معزز قارئین!۔ اِس وقت وزیراعظم عمران خان کی ’’ پاکستان تحریک انصاف‘‘ اور اُس کی اتحادی جماعتوں کے خلاف ، مختلف اُلخیال ، سیاسی / مذہبی جماعتوں کی متحدہ اپوزیشن بہت ہی سرگرم ہے ۔ بھانت بھانت کی بولیاں ، بولی جا رہی ہیں اور اِس طرح عوام سے ہمدردی کا اظہار کِیا جا رہا ہے ۔ حزبِ اختلاف کی دو بڑی پارٹیوں ’’ پاکستان مسلم لیگ (ن)‘‘اور ’’ پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز‘‘ (پی۔ پی۔پی۔پی) کے قائدین ، سزا یافتہ نااہل وزیراعظم میاں نواز شریف ، کئی مقدمات میں مطلوب پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قومی اسمبلی میں (قائد ِ حزبِ اختلاف ) میاں شہباز شریف اور سابق صدر آصف علی زرداری اور اُن کے فرزند بلاول بھٹو تو، ’’عوام کے دُکھوں میں ‘‘ خُود بھی بہت دُکھی دِکھائی دے رہے ہیں؟ ۔ یہاں تک تو ٹھیک تھا لیکن عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ جناب اسفند یار خان ولی تو، فارسی ضرب اُلمِثل ’’ ولی را ولی می شناسد‘‘ ( یعنی۔ آدمی اپنی قسم کے آدمی کو پہچان لیتا ہے ) سب سے بازی لے گئے ہیں ۔نیشنل عوامی پارٹی کے سربراہ اور دوسرے راہنمائوں نے صوبہ سرحد کے مختلف مقامات پر مہنگائی کے خلاف مظاہروں کے دَوران غریبوں سے بہت ہی ہمدردی کا مظاہرہ کِیا ہے ۔ بہت اچھی بات ہے ؟۔ لیکن جب اسفند یار خان ولی نے اپنے خطاب میں یہ فرمایا کہ ’’ موجودہ نااہل ؔحکومت کی ناقص پالیسیوں کے باعث متوسط طبقہ ختم ہوتا جا رہا ہے ‘‘۔ تو کیا موصوف متوسط طبقہ سے ہمدردی کا اظہار کر رہے ہیں یا غریب طبقہ کو نوید دے رہے ہیں کہ ’’ آپ مطمئن رہیں کہ متوسط طبقہ بھی آپ کی طرح غریب طبقہ بن جائے گا ؟‘‘۔ بہر حال خان صاحب نے یہ نہیں بتایا کہ ’’ موجودہ نااہل ؔ حکومت ‘‘ کی ناقص پالیسیوں سے بالائی طبقہ کو کیا نقصان ہُوا ہے؟‘‘۔ فی الحال خان صاحب نے یہ نہیں بتایا کہ ’’ کیا بالائی طبقہ ( مفروضہ) خونِیں اؔنقلاب کو روکنے کے لئے کچھ نہیں کرے گا؟۔ یونہی ہاتھ پر ہاتھ دَھر کر بیٹھا رہے گا؟‘‘۔ معزز قارئین!۔ جناب اسفند یار خان ولی کی طرف سے ’’خونِیں انقلاب‘‘ کی ’’خوفناک بشارت ‘‘ سے مجھے میاں شہباز شریف یاد آ رہے ہیں جب، وہ ’’خادمِ اعلیٰ پنجاب ‘‘ کی حیثیت سے عام جلسوں میں عوامی شاعر حبیب جالب (مرحوم) کے اشعار گاتے ہُوئے کہا کرتے تھے کہ ’’ اگر اشرافیہ (Aristocracy) نے اپنا روّیہ درست نہ کِیا تو، پاکستان میں ’’خونِیں انقلاب‘‘آئے گا‘‘ لیکن، اُن کی "Warning"کے باوجود اشرافیہ نے تو، اپنا روّیہ تبدیل نہیں کِیا البتہ عوام نے جولائی 2018ء کے عام انتخابات میں اشرافیہ ؔ کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں ’’پاکستان مسلم لیگ (ن) ‘‘ اورزرداری / بلاول بھٹو پارٹی کو اقلیت میں تبدیل کردِیا۔ پاکستان کے پہلے منتخب صدر میجر جنرل (ر) سکندر مرزا نے 7 اکتوبر 1958ء کو آرمی چیف جنرل محمد ایوب خان کو چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر مقرر کر کے ملک میں مارشل لاء نافذ کِیا تو لاڑکانہ کے نوجوان وکیل ذوالفقار علی بھٹو بھی ’’مارشلائی کابینہ‘‘ کے رُکن تھے ۔ جنابِ بھٹو نے فوراً ہی صدر سکندر مرزا کو ایک خط لکھا جس میں کہا گیا تھا کہ ’’ جنابِ صدر ! آپ قائداعظمؒ سے بھی بڑے لیڈر ہیں ‘‘۔ بھٹو صاحب نے میڈیا میں صدر سکندر مرزا کے مارشل لاء کو بھی ۔ انقلابؔ کا نام دِیا تھااور جب 20 دِن بعد جنرل محمد ایوب خان نے صدر سکندر مرزا کو برطرف اور جلا وطن کر کے خُود صدارت سنبھال لی توجنابِ بھٹو اُن کی ’’ مارشلائی کابینہ‘‘ میں بھی شامل تھے اور جب تک رہے موصوف صدر محمد ایوب خان کو "Daddy" کہتے رہے اور اُن کے مارشل لاء کو ۔ انقلابؔ ۔ معزز قارئین!۔ صدر جنرل محمد ایوب خان کے بعد صدر جنرل محمد یحییٰ خان اور اُن کے ہمنوا بھی اُن کے مارشل لاء کو انقلاب ؔ کا ہی نام دیتے رہے۔ جنابِ ذوالفقار علی بھٹو بھی ۔ ’’ قائدِ انقلاب‘‘ صدر جنرل محمد یحییٰ خان کے ناب وزیراعظم اور وزیر خارجہ رہے۔ پاکستان کے دولخت ہونے کے بعد 20 دسمبر 1971ء کو بھٹو صاحب نے سِولین چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر و صدر ِ پاکستان کی حیثیت سے اقتدار سنبھالا تو اُن کے مصاحبین نے بھی اُسے ’’ انقلاب‘‘ قرار دِیا حالانکہ جنابِ بھٹو نے تو چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی کی حیثیت سے ’’ غریبوں کے حق میں انقلاب‘‘ لانے کا وعدہ کِیا تھا ۔ میرا اور مجھ جیسے بہت سے پاکستانیوں کا عقیدہ ہے کہ ’’ غریبوں سے بے وفائی کرنے پر ہی ، جنابِ بھٹو ، اُن کی بیٹی محترمہ بے نظیر بھٹو اور دونوں بیٹے شاہنواز بھٹو اور میر مرتضیٰ بھٹو غیر فطری موت کا شکار ہُوئے۔ صدر جنرل محمد ضیاء اُلحق اور اُن کے بعد صدر جنرل پرویز مشرف کے مارشل لاء کے بعد اُن کے اقتدار کو بھی ’’ انقلاب‘‘ ہی کا نام دِیا گیا۔ ’’قائدِ انقلاب طاہر اُلقادری؟‘‘ معزز قارئین !۔ دسمبر 2012ء کے اواخر میں ’’تحریک منہاج اُلقرآن ‘‘ کے سربراہ علاّمہ طاہر اُلقادری 6 سال کی خود ساختہ جلا وطنی کے بعد وطن واپس آئے تو، اُنہوں نے 23 دسمبر 2012ء کو مینارِ پاکستان لاہور کے زیر سایہ منعقدہ جلسۂ عام میں خُود ہی میزبان اور خُود ہی مہمانِ خصوصی کے طور پر اپنی دھواں دار تقریر میں اعلان کِیا کہ ’’ اگر 10 جنوری 2013ء تک صدر آصف علی زرداری اور وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے اُن کی مرضی کے مطابق ’’انتخابی نظام میں انقلابی تبدیلیاں ‘‘ نہ کیں تو ، مَیں 40 لاکھ افراد کی قیادت کرتے ہُوئے اِسلام آباد پہنچوں گا ،وہاں عوامی پارلیمنٹ کا اجلاس منعقد کر کے فیصلہ کروں گا اور اگر اُس موقع پر خدانخواستہ کوئی ناخوشگوار واقعہ ہوگیا تو اُس کے وہ خود ذمہ دار ہوں گے ‘‘۔ اپنے وعدے کے مطابق علاّمہ طاہر اُلقادری اپنے ’’ لانگ مارچ‘‘ کی قیادت کرتے ہُوئے 12 جنوری 2013 کو اسلام آباد پہنچ گئے تھے تو12 جنوری کو ’’ نوائے وقت ‘‘ میں میرے کالم کا عنوان تھا ’’ مانگتا ہے … شیخ اُلاسلام!‘‘ ۔ اپنے کالم میں مَیں نے عوامی جمہوفریہ چین کے بانی چیئرمین مائوزے تنگ (Mao Zedong)کی طرف سے 1927ء میں ’’ھونان کی کسان تحریک ‘‘ کے بارے میں تحقیقی رپورٹ کے حوالے سے لکھا تھا کہ ’’انقلاب کوئی دعوتِ طْعام، یا مضمون نویسی، یا مصّوری، یا کشِیدہ کاری نہیں۔ یہ اتنا نفِیس، اتنا پْرسکون اور کرِیم اُلنفس، اتنا مْعتدل، رحم دل، مٔدب، محتاط اور عالی ظرف نہیں ہو سکتا۔ انقلاب ایک بغاوت ہے، ایک ایسی تشدد آمیز کاروائی ہے جس کے ذریعے ایک طبقہ، دوسرے طبقے کا تختہ اْلٹتا ہے۔ دیہی انقلاب ایک ایسا انقلاب ہے، جس کے ذریعے کسان طبقہ، جاگیردار زمیندار طبقے کے اقتدار کا تختہ اْلٹتا ہے۔ انتہائی قوت استعمال کئے بغیر کسانوں کے لئے زمینداروں کے اس انتہائی مستحکم اقتدار کا تختہ الٹنا ممکن نہیں جو ہزاروں برس سے قائم ہے‘‘۔ ’’میثاق جمہوریت …دو نمبر‘‘ پھر ’’ علاّمہ طاہر اُلقادری کا انقلاب ’’ٹُھس ‘‘ ہوگیا ۔ 17جنوری 2013ء کو اُنہوں نے وزیراعظم راجا پرویز اشرف سے مُک مُکا کرلِیا۔ مَیں نے اپنے 19 جنوری 2013ء کے کالم میں اُسے ’’ میثاق جمہوریت … دو نمبر‘‘ قرار دِیا۔ علاّمہ طاہر اُلقادری اب کبھی کبھی پاکستان کے دورے پر تشریف لاتے ہیں ، مجھے نہیں معلوم ۔ شاید اُن کے عقیدت مند جانتے ہوں کہ ’’ اُن کا انقلاب کب آئے گا ؟ یا اُنہیں ’’مُک مُکا ‘‘ کرنے کا موقع کب ملے گا ؟‘‘۔ پاکستان میں اگر کبھی کسی دِیدہ وَر (صاحبِ نظر ، ہوش مند ، حقیقت بین) کاظہور ہو توغریبوں کے حق میں انقلاب آبھی سکتا ہے ؟۔ جہاں تک ’’مُک مُکا‘‘کا تعلق ہے وہ توکسی بھی حکمران اور حزبِ اختلاف میں ہوسکتا ہے اور خاص طور پر نااہل وزیراعظم میاں نواز شریف کے ’’فلسفے ‘‘ کے مطابق جب ’’ خلائی مخلوق‘‘ اُس میں دلچسپی لے گی ؟۔بہرحال وضع داری کے تحت مَیں اپنے دوست ’’ شاعرِ سیاست‘‘ کی نظم کے یہ چار شعر آج کے کالم میں ضرور شائع کررہا ہُوں … ہو گیا شرمِندہء تعبِیر خوابِ مُک مُکا! مسندِ زرّیں پہ بیٹھے ہیںجنابِ مُک مُکا! …O… آفتابِ مُک مُکا اور ماہتابِ مُک مُکا! دونوں نے مِل کر اُتارا ہے حِجابِ مُک مُکا! …O… عام کرتے ہیں سبھی کارِ ثوابِ مُک مُکا! دوست کیوں رکھّیں گے پھِردر دِل حِسابِ مُک مُکا! …O… دیکھئے ہونے کو ہے پھِراِنتخابِ مُک مُکا! شورِ محشر ہے یا کوئی اِنقلابِ مُک مُکا!