جناب صدر پاکستان! جناب وزیر اعظم پاکستان! جناب وزیر داخلہ پاکستان!جناب گورنر پنجاب! جناب وزیر اعلیٰ پنجاب! آپ سے کبھی کچھ مانگا نہیںلیکن اب سب مقتدر شخصیات سے اس تحریر کے ذریعے ایک اجازت درکار ہے۔کسی ناپسندیدہ شخص کو گالیاں دینے اور تھپڑ مارنے کی اجازت۔اگرچہ ابھی میں نے یہ طے نہیں کیا کہ بے شمار ناپسندیدہ افراد میں وہ کون سا شخص ہو جسے سب سے پہلے تھپڑ مارا جائے اوریہ بات بھی فیصلہ طلب ہے کہ تھپڑ مارا جائے یا گھونسہ رسید کیا جائے یا دونوں۔ ہمیشہ سے یہی تشنگی مجھے تنگ کرتی رہی کہ میں اپنے ناپسندیدہ لوگوں کو سرعام زدوکوب کیوں نہیں کرسکتا،ان کی بے عزتی کیوں نہیں کرسکتااور ان کے گھرانوں اور دوستوں کے سامنے انہیں ذلیل کیوں نہیں کرسکتا۔سچ یہ کہ میرا دل اس کے لیے ہمیشہ سے ترستا تھا لیکن مجھے اس کام کے لیے کوئی وزنی اور مؤثر دلیل کبھی نہیں مل سکی تھی۔اللہ بھلا کرے وفاقی وزیر کا جنہوں نے یہ مشکل حل کردی اور ایسی مؤثر اور قابل عمل تجاویز مجھ جیسے لوگوں کے سامنے پیش کردیں جو رہتی دنیا تک مشعلِ راہ ہیں۔اور جنہیں سامنے رکھ کر میں اس طرح کے مزید دلائل ڈھونڈ سکتا ہوں۔ ہم سب کو سوچنا چاہیے کہ آخر بائیس کروڑ میں سے وفاقی وزیر ہوتے ہی کتنے ہیں۔کچھ خصائل تو ایسے ہوتے ہیں جن کی وجہ سے آدمی اتنے بڑے عہدے تک پہنچتا ہے۔یہ تو وزیر موصوف کی وضاحت سے پہلے میرا صرف ذاتی خیال تھا۔لیکن انہوں نے اپنے دفاع میں جو مدلّل اور مسکت دلائل پیش کیے ان سے نہ صرف میرا اس عمل کے اخلاقی جواز پر ایمان پختہ ہوگیا بلکہ انہی کی بدولت میں نے بھی اپنے مخالفوں کو پیٹنے کا پروگرام طے کرلیا ہے۔ آپ بھی یقینا میری طرح ان دلائل سے نہ صرف اس عمل کے جواز کے قائل ہوجائیں گے بلکہ شاید آپ کو بھی عمل کی تحریک مل سکے۔میں جانتا ہوں کہ آپ کے مخالفین بھی آپ کو پریشان کرنے سے باز نہیں آتے ۔یہ ایک اچھا راستہ ہے جو وزیر موصوف نے نکالا ہے اس لیے ممکنہ طور پر ہر شخص اختیار بھی کرسکتا ہے۔ ممکن ہے آپ میں سے کوئی ان دلائل سے پہلے فیضیاب نہ ہوسکا ہو جو وزیر موصوف نے پیش کیے۔اس لیے میں چاہتا ہوں کہ وہ آپ کے سامنے پھر پیش کردوں۔انہوں نے فرمایا کہ اس صحافی اینکر نے مجھ سے فوائد طلب کیے جو نہ دینے پر مجھ پر بے شمار الزامات لگائے گئے اور میرے بارے میں بری باتیں کہی گئیں۔میں پیمرا میں گیا۔میں ایف آئی اے کے دفتر گیا۔میں نے مذکورہ چینل سے شکایت کی۔ کئی اور سرکاری اداروں میں گیا لیکن میری کہیں شنوائی نہیں ہوئی۔کہیں سے داد رسی نہیں ہوئی حالانکہ میں وفاقی وزیر ہوں۔ایسی صورت میں بتائیے میں تھپڑ نہ مارتا تو بھلا اور کیا کرتا۔ میں نے بوجھل دل اور نمناک آنکھوں سے یہ دلائل سنے اور ان کا دکھ بہت شدت سے محسوس کیا۔آپ سب با اختیارلوگ بھی یقینااس غم کو زیادہ محسوس کریں گے کیوں کہ بڑے لوگوں کے دکھ بھی بڑے ہوتے ہیںاور زچ کیے جانے کی تکلیف تو الامان والحفیظ۔آپ بھی لازمامجھ سے اتفاق کریں گے کہ مظلوم کوئی اور نہیں وزیر موصوف ہیں اور گالیاں دینے اور تھپڑ مارنے کے سوا کوئی راستہ تھا ہی نہیں۔تھپڑ مارنے سے ان کے ہاتھ میں جو چوٹ لگی ہوگی، سو الگ۔بہرحال صحافی مذکور کو اس تکلیف کے لیے ان سے معافی مانگنی چاہیے لیکن وہ بھی عجیب آدمی ہیں۔ایف آئی آر کٹوانے نکل گئے۔شکر ہے کہ پولیس نے مظلوم وزیر کا خیال کرتے ہوئے ان کی درخواست پر کان نہیں دھرے،دھرنے بھی نہیں چاہئیں تھے۔مجھے امید تھی کہ اس عمدہ کارکردگی پر وزیر اعظم ایک اور وزارت کا تحفہ وزیر موصوف کو پیش کریں گے لیکن یہ جان کر افسوس ہوا کہ وزیر اعظم نے انہیں شاباش دینے کے بجائے مذکورہ صحافی کو فون کرکے واقعے پر اظہار افسوس کیا۔میری طرح وزیر صاحب کو بھی اس کا دکھ ہوا ہوگا ۔وزیر اعظم کو اخلاقی طور پر مظلوم وزیر کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے تھا۔ صاحبان عالی مقام ! اب آپ میری تکلیف بھی سمجھ سکتے ہیں کہ میرے مسئلے بھی ملتے جلتے ہیں۔میرے علاقے کا بجلی کا ٹرانسفارمر اکثر خراب رہتا ہے۔اور شکایات درج کرانے کے باوجود ٹھیک نہیں ہوتا۔پی ٹی سی ایل، واسا ،واپڈا ،کارپوریشن، ٹاؤن انتظامیہ، غرضیکہ ہر سرکاری محکمے سے ہمیں شکایتیں ہیں اور شنوائی کہیں بھی نہیں ہوتی۔ہمارا ارادہ ہے کہ محلے کے معززین کی ایک میٹنگ میں ہر ادارے کے سربراہ کو بلایا جائے اور ہر معزز شخص مغلّظات کے ساتھ اسے زناٹے دار تھپڑ رسید کرے ۔کئی صحافی اور اینکر پرسن مجھے بھی سخت ناپسند ہیںاور میری شدید خواہش ہے کہ انہیں گھما کر تھپڑ ماروں ۔لیکن میں چونکہ ایک عام آدمی اور شریف شہری ہوں اس لیے مجھے ڈر ہے کہ میرا مخالف کہیں مجھ پر ایف آئی آر نہ کٹوا دے یا میرے خلاف پولیس کارروائی نہ کروا دے۔اگر میں حکومتی وزیر ہوتا تو مجھے اس اجازت کی ضرورت نہ ہوتی، نہ فریق ثانی ایف آئی آر کٹوا سکتا تھا نہ پولیس میرے خلاف کارروائی کرسکتی تھی۔لیکن میرا کمزور پہلو یہی ہے کہ میں ایک عام آدمی اور شریف شہری ہوں جو ساری زندگی قانون کی پاسداری کرتا رہا ہے۔جوابی کارروائی کا بڑا خطرہ ہے اور یہی کمزوری میری راہ کی رکاوٹ ہے ۔ ہم کسی وزیر مشیر کے پاؤں کی خاک بھی نہ سہی لیکن وزیر اعظم عام آدمی کے دکھ درد کا خیال کرتے ہیں، اس لیے مجھے امید ہے کہ آپ مجھ سمیت عام شہریوں کو تھپڑ اور گھونسے رسید کرنے کی اجازت دیں گے۔ہم وزراء کی طرح لا محدود تھپڑوں کے اختیار تو نہیں مانگتے لیکن روزانہ ایک تھپڑ کا کم از کم استحقاق ہمیں بھی ہونا چاہیے۔ہم اگرچہ وزیر نہیں شریف لوگ ہیں، لیکن انسان تو ہم بھی ہیں۔بھڑاس نکالنے کو جی تو ہمارا بھی چاہتا ہے۔ دل تو ہمارا بھی ہے۔یا ہم اسی طرح تشنہ مرجائیں ؟