امریکی وزیر خزانہ جینٹ ییلن کا کہنا ہے کہ امریکہ کے پاس نقد رقم کی کمی ہوگی اور اگر کوئی کارروائی نہ ہوئی توڈیفالٹ کا سامنا کرنا پڑے گا، جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ خیال رہے کہ امریکہ دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہے لیکن دنیا کا سب سے بڑا مقروض بھی ہے، امریکہ قریباََ 31.4 ٹریلین ڈالر کا قرض دار ہے، جو اس کی سالانہ آمدنی سے زائدہے اور جنوری 2023 میں یہ حد بھی عبور ہو گئی۔05جون تک امریکہ کو اپنا قرض واپس کرنا ہوں گے ورنہ تاریخ میں پہلی بار اسے ڈیفالٹ کا سامنا ہوگا۔ صدر جو بائیڈن اور ایوان نمائندگان کے ریپبلیکن اسپیکر کیون میکارتھی براہ راست بجٹ کے بارے میں ایک سمجھوتے تک پہنچنے کے لیے کام کر رہے ہیں تاکہ ملک کے قرض لینے کی حد میں ایسا وقت آنے سے قبل اضافہ کیا جا سکے جب حکومت کے پاس کیش ختم ہو جائے اور وہ اپنی ادائیگیاں کرنے کے قابل نہ رہے۔جو بائیڈن اور کیون میکارتھی کے مذاکرات 1 جنوری 2025 تک قرض کی حد کو معطل کرنے کے لیے ایک عارضی ڈیل پر پہنچے، لیکن کچھ سخت گیر ریپبلکنز نے اشارہ دیا ہے کہ وہ اس معاہدے پر دستخط نہیں کریں گے، ریپبلکنز مسلسل اخراجات میں کمی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ امریکہ کے ڈیفالٹ سے صرف اسے ہی نہیں بلکہ اس کے نتائج براہ راست دنیا پر اثر انداز ہوں گے، عالمی تجارت، شرح سود، روزگار، خدمات، اشیائ، سیکیورٹیز اور کرپٹو کرنسیوں پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں، جہاں پہلے ہی عالمی معیشتیں مالیاتی بحران کا شکار ہو رہی ہیں۔ امریکہ درآمدات اور برآمدات کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔ ڈیفالٹ ہونے سے امریکہ کی معیشت سے ہونی والی عالمی خرید و فروخت میں کمی واقع ہوگی، عالمی آمدنی متاثر ہوسکتی ہے۔ دنیا کا سب سے بڑا مقروض ملک ہونے کے باوجود اس وقت ٹریژری بانڈز کی شکل میں دنیا کا سب سے بڑا قرضہ جاری کرنے والا ملک ہے، جس پر سرمایہ کار محفوظ اور مائع اثاثے کی وجہ سے اعتماد کرتے ہیں۔ اگر امریکہ اپنے قرض یا سود کی ادائیگیوں میں ڈیفالٹ کرتا ہے، تو پھر سرمایہ کاروں کا ا اعتماد ختم ہوسکتا ہے، اس طرح وہ اسے یا دوسرے ممالک کو قرض دینے کے لیے زیادہ شرح سود کا مطالبہ کر سکتے ہیں اور دنیا بھر کی حکومتوں اور کاروباری اداروں کے لیے قرض لینے کے اخراجات میں اضافہ ہوجائے گا۔ دنیا کی سب سے بڑی صارف منڈی امریکہ ہے اور دنیا بھر کے ممالک اپنی تجارت و خدمات کا حجم بڑھانے کے لئے امریکہ پر انحصار کرتے ہیں۔ ڈیفالٹ ہونے پر بے تحاشا ملازمتیں ختم ہوں گی۔، اس طرح ممکنہ طور پر امریکہ جن ممالک کو مالیاتی اور تکنیکی خدمات فراہم کرنے والا دنیا کا سب سے بڑے ادارے کا اثر کھو بیٹھے گا اور تمام شعبوں پر اس کے بدترین اثرات نمو دار ہوں گے۔ دنیا بھر کے صارفین اور سپلائرز براہ راست متاثر ہوں گے۔ مثال کے طور پر، اگر امریکی بینکنگ سسٹم کی ناکامی سے کام منجمد ہو ا تو عالمی کاروباری اداروں و سرمایہ کاروں کے لئے قرضوں اور ادائیگیوں کا پورا نظام متاثر ہوسکتا ہے۔ امریکہ اس وقت تیل اور گیس کا دنیا کا سب سے بڑا صارف اور پروڈیوسر اور دیگر اشیاء جیسے دھاتوں اور زرعی مصنوعات کا ایک بڑا صارف ہے۔ امریکی مالیاتی بحران طلب و رسد کے توازن کو متاثر کر سکتا ہے جس سے عالمی سطح پر قیمتیں اور فراہمی متاثر ہوگی۔ امریکہ دنیا کا سب سے بڑا جاری کنندہ اور سیکیورٹیز جیسے اسٹاک، بانڈز اور ڈیریویٹیوز کا حامل ہے اور بٹ کوائن، ایتھریم جیسی کرپٹو کرنسیوں کے لیے عالمی سطح پر بڑی منڈیوں میں سے ایک بڑی منڈی شمار کی جاتی ہے۔ ڈیفالٹ ہونے سے ا ن اثاثوں پر اعتماد کا خاتمہ ہوسکتا ہے، جس سے دنیا بھر میں ان کی قیمتوں میں عدم استحکام ہو گا۔ امریکی ڈیفالٹ کے عالمی معیشت کے لیے تباہ کن نتائج ہیں، جو کہ 2008-2009 کے عالمی مالیاتی بحران کی طرح یا اس سے بھی بدتر ہیں، 2011 میں بھی ڈیموکریٹس اور ریپبلیکنز ملک کے ممکنہ دیوالیہ ہونے سے چند گھنٹوں قبل تک قرض کی حد مقرر کرنے پر ڈیڈ لاک کا شکار امریکی سٹاک مارکیٹ گر گئی تھی لیکن یہ صورتحال قلیل مدتی ثابت ہوئی۔ امریکی معاشی نظام اور اتحاد کے تقسیم نہ ہونے کی کئی وجوہ بھی ہیں۔ امریکہ کا مضبوط ادارہ جاتی فریم ورک معیشت اور جمہوریت کو بھرپور سپورٹ کرتا ہے۔ اسی طرح امریکہ کا ا آزاد مرکزی بینک، فیڈرل ریزرو ہے، جو ڈیفالٹ سے بچانے کے لئے ممکنہ طور پر آخری حربے کے قرض دہندہ کے طور پر کام آسکتاہے اور تناؤ کے وقت مالیاتی نظام کو لیکویڈیٹی فراہم کر سکتا ہے۔ امریکہ کی لچکدار اور متنوع معیشت حالات کے مطابق خود ڈھالنے اور بحران سے نکلنے میں کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔ چونکہ امریکہ دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہے اور جدت طرازی، ٹیکنالوجی، انٹرپرینیورشپ اور تجارت میں رہنما کردار کا حامل ہے اس لئے امریکہ لچکدار لیبر مارکیٹ کا فائدہ بھی اٹھا سکتا ہے جو کارکنوں کو مختلف شعبوں اور خطوں میں منتقل ہونے کی اجازت دیتی ہے۔ امریکہ کے پاس بھی وافر مقدار میں قدرتی وسائل کی دستیابی اور اہم ا عنصر ایک طاقتور جغرافیائی سیاسی پوزیشن ہے جو اس کے اثر و رسوخ اور سلامتی کو جہاں متعدد خطرات کا چیلنج دیتی ہے تو اپنی عسکری طاقت اور اتحادیوں اور شراکت داروں کا نیٹ ورک کا حصہ ہونے کی وجہ سے تنہائی کا شکار ہونا بادی النظر ممکن نظر نہیں آتا۔ چونکہ امریکہ عالمی اداروں اہم کلیدی کردار اور فنڈ فراہم کرتا ہے اس لئے امریکہ کا دنیا میں اپنی سپر پاور کی پوزیشن کو کھونے سے بچنے کے لئے سیاسی ڈیڈ لاک کے خاتمے کے قوی امکان موجود ہیں اور امریکہ کے دیوالیہ ہونے یا قرضوں کے بوجھ تلے گرنے کے بحران سے نکل آنے کے امکانات بھی ہیں۔یہ حقیقت ہے کہ امریکی قرضہ امریکی معاشی نظام اور اتحاد کے لیے ناقابل تسخیر رکاوٹ نہیں، لیکن یہ ایک سنگین مسئلہ ضرور ہے امریکہ اپنے قرضے کو ڈیفالٹ کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا اور نہ ہی اپنے اور دنیا کے لیے اس کے نتائج کو نظر انداز کر سکتا ہے۔