی عمر اور گرتی ہوئی صحت کا خیال کیا ، نہ سید مہدی عاکف کی بزرگی اور نقاہت کا۔ مہدی عاکف دوران اسیری اپنے رب کے حضور پہنچ گئے اور محمد مرسی نے اپنے خلاف مقدمات کی سماعت کے دوران کمرہ عدالت میں اپنی بے گناہی کے حق میں آواز بلند کرتے ، اس قفس میںآخری ہچکی لی جس میں مقدمات کی سماعت کے دوران انہیں ایسے لایا جاتا تھا گویا وہ کوئی بے حد خوفناک دہشتگرد ہوں۔ حکومت کو ان کی زندگی میں کئے گئے جبر و ستم کافی نہ لگے اور مردہ مرسی غالبا زندہ مرسی سے زیادہ خطرناک لگا تو انہیں ان کے آبائی گاوں میں تدفین سے روکدیا گیا اور سرکاری نگرانی میں خاموشی سے اس شخص کی نعش دفنا دی گئی جو مصر میں جمہوریت کی علامت تھا۔ بی بی سی فارسی نے سرخی لگائی:محمد مرسی بے سر و صدا دفن شد عجیب دستور ہے۔ لیبیا ، عراق اور افغانستان میں جمہوریت لانے کے لئے بے تاب مغربی طاقتیں مصر میں اخوان کی جمہوریت کو ایک سال بھی نہیں دے پاتیں۔ شاید اس لئے کہ قذافی، صدام اور ملا عمر کے بعد آنے والے اسی کے اشاروں پہ ناچنے کے لئے تیار ہوتے ہیں۔ اگر یہی کلیہ تھا تو محمد مرسی جو محمد شفیق کے اڑتالیس فیصد کے مقابلے میں اکیاون فیصد ووٹ لے کر برسراقتدار آئے تھے،کیمپ ڈیوڈ کے شرمناک معاہدے کی توسیع کے امریکی مطالبے پہ تیار تو ہوگئے تھے لیکن ان کا اخوان المسلمون سے وفا کا جرم کچھ زیادہ ہی سنگین تھا۔