منگل اور بدھ کی درمیان شب بارہ بجے وزیر اعظم اسلامیہ جمہوریہ پاکستان جناب عمران خان نے ٹیلی ویژن اسکرینوں پر ایک غضبناک شخص کے روپ میں نمودارہوئے۔ ان کی لینگوئج اور باڈی لینگوئج دونوں سے عیاں تھا کہ وہ شدید الجھن اور پریشانی کا شکار ہیں۔ خطاب کی بے ترتیبی بتا رہی تھی کہ جناب وزیر اعظم نے اپنے دماغ میں آنے والی لہر کو سکینڈ تھاٹ دینا مناسب نہیں سمجھا اور فی الفورغصے کے اظہار کو ضروری سمجھا۔ میں ابھی تک یہ سمجھنے سے قاصر ہوںکہ آخر آدھی رات کو ایسی کیا آفت آئی تھی کہ وہی پرانا اپوزیشن کو دھمکیوں والا خطاب دہرایا جائے اور ایک بار پھر انہیں چور ڈاکو اور لٹیرے کہہ کر سینے میں بھڑکتی ہوئی آگ کو کچھ ٹھنڈا کیا جائے۔ تقریر کی ریکارڈنگ اور ایڈیٹنگ دونوں انتہائی غیر معیاری تھیں۔ ہمارے حکمرانوں کی سمجھ میں آخر یہ بات کیوں نہیں آتی کہ ڈرائنگ روم میں بے تکلف دوستوں کے ساتھ کسی ریزرویشن کے بغیر کی جانے والی گپ شپ اور آن ایئر گفتگو میں بہت فرق ہوتا ہے ۔ جناب وزیر اعظم نے جس انداز سے اپنے مڈ نائٹ خطاب میں چوروں اور ڈاکوئوں کو للکارتے ہوئے ایک مزید احتسابی کمشن بنانے کا اعلان کیاہے اس کا بین السطورمیسج یہ تھا کہ وہ نیب سے مطمئن ہیں نہ عدالتوں سے اور نہ دیگر ملکی اور احتسابی اداروں سے مطمئن ہیں۔ یہ بڑا ہی خطرناک میسج ہے۔ اس سے تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جناب خان صاحب اپنے آپ کو Mr Know 911سمجھتے ہیں اور all in allبننا چاہتے ہیں۔ خان صاحب نے فرمایا کہ کمشن بھی وہ خود بنائیں گے اس کے ارکان بھی وہ خود منتخب کریں گے اور وہ خود ہی بنفس نفیس کمشن کے چیئرمین ہوں گے۔ گویا وہ خود ہی مدعی بھی ہوں گے اور خود ہی منصف بھی ہوں گے۔ جناب وزیر اعظم کو معلوم ہونا چاہیے کہ ملک اسلامی ہو یا جمہوری اس کا حکمران محض ایک انتظامی سربراہ ہوتاہے۔ اس سے زیادہ اسے کوئی اختیارحاصل نہیں ہوتا۔ کسی جمہوری ملک میں وزیر اعظم اسی طرح عدالتوں کے سامنے جوابدہ ہوتاہے جیسے کوئی اور عام شہری۔ وزیر اعظم نہ صرف عدالت کے روبرو بلکہ وہ پارلیمنٹ کے سامنے بھی جوابدہ ہوتاہے۔ وزیر اعظم کا شکوہ یہ ہے کہ پارلیمنٹ میں انہیں بات نہیں کرنے دی جاتی۔ وزیر اعظم بات کر کے دیکھیںتو سہی۔ وہ پارلیمنٹ میں خطاب کریں اور پھر قائد حزب اختلاف کا خطاب سنیں اور اپوزیشن کے سوالوں کا جواب دیں۔ باہمی سوال و جواب کا یہ کلچر باہمی مفاہمت کا باب کھولتا ہے۔ وزیر اعظم نے اول روز سے اپوزیشن کو دھمکیاں دینے کے علاوہ اور کیا کیا ہے۔ قومی اسمبلی کے سپیکر جناب اسد قیصر نہایت منکسر المزاج اور دھیمی طبیعت کی متوازن شخصیت ہیں۔ وزیر اعظم صدق دل سے انہیں یہ ٹاسک دے کر تو دیکھیں تو وہ اسمبلی کو افہام و تفہیم کا قابل رشک گہوارہ بنا دیں گے۔ وزیر اعظم اور حکومت کا بھلا اسی میں ہے کہ وہ ذاتی سطح پر ڈرانے دھمکانے اور چوروں ڈاکوئوں کو ٹھکانے لگانے کے بیانیے سے باہر نکلیں۔میں جب اس طرح کے گھن گرج والے صیغہ واحد متکلم کے آمرانہ خطابات سنتا ہوں تو کانپ جاتا ہوں۔ عرب دنیا سے پاکستان کا موازنہ کریں تو آپ کو محسوس ہو گا کہ پاکستان ایک جنت ہے جس میں آزادی اظہار بھی ہے اور آزادی اقتدار بھی۔ لیبیا‘ عراق‘ شام‘ یمن‘ سوڈان‘ صومالیہ تباہی سے دوچار ہو چکے ہیں اور عالمی قوتوں کے ایجنڈے میں جلی حروف میں ’’لکھا‘‘ ہے کہ پہلے ان کی دولت کو لوٹنا ہے ارو پھر ان کا مکمل ’’مکو ٹھپنا‘‘ ہے تاکہ وہ اسرائیل کے سامنے آنکھ نہ اٹھا سکیں اس تباہی کا بنیادی سبب صرف اور صرف ایک ہے کہ ان ملکوں میں جمہوریت نام کی کوئی چیزنہیں۔ آمریت ہی آمریت ہے بلکہ خون آشام بدترین آمریت ہے۔ عرب دنیا میں جہاں مصر و سوڈان جیسے ملکوں میں جمہوریت سر اٹھانے لگتی ہے تو عالمی تھپکی کے زور پرفوجی آمریت جمہوریت کے گل نوخیز کو مسل دیتی ہے۔جناب وزیر اعظم کو معلوم ہونا چاہیے کہ ون مین شو کسی ریاست کی مضبوطی نہیں کمزوری کو ظاہر کرتا ہے۔ ریاست کے چارستون ہیں۔ مقننہ‘ عدلیہ‘ انتظامیہ اور میڈیا۔ یہ ستون اپنے اپنے دائرے میں جتنا مضبوط ہوں گے اتنا ہی ریاست مضبوط ہو گی اوراتنا ہی شہری محفوظ ہوں گے۔ اپنے اپنے وقت میں عراق کے صدام حسین اورلیبا کے کرنل معمر قذافی کتنے جابر و قاہر حکمران سمجھے جاتے تھے مگر وقت آنے پر معلوم ہوا کہ جابر و ظالم تو تھے مگر محبوب نہ تھے لہٰذا کوئی ایک بھی شہری ان کے ساتھ نہ کھڑا تھا۔ اس وقت پاکستان کو دو تین بہت بڑے چیلنج درپیش ہیں۔ سب سے بڑا چیلنج تو معیشت کا چیلنج دوسرا خارجہ تعلقات کا چیلنج ہے اورتیسرا دم توڑتی مگر ابھی تک وارکرتی ہوئی دہشت گردی کا چیلنج ہے۔ ان تینوں موضوعات کوسوفیصد سیاست سے ماورا ہونا چاہیے۔ اگر معیشت کے انتہائی پرخطر معاملات کو سیاست کے ساتھ ملوث نہ کیا جاتا اور بھارت کی طرح ایوان کی قائمہ کمیٹیوں کے بھر پور تعاون کے ساتھ بجٹ بنایا جاتا تو اس وقت یہ خوفناک صورت نہ ہوتی۔ پہلے ہی بے پناہ مہنگائی تھی اوپر سے بجٹ کے آنے کے بعد چینی‘ گھی ‘ تیل‘ گوشت‘ سیمنٹ اور سگریٹ وغیرہ بے حد مہنگے ہو گئے ہیں۔ حکومت نے آئی ایم ایف کی ساری شرائط سرجھکا کر مان لی ہیں مگر ڈومور کے طور پر آج کی خبر کے مطابق امریکہ نے آئی ایم ایف سے کہا ہے کہ وہ دہشت گردی کے معاملے میں بنیادی تبدیلیاں کرائے بغیر پاکستان کو قرضہ نہ دے۔ اگرمعیشت کے بارے میں پہلے دن سے حکومت اور حزب اختلاف یک جان دو قالب ہوتے اور موجودہ سابقہ حکومتوں کی آئی ایم ایف کے ساتھ ڈیلنگ سے فائدہ اٹھاتی تو ہماری یوں رسوائی اورجگ ہنسائی نہ ہوتی۔ دوسرا اہم شعبہ خارجہ تعلقات ہیں جنہیں سیاسی ’’نفع نقصان‘‘ سے سو فیصد ماورا ہونا چاہیے اور دیگر ملکوں خاص طور پر بھارت کے ساتھ معاملات میں پالیسی ہمیشہ یکساں رہنی چاہیے آج عمران خان نریندر مودی ے ساتھ ایک مصافحہ کرنے کے لئے بہت مضطرب و بے تاب ہیں اور نت نیا منت ترلا کر رہے ہیں۔ کبھی ٹویٹ کرتے ہیں۔ کبھی کال کرتے ہیں ‘کبھی خط لکھتے ہیں‘ کبھی یونہی صدقے واری جاتے ہیں مگر وہاں سے ایک ’’ناں‘‘ کے علاوہ کچھ نہیں۔ مگر جب مودی خود چل کر سابق وزیر اعظم نواز شریف کے گھر لاہور آ گئے تو اس وقت پی ٹی آئی نے میاں صاحب کو مودی کے یار کا طعنہ دیا۔ خان صاحب آپ کے مرشد اقبال کا ارشاد ہے کہ ع موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں جناب وزیر اعظم یاد رکھیے۔ ایک مضبوط آدمی غصے میں آپے سے باہر نہیں ہوتا۔ غصہ مضبوطی کی نہیں کمزوری کی نشانی ہے۔