کراچی کے حلقہ این اے 249کا انتخاب پاکستان کی سیاسی تاریخ میں منفرد واقعہ ہے‘ یہ واحد انتخاب ہے جس میں چار پانچ امیدوار کامیابی کے دعویدار ہیں اور سب کے پاس اپنی کامیابی کے حق میں دلائل و شواہد ہیں‘ غیر حتمی غیر سرکاری نتائج کے مطابق کامیابی کا سہرا پیپلز پارٹی کے اُمیدوار قادر خان مندوخیل کے سر رہا‘ مسلم لیگ(ن) کے امیدوار سابق وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل نے نتائج کو چیلنج کیا تو الیکشن کمشن آف پاکستان نے 4مئی تک حکم امتناعی جاری کر دیا جبکہ پاک سرزمین پارٹی کے سربراہ اور امیدوار مصطفی کمال اور تحریک لبیک کے اُمیدوار علامہ نذیر کمالوی کا دعویٰ ہے کہ ان کی کامیابی کو نتائج روک کر ناکامی میں بدلا گیا‘ پولنگ ڈے پر امن و امان کی صورتحال تسلی بخش رہی‘ کورونا کے خوف‘ گرمی‘ رمضان المبارک اور ضمنی انتخاب میں عوام کی عدم دلچسپی کے باعث ٹرن آئوٹ خاصہ کم رہا ہے اور ووٹوں کے ڈبے غائب کرنے‘ سرعام من پسند امیدوار کے بیلٹ پیپر پر زبردستی مہریں لگانے کے واقعات بھی رپورٹ نہیں ہوئے لیکن ڈسکہ کی طرح یہاں بھی پریذائیڈنگ افسر غائب رہے‘ نتائج کافی دیر تک رکے رہے اور پولنگ کے سرکاری عملے کو بخشیش دینے کی شکایات بھی سامنے آئیں جو حکم امتناع کا باعث بنیں۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے اور مراد علیشاہ تجربہ کار سیاستدان ہیں صرف پی ٹی آئی ہی نہیں چند ہفتے پہلے تک پی ڈی ایم میں پیپلز پارٹی کی حلیف مسلم لیگ (ن) یہ الزام لگا رہی ہے کہ صوبائی حکومت نے ووٹروں اور انتخابی عملے پر ترغیب و دبائو کے حربے آزمائے‘ ایک تھیوری یہ بھی گشت کر رہی ہے کہ کالعدم تحریک لبیک کا امیدوار تینوں بڑی سیاسی جماعتوں مسلم لیگ (ن) تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کے علاوہ ہمارے سسٹم کے لئے خطرہ بن گیا تھا لہٰذا نتائج میں ؎ ہوئی تاخیر‘تو کچھ باعث تاخیر بھی تھا‘ واللہ اعلم بالصواب ۔وفاقی وزیر اور عمران خان کے قریبی ساتھی فیصل واوڈا نے 2018ء میں مسلم لیگ کے سربراہ میاں شہباز شریف کو شکست دے کر یہ نشست جیتی اور ملک گیر شہرت حاصل کی‘ ماضی میں یہاں ایم کیو ایم مسلم لیگ (ن) و پیپلز پارٹی ایک دوسرے سے نبرد آزما رہیں 2008ء اور 2013ء میں یہاں سے ایم کیو ایم کے اقبال قادری نے کامیابی حاصل کی جبکہ 2018ء کے انتخابات میں ایم کیو ایم چوتھے نمبر پر چلی گئی اور تحریک لبیک کو ایم کیو ایم سے کم و بیش دوگنا ووٹ ملے 2018ء اور 2021ء کے انتخاب میں تحریک لبیک کے ووٹوں کا تناسب یکساں رہاجبکہ 2018ء کے عام انتخاب میں پہلی پوزیشن حاصل کرنے والی تحریک انصاف حیرت انگیز طور پر پانچویں نمبر پر چلی گئی جس پر غیر جانبدار مبصرین ہی نہیں تحریک انصاف کے سنجیدہ مزاج اور مخلص کارکن بھی انگشت بدنداں ہیں‘ حیران و ششدر۔ تحریک انصاف کی قیادت سے یہ کریڈٹ کوئی نہیں چھین سکتا کہ وہ اُڑتے تیر کو بغل میں لینے اور کسی نہ کسی بہانے شکست کو دعوت دینے میں اپنی مثال آپ ہے‘ یہ پاکستان کی واحد جماعت ہے جو ہرعام انتخاب کے بعد سب سے زیادہ نشستیں چھوڑ کر ضمنی انتخاب اور مخالفین کی کامیابی کی راہ ہموار کرتی ہے۔2013ء کے انتخاب میں عمران خان نے قومی اسمبلی کی دو نشستوں پر کامیابی حاصل کی اور انتخابی قوانین کے مطابق میانوالی کی نشست چھوڑ دی‘ میانوالی سے وہ 2002ء کا انتخاب جیتے تھے اور یہ آبائی نشست ان کی محفوظ ترین نشست تھی مگر ضمنی انتخاب میں ٹکٹوں کی غلط بخشی اور اپنے چچا زاد بھائیوں سے مخاصمت کے سبب یہ گنوا بیٹھے جو المیہ سے کم نہ تھا‘2018ء کے انتخابات میں انہوں نے ذاتی طور پر تین صوبوں سے چار نشستیں جیتنے کا ریکارڈ قائم کیا مگر ضمنی انتخاب میں لاہور کی نشست پر تحریک انصاف کے اُمیدوار ہمایوں اختر خان کو مسلم لیگ (ن) کے خواجہ سعد رفیق نے شکست سے دوچار کیا‘ عام انتخابات کے بعد تحریک انصاف واحد جماعت تھی جس نے اپنے منتخب سینیٹر چودھری سرور سے استعفیٰ لے کر انہیں گورنر پنجاب‘ منتخب رکن اسمبلی عارف علوی کو صدر پاکستان اور شاہ فرمان کو گورنر خیبر پختونخواہ مقرر کیا اور ضمنی انتخابات کا رسک لیا۔ حالانکہ انہی مناصب پر دیگر بااعتماد ‘غیر منتخب ساتھیوں کو اکاموڈیٹ کر کے کام چلایا جا سکتا تھا‘ حلقہ 249میں ضمنی انتخابات کی راہ ہموار کرنا بھی تحریک انصاف کی ایسی غلطی تھی جس کی سزا باعث ندامت انتخابی ہزیمت کی صورت میں حکمران جماعت نے بھگتی۔ فیصل واوڈا بطور رکن اسمبلی اور وزیر پانی و بجلی اپنے منصبی فرائض سے لطف اندوز ہو رہے تھے‘ دوہری شہرت کے مقدمے میں انہیں اگر سزا کا خوف تھا تو غلط بیانی کی سزا انہیں بھگتنی چاہیے تھی پارٹی کو نہیںمگر چرب زبان واوڈا نے معلوم نہیں اپنے لیڈر کو کیا پٹی پڑھائی کہ عمران خان نے انہیں قومی اسمبلی کی نشست چھوڑنے اور سینیٹر منتخب ہونے کی اجازت دیدی یہ تک نہ سوچا کہ فیصل واوڈا ہی نہیں کراچی سے کئی دوسرے ارکان اسمبلی کی اڑھائی سالہ ’’حسن کارکردگی‘‘ کے طفیل یہ نشست اپوزیشن کی دونوں پارٹیوں مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی کو تھالی میں رکھ کر پیش کی جا رہی ہے اور وہ بھی اس موقع پر جب پی ڈی ایم نے عوام کو یہ باور کرانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رکھا ہے کہ 2018ء میں کراچی کی نشستیں تحریک انصاف نے جیتی تھیں نہ عام انتخابات میں عمران خان کو سیاسی مقبولیت کے بل بوتے پر کامیابی ملی‘ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ ضمنی انتخاب میں ایک نشست ہارنے سے حکومت کی صحت پر کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن حکومت اگر اتحادیوں سے مستعار آٹھ دس نشستوں کی اکثریت سے برقرار ہو تو ایک نشست کی اہمیت و افادیت دو چند ہے اور شکست بھی اس نوعیت کی کہ اُمیدوار رنر اپ تو درکنار تیسری چوتھی پوزیشن بھی حاصل نہ کر پائے‘این اے 249کے ضمنی انتخاب پر مفتاح اسمٰعیل‘ مولانا نذیر کمالوی کی طرف سے واویلا تو قابل فہم ہے کہ یہ مقابلے کی دوڑ میں شامل تھے‘ تحریک انصاف کی طرف سے دھاندلی کا شور باعث تعجب کہ اس کا امیدوار تین میں نہ تیرہ میں۔ ضرورت دھاندلی کا شور مچانے سے زیادہ مقامی‘ صوبائی اور مرکزی قیادت کو اپنے اپنے گریبان میں جھانکنے کی ہے یا پھر شکست کے اسباب پر سنجیدگی سے غور کرنے کی‘ عمران خان نے گلگت بلتستان میں اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے یہ تسلیم کیا کہ ان سے ٹکٹوں اور وزارتوں کی تقسیم میں غلطیاں ہوتی ہیں لیکن غلطی محض تسلیم کرنے سے تلافی مافات نہیں ہوتی‘ انہیں سدھارنے کی ضرورت ہے۔ بار بار ثابت ہو رہا ہے کہ حکومت اور حکمران جماعت میں فیصلہ سازی کا عمل ناقص ہے اور انتخاب جیتنے کی اہلیت و صلاحیت کمزور بلکہ مفقود‘ٹکٹوں کی تقسیم میں زمینی حقائق کو مدنظر رکھا جاتا ہے نہ انتخابی مہم میں باہمی اتحاد و یکجہتی کا دخل عمل۔ ہر حلقے ‘ تحصیل و ضلع میں تحریک انصاف کے مختلف دھڑے باہم دست و گریباں ہیں اور وفاقی و صوبائی کابینہ میں یکسوئی و یک نظری کا فقدان‘ اقتدار کے دو سال باقی ہیں اور مختلف ضمنی انتخابات میں حکمران جماعت کے امیدواروں کی پے درپے شکست سے صرف تحریک انصاف کے ووٹر ہی نہیں کارکن بھی بے چینی و مایوسی کا شکار‘ چار چھ ماہ پہلے تک مایوس و مضمحل اپوزیشن کے تن مردہ میںاچانک جان پڑ رہی ہے اور ان انتخابی نتائج کو عمران خان کی عوامی سطح پر گرتی ہوئی ساکھ‘ اپنی مقبولیت کا پیمانہ قرار دے رہی ہے‘ عمران خان کے حقیقی مداح بھی پریشان نہیں تو حیران ضرور ہیں کہ یہ کیا ہو رہا ہے اور اپنے ممدوح کا دفاع کریں تو کیسے؟