مولانا روم پر انہیں تخصیص حاصل ہے۔ اس دن بھی وہ مولانا روم کے حوالے سے بات کرتے رہے کہ ان کی تعلیمات کا نچوڑ یکجہتی اتحاد اور یگانگت ہے۔ اس حوالے سے انہوں نے نہایت دلچسپ بات بتائی کہ جب مولانا قونیہ میں قیام پذیر ہوئے تو شہرت چاروں وانگ پہنچی۔ وہاں کوئی مولانا سراج الدین تھے۔ انہوں نے اپنے ایک شاگرد کو مولانا روم کے حوالے سے معلومات لینے کے لئے ان کے پاس بھیجا کہ پتہ تو کر کے آئو کہ مولانا روم 72فرقوں سے متفق ہیں۔ وہ شاگرد مولانا کے پاس پہنچا اور مکالمہ کیا کہ وہ کس طرح بہتر فرقوں کو ٹھیک سمجھتے ہیں۔ اس مکالمے میں وہ مولانا کی اس اپروچ کو جہالت پر مبنی قرار دینے لگا۔ مولانا روم نے کہا’’میں آپ سے بھی متفق ہوں‘‘ اصل میں مولانا روم کا مقصد یہ تھا کہ ہمیں دوسرے کی بات سننا چاہیے مکالمے کی صورت پیدا کرنی چاہیے ایک دوسرے کے قریب آ کر امت مسلمہ کو اکائی میں پرونا چاہیے۔ اصل میں ایک روز بعد ہمارے پیارے دوست غلام عباس جلوی نے اپنے ہاں کھانے پر بلایا اور ہمیں سرپرائز دیا کہ انہوں نے ایک عظیم سکالر عبدالعزیز جاوید کو اپنے ہاں مدعو کیا ہوا تھا۔ وہاں مولانا حمید حسین جیسے جید عالم بھی موجود تھے اورڈاکٹر ناصر قریشی بھی۔ رشید احمد انگوی صاحب سے ہم عبدالعزیر جاوید کے بارے میں پہلے بھی سن چکے تھے۔ واقعتاً ایسے لوگ ہمارا سرمایہ ہیں جنہوں نے اپنی ساری عمر اپنے فرض کو نبھانے میں گزار دی۔ اصل میں بڑا پن اور عظمت یہی ہے کہ جو کام آپ کے شعبے کا آپ کو تفویض ہوا آپ نے اسے کیسے نبھایا۔ عبدالعزیزجاوید ہمارے ساتھ مخاطب تھے۔ ان کی آواز میں توانائی تھی‘ بات میں اثر تھا اور لہجے میں سنجیدگی تھی پتہ چلا کہ جولائی2019ء کو وہ پورے 94 سال کے ہوجائیں گے۔ ان کا حافظہ برقرار تھاوگرنہ داغ نے تو کہا تھا: ہوش و ہواس و تاب و تواں سب ہیں جا چکے اب ہم بھی جانے والے ہیں سامان تو گیا مگر حفیظ جالندھری نے تو اس عمر میں ’’ابھی تو میں جواں ہوں‘‘ کا نعرہ لگا دیا تھا۔ رشید احمد انگوی صاحب نے بتایا کہ عبدالعزیر جاوید نے غالباً 1942ء میں لائل پور سے ایگری کلچر میں تعلیم حاصل کی اور زراعت میں کام کیا مگر اپنی شاعرانہ اور ادیبانہ جبلت سے مجبور ہوکر پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے فارسی کیا اور پھررحیم یارخاں میں لیکچرر ہوئے۔ وہ اورینٹل کالج ہاسٹل میں مولانا منور حسن شاد صاحب کے روم میٹ بھی رہے۔ بڑا لطف آیا جب عبدالعزیر جاوید صاحب نے قائد اعظم کے حوالے سے اپنی قیمتی یاد شیئر کی۔ انہوں نے قائد اعظم کے الفاظ بیان کئے کہ ان کے حافظے میں تقریرکے ابتدائی دو تین جملے نقش ہیں جو اردو میں تھے۔ انہوں نے کہا کہ فیصل آباد اچھا شہر ہے۔ یہ پاکستان میں بھی اچھا شہر ہو گا۔ میں اردو سیکھ رہا ہوںمقصد کہنے کا یہ کہ لائل پور میں تقریر کرتے ہوئے قائد کتنے اعتماد سے کہہ رہے تھے کہ لائل پور پاکستان میں بھی اچھا شہر ہو گا۔ عبدالعزیز جاوید نے مولانا روم اور فارسی کے حوالے سے بات کو آگے بڑھایا کہ مولانا روم کو پڑھنا اور پڑھانا چاہیے کہ اس میں یگانگت اور بھائی چارے کی تعلیمات کے علاوہ اخلاقیات پر بہت زور دیا گیا ہے۔ اس حوالے سے انہوں نے فارسی زبان کو بہت سراہا کہ اس میں اخلاقیات اور ادب آداب بہت ہیں۔ یہ میٹھی اور محبت کی زبان ہے۔ اسے واقعتاً ’’زبان شیریں کہا جاتا ہے۔ خیر مجھے تو سرائیکی بھی ایسی ہی میٹھی لگتی ہے۔ انہوںنے شیخ سعدی کا حوالہ دیا کہ گلستان میں موتی بکھرے ہوئے ہیں۔ وہ درست کہہ رہے تھے کہ ہم سے پہلی نسل ہمیں بتاتی ہے کہ تب گھروں میں چھٹی اور ساتویں جماعت میں ہی گلستان پڑھا دی جاتی تھی گویا یہ تربیت کا ایک حصہ تھا۔ اس زبان میں ہمارے ادب اور شاعری کا ایک بہت بڑا ذخیرہ ہے۔ مغلوں کے دور میں یہ سرکاری زبان تھی۔ شاعروں کے تذکرے اسی زبان میں تھے حتیٰ کہ پنجابی کی مشہور کتابوں ہیر اور سیف الملوک وغیرہ کے ابواب کے عنوانات فارسی میں ہیں۔ انگریز نے چال چلی اور اس زبان کو دفن کر دیا۔ پھر کیا ہوا نوبت آجاں رسید کے ’’پڑھو فارسی بیچو تیل‘‘ میں سوچنے لگا کہ جو فارسی کے ساتھ انگریزوں نے کیا وہ ہم اب اردو کے ساتھ کر رہے ہیں آزاد کشمیر میں اردو کو قومی زبان قرار دیا گیا ہے مگر ہم آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اسے دور کرنے کے لئے تیار نہیں۔ غنیمت ہے کہ فاطمہ ضمیر‘عزیز ظفر آزاد اور کچھ دوسرے اردو کو قومی زبان منوانے کے لئے کوشاں ہیں۔ میں تو عبدالعزیز جاوید کی خدمات کے بارے میں جان کر حیران ہوا۔ سب سے اہم کام یہ کہ انہوں نے امام غزالی کی ’’کیمیائے سعادت‘‘ اردو میں ترجمہ کی۔ اصل میں پہلے مولانا اصغر علی رومی نے اسے عربی سے فارسی میں ڈھالا اور عبدالعزیزجاوید نے اسے اردو میں ترجمہ کر دیا۔ میری خوش قسمتی کہ انگوی صاحب نے اس کی ایک کاپی مجھے بھی عنایت کر دی اور اب میرے مطالعہ میں یہ رہے گی۔ ایک اور کام قائد اعظم سووینئر 1936ء ہے۔ یہ قائد اعظم صدی کی تقریبات میں ضلع رحیم یار خاں کی طرف سے ایک زخیم تالیف پیش کی گئی اردو حصے کی تالیف عبدالعزیز جاوید نے کی۔ بہت حیرت ناک بات کہ ان کا خوش نویسی میں بھی زبردست کام ہے۔ تذکرہ خوش نویساں‘ باقاعدہ فارسی میں ایک کتاب انہوں نے لکھی جس میں نادر معلومات ہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں جو نام کے پیچھے نہیںبھاگتے کام کرتے ہوئے رخصت ہو جاتے ہیں۔ ان کا اردو اور فارسی شاعری کا دیوان بھی ہے۔ دیکھیے وہ کب ہمارے ہاتھ لگتاہے۔ وہ علم سے مالا مال نظر آ رہے تھے۔ مگر طبیعت میں سادگی اور انکساری دیکھنے والی ہے۔ انہوں نے ایک بات اور بڑے مزے کی کہی کہ ہم میں ایک برائی اجتماعی ہے کہ ہم میں جو بھی سرکاری ملازمت پر آتا ہے تو وہ کام سے دور ہو جاتا ہے وہاں اپنی صلاحیتیں بروئے کار لا کر شعبے میں نمایاں کام نہیں کرتا۔ان کا کہنا تھا کہ ہم سرکاری ملازمین الٹا حکومت پر بوجھ بنتے ہیں۔ یہی تو وجہ ہے کہ یہ لوگ تنخواہ کو حق سمجھتے ہیں اور کام کرنے کے پیسے الگ وصول کرتے ہیں۔ جس کا نام کبھی رشوت تھا اب اسے فیس یا ورک چارجز کہہ دیا جاتا ہے۔ دوسری بات انہوں نے غیبت کے حوالے سے کی کہ یہ بیماری بہت ہی عام ہے ہم اسے روٹین بنا چکے ہیں۔ حالانکہ یہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانے کے مترادف ہے اس عمل سے برائیاں پیدا ہوتی ہیں۔ نفرتیں جنم لیتی ہیں۔ پیارے قارئین! ان کا کیمیائے سعادت کا ترجمہ پڑھنے کے لائق ہے۔ انہوں نے ترجمہ کرتے وقت تمام رموز پورے کئے۔ ان کے لکھے ہوئے دیباچے سے ہی پتہ چلتا ہے کہ ان کی فارسی اور اردو زبانوں پر دسترس ہے کہ انہوں نے معروف مترجم کی غلطیوں کی بھی نشاندہی کی ہے۔ یہ کام کبھی مولانا طاہر القادری کرتے تھے جوش ملیح آبادی نے یادوں کی بارات لکھی تو ماہر صاحب کو بھجوائی اور لکھا’’قربانی کے لئے بکرا حاضر ہے‘‘ مثال کے طور پر عبدالعزیز جاوید’’اکسیر ہدایت‘‘ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ مصنف نے ’’برزیگری‘‘ کو زرگری سمجھا جبکہ یہ تو زراعت ہے۔ تفصیل دلچسپ ہے۔ بہرحال ہم غلام عباس جلوی کے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے ایک قیمتی شخص سے ہمیں ملوایا۔ ان کے فرزند مجید بھی ان کے ساتھ تھے جو معروف سرجن ہیں۔ آخر میں ایک شعر: کہنے کو اک الف تھا مگر اب کھلا کہ وہ پہلا مکالمہ تھا مرا زندگی کے ساتھ