وہ کچھ سنتا تو میں کہتا مجھے کچھ اور کہنا تھا وہ پل بھر کو جو رک جاتا مجھے کچھ اور کہنا تھا غلط فہمی نے باتوں کو بڑھا ڈالا یونہی ورنہ کہا کچھ تھا ،وہ کچھ سمجھا مجھے کچھ اور کہنا تھا وہی ہوا جس کا مجھے ڈر تھا کہ بعض اوقات طنز اور تشنیع اتنی بلیغ ہوتی ہے کہ سمجھ میں نہیں آتی۔ پھر کیا ہوتا ہے لینے کے دینے پڑ جاتے ہیں۔ خود پر غصہ آتا ہے کہ ابلاغ نہیں کر سکے۔ اب اس کا کیا شکوہ کہ دوسری طرف سے بات قبول ہی نہیں کی گئی۔ کئی دوستوں نے میرے ہفتہ کے کالم ’’بام روشن ہیں ماہتاب کے ساتھ‘‘ کو اسی تناظر میں دیکھا جو بات میں ازرہ مذاق کر رہا تھا اسے سنجیدہ لے کر داد دی گئی۔ بلکہ کچھ اور مشورے بھی دیے گئے خاص طور پر سندھ سے دعا علی نے تو اس مشورے کو قبول کر لیا اور گائوں میں ڈیرے لگانے کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔ یہ بھی ممکن ہے دوستوں نے طنز در طنز کی ہو۔ موجودہ ردعمل سے مگر ماضی کی حسین یادیں تازہ ہو گئیں جو میرے معزز قارئین کے لئے کسی بھی صورت دلچسپی سے خالی نہیں ہونگی۔ ایک مرتبہ جب ایک اخبار میں میرا کالم شہباز شریف کی کتاب ’’عزم و ہمت کی داستان‘‘ پر شائع ہوا تر سرشام مجھے اخبارکے دفتر جانا ہوا۔ سابق آئی جی سردار محمد چودھری مجھے باہر ہی مل گئے دیکھتے ہی مجھے گلے لگا لیا اور کہنے لگے’’اسلام آباد سے آ رہا ہوں آپ نے تو میری بڑی عزت بنائی۔ مجھے مبارکبادیں مل رہی تھیں‘‘ کچھ اسی طرح کی باتیں کرنے کے بعد وہ مجھے اپنی گاڑی کی طرف لے گئے اور اس کی ڈکی کھولی اپنی کتب جس میں ایک ضخیم انگریزی کتابUltimate crimeبھی شامل تھی عنایت کی۔ ان کی محبت پر میں نادم ہوتا رہا مگر یہ بھی سوچتا رہا کہ شاید کہیں وہ مجھے شرمندہ تو نہیں کر رہے کہ میں نے کالم میں ان پر طنز کے تیر چلائے اور وہ اسے عنایات سے کائونٹر کر رے ہیں۔ میں نے تو کالم میں لکھا تھا کہ شہباز شریف کو ’’عزم و ہمت کی داستان‘‘ جیسی کتاب لکھنے کی کیا ضرورت تھی کہ یہ کام تو سردار محمد چودھری’’ٹیڑھی راہوں پر چلنے والا سیدھا مسافر ‘‘لکھ کر کر چکے تھے۔ ظاہرہے اس میں توصیف اور تعریف ہی تو تھی۔ کہنے کا مقصد یہ تھا کہ جو گن اس خاندان کے چودھری صاحب نے گائے تھے وہ کافی تھے سردار محمد چودھری صاحب سے مل کر میں سیدھا سید ارشاد احمد عارف کے پاس گیا کہ وہی اس اخبار کے ڈپٹی ایڈیٹر تھے۔ جا کر شاہ صاحب سے پورا واقعہ بیان کر دیا اور پوچھا کہ کیا میری تحریر سے یہی کچھ مترشح ہے۔ شاہ صاحب اپنے مخصوص انداز میں کہنے لگے’’چھوڑ دو‘‘ آپ نے جو لکھا درست ہے‘‘: جب کہا میں نے کہ رہتا ہے مجھے تیرا خیال وہ بھی بے ساختہ بولا کہ خیال اچھا ہے یعنی بعض اوقات بعض لوگ بھی جان بوجھ کر تجاہل عارفانہ سے کام لیتے ہیں۔ وہ یہی ظاہر کرتے ہیں کہ وہ آپ کی بات نہیں سمجھے۔ یا پھر کچھ اور کچھ ہی توجیہہ کر لیتے ہیں تاکہ آپ کو زچ کر سکیں۔ ایک مرتبہ ایک ایسا ہی معاملہ اپنا یونس بٹ کے ساتھ ہوا۔ ہم نے ادب میں تقریباً اکٹھے ہی سفر شروع کیا۔ بٹ صاحب نے مزاج میں جو ہاتھ آیا اسے استعمال میں لے آئے اور ٹی وی کی عامیانہ سطح پر خوب لکھا اور خوب کمایا۔ ایک صحافی نے مجھ سے انٹرویو کرتے ہوئے پوچھا کہ آپ اتنی شگفتہ گفتگو کرتے ہیں۔ آپ نے کبھی مزاح کیوں نہیں لکھا۔ میں نے کہا’’مزاح لکھنے کا فائدہ تو تب ہے کہ یہ یا تو یوسفی ہو یا پھر یونس ہو‘‘ ایک دن بعد یونس بٹ کا فون آیا کہ وہ میرا دل و جان سے شکر گزار ہے کہ میں نے اسے مشتاق احمد یوسفی کے ساتھ بریکٹ کیا۔ میں نے غصے سے کہا ’’ افسوس میرے جملے پر جو تمہاری سمجھ میں ہی نہیں آیا‘‘ میرا اپنا یہ خیال ہے کہ بٹ صاحب جملہ سمجھ گئے تھے کہ یہ دو انتہائیںہیں۔ یا تو عامیانہ ادب لکھیں کہ اپنی معیشت ٹھیک ہو جائے یا پھر یوسفی صاحب کی طرح تخلیق عالمی ادب میں جگہ پا جائے۔ مجھے اس وقت بہت خوشی ہوئی جب ڈاکٹر خورشید رضوی اور ڈاکٹر خواجہ محمدزکریا کی موجودگی میں انتظار حسین صاحب نے مجھے بلا کر میرے فقرے کی داد دی اور میرے منہ سے یہ فقرہ سنا۔ دعاعلی بھی اپنی جگہ درست ہے کہ جب وہ بات سمجھتی ہے تو کہتی ہے پھر پچھلے زمانے ہی میں کیوں نہ چلیں۔ یہ وہی زمانہ جس کی دھمکی امریکہ نے نائن الیون پر پرویز مشرف کو دی تھی۔ شاید آئی ایم ایف کے سامنے وہی سکرپٹ اور ایجنڈا ہے کہ سب انڈسٹری ٹھپ ہو جائے جو کہ ہو چکی ہے۔ اب تو جنگل بھی آباد نہیں کئے جا سکتے کہ وہ بھی ہم نے یعنی ہمارے مافیاز نے کاٹ لئے۔ ہاں جنگل کا قانون بہرحال ہمارے ہاتھ میں ہے کچھ کو جیلوں میں ڈالا جائے اور کچھ کو جیلوں سے بچایا جائے۔ بے نامی جائیدادوں اور لوٹی ہوئی دولت کو قانونی شکنجے میں لانے والے اقدام کو سب سراہتے ہیں۔ مگر آٹے کے ساتھ گھن زیادہ پس رہا ہے یہ چالیس ہزار کے بانڈ جو بینکوں میں آ رہے تو سب کی آنکھیں کھل رہی ہیں۔ مگرپھر لوگ ایک پراپرٹی ٹائیکون پر بھی نظر یں جمائے ہوئے کہ اس تناور درخت کے نیچے کتنی پنیری کھاد بن گئی ہے۔ بارہ بارہ سال سے لوگوں کو فلیٹ نہیں ملے۔اب آخر میں ذرا سی بات کرکٹ کے حوالے سے کہ سوشل میڈیا پر طرح طرح کی باتیں کی جا رہی ہیں۔ ہمیں کرکٹ کو کھیل کی صورت لینا چاہیے۔ تمام تر حالات جو کہ اچھے خاصے نامساعد رہے ہیںکے باوجود ہماری کرکٹ ٹیم کی پرفارمنس شاندار رہی ہے۔ یہ درست ہے کہ اس میں کپتان کی جگہ ہرگز نہیں اور ملک کو کھلانے کی غلطی کی گئی۔ اصل بات ہے ویسٹ انڈیز کے سامنے ہماری انتہائی بری پرفارمنس، اس دن ہماری تقدیر ہی ہری ہوئی تھی۔ باقی ہر طرم خاں کو ہم نے ہرا کر دکھا دیا کچھ امام کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں کہ اس نے خود غرضی کی گیم کی۔ یہ غلط ہے بابر اعظم اور امام نے ہی فتح کی بنیاد رکھی۔ ایک دفعہ جھڑی لگ جاتی تو ہم ہار جاتے۔ اب چار سو سکور کا خواب تو ایسے ہی ہے جیسے ایک کروڑ نوکریاں اور پچاس لاکھ گھر یا پھر 5ارب درخت۔ خدا کے لئے کچھ سوچئے۔ بابر اعظم نے اچھی بیٹنگ کی۔ میاں داد کا ورلڈ کپ میں زیادہ سکور کا اس نے ریکارڈ توڑ دیا اپنی پرفارمنس میں وہ کوہلی سے بھی آگے جا رہا۔ کسی نے خوب کہا ک اگر اس میں عجز رہا تو یہ دنیا کا بڑا بیٹسمین ثابت ہو گا۔ ہمیں اپنے اس نوجوان سے پیار ہے کیا اعتماد ہے اس میں!اللہ نے ہمیں ہماری اوقات سے زیادہ عزت سے نوازا کاش ہم کرکٹ سے باندھی جانے والی توقعات اپنے لیڈروں اور رہنمائوں سے بھی کریں مجھے تو خوشی ہے کہ مکی آرتھر کو بھی دوسری زندگی ملی۔ میں تو اپنی اس ٹیم سے اچھا مستقبل برآمد کر رہا ہوں۔ ایک شعر کے ساتھ اجازت: وقت رو کے تومیرے ہاتھوں پر اپنے بجھتے چراغ لا رکھنا