ترکی ایک ایسا ملک ہے جو کبھی غلام نہیں رہا۔ ترک ہمیشہ حکومت کرتے رہے ہیں۔ ایک وقت تھا جب عباسی خلافت اپنے عروج پے تھی۔ اس وقت بھی اصل قوت ترک افواج کے پاس تھی۔بعد میں خوارزم شاہی اور سلجوقی سلاطین نے تاریخ میں بڑا نام کمایا- عثمانی سلطنت ترکوں کے عروج کی داستان ہے جب ترک اقتدار تین بر اعظموں پر پھیلا ہوا تھا۔ ایشیا، یورپ اور افریقہ تک ترکوں کا راج تھا۔ پہلی جنگ عظیم میں وقتی طور پر ترکوں کو شکست ہوئی اور مفتوحہ علاقے انکے ہاتھ سے نکل گئے۔کمال اتا ترک کی قیادت میں ترکوں نے اپنی آزادی قائم رکھی۔ پہلے پہل ترکی میں ترک افواج کا اقتدار میں بہت عمل دخل تھا۔ 1950 میں ترکی میں ڈیمو کریٹک پارٹی نے الیکشن جیتا۔ اس پارٹی نے ان الیکشن میں 408 سیٹیں جیتی تھی اور انکے مدمقابل حکمران خلق پارٹی صرف 69 سیٹیں جیت سکی۔ ڈیمو کریٹک پارٹی کی اس جیت کے سلسلہ میں عدنان میندریس ترکی کے وزیر اعظم بنے اور جلال بیار کو ملک کا صدر چنا گیا۔ 1950 سے 1960 تک عدنان میندریس ترکی کے وزیر اعظم رہے ۔ 1961 میں فوجی بغاوت ہوئی اور ڈیمو کریٹک پارٹی کا اقتدار ختم ہو گیا۔ ڈیمو کریٹک پارٹی کے رہنماوں پر مقدمے چلے۔ عدنان میندریس اور اور وزیر خارجہ زورلو کو پھانسی کی سزا سنا دی گئی۔ ملک کے صدر جلال بایار کو بھی پھانسی کی سزا سنادی گئی جو بعد میں عمر قید میں تبدیل ہو گئی۔ عدنان میندریس اور زورلو کو 17 ستمبر 1961 کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا ۔ ترکی میں جمہوریت 1961 میں پھانسی پر لٹک گئی اور جمال گرسل ملک کے نئے صدر بن گئے۔ عدنان میندریس کے جرائم بہت تھے۔ ترکی میں اذان اور تکبیرعربی میں پڑھنے پر پابندی تھی- عدنان میندریس نے یہ پابندی ختم کی۔ ترکی میں اس دور میں حج پر بھی پابندی تھی۔ عدنان میندریس نے حج پر پابندی ختم کردی اور 1950 میں 25 سال بعد 423 ترکوں نے حج ادا کیا۔عدنان میندریس کے دور میں ترکی میں بہت زیادہ مساجد قائم ہوئی۔ 1961 سے لیکر 2003 ترکی میں فوج کے حمایت یافتہ افراد اقتدار میں رہے۔ 2003 میں رجب طیب ارگان ترکی کے وزیر اعظم بنے۔ 2014 میں ترکی میں پہلی بار صدارتی انتخابات ہوئی اور رجب طیب اردگان ترکی کے صدر منتخب ہو گئے۔ 2017 کے ریفرنڈم میں طیب اردگان اکاون اعشاریہ 1کتالیس فی صد ووٹ حاصل کئے۔ 6 فروری 2023 کر ترکی میں ایک ہولناک زلزلہ آیا اور 60 ہزار افراد لقمہ اجل بن گئے۔ ایک سو ارب ڈالر کا نقصان ہو گیا ۔ اسکے باوجود ترکی میں الیکشن ہوئے۔پہلے مرحلے میں طیب اردگان کو برتری حاصل تھی مگر وہ مطلوبہ 50 فی صد ووٹ نہیں لے سکے تھے۔ 28 مئی کو دوبارہ الیکشن ہوئے جس میں طیب اردگان 50 فی صد سے زائد ووٹ لیکر ملک کے ایک بار پھر صدر بن گئے۔ بھارت کا خطہ بہت کم آزاد رہا ہے ۔یہاں پر باہر سے آکر لوگ حکومت کرتے رہے ہیں۔ پہلے آریا آئے جنہوں نے مقامی باشندوں کو جنوب میں دھکیل دیا اور یہاں اپنی حکومت اور اپنا ذات پات کا نظام نافد کر دیا۔ محمود غزنوی سے لیکر بابر تک یہاں حکمران باہر سے آتے رہے۔ انہوں نے یہاں اپنی حکومت اور اور اپنا نظام رائج کیا۔ 1757 میں انگریزی راج ایسٹ انڈیا کمپنی کی شکل میں آگیا اور 1858 میں یہاں تاج برطانیہ کی حکومت قائم ہو گئی۔ 1857 سے 1947 تک ہندوستان میں آزادی کی مختلف تحریکیں چلتی رہی جن کو مختلف مواقع پر انگریزی حکومت نے پنجابی اور مرہٹہ افواج کے ذرئعے دبا دیا۔ 1947 کو پاکستان اور ہندوستان کے نام سے دو ملک آزاد ہوئے۔ ہندوستان حقیقی معنوں میں آزاد ہو گیا۔ وہاں جاگیر داری کا خاتمہ ہو گیا۔ عوام کی حکومت قائم ہوئی۔ پاکستان کو آزادی صرف لفظوں کی حد تک ملی۔ آج بھی یہاں جاگیر داری نظام قائم ہے۔ وڈیرے اور خان اور سردار کبھی عوامی نمایندوں کے طور پر اور کبھی اپنی ذاتی حیثیت میں حکومت کرتے ہیں۔ اب 14 اپریل کو الیکشن ہونا تھے اب تک مختلف بہانوں سے ان الیکشن کو موخر کیا گیا ہے اس کی وجہ ہے ہماری غلامانہ ذہنیت۔ہم اس خطے کے لوگ اتنے عرصے سے غلامی میں ہیں کہ ہم میں اپنے حقوق کے لڑنے کا حوصلہ نہیں ہے۔جس طرح عہد قدیم میں بادشاہ مندر کے پروہت کے ساتھ ملکر اپنے اقتدار کو دوام بخشتے ہیں۔ آج بھی کہانی وہی ہے۔صرف سیٹنگ تبدیل ہوتی ہے سکرپٹ وہی پرانا ہی ہے۔ ترکی میں جمہوریت 1924 میں قائم ہوئی -پاکستان 1947 کو بنا۔ ترکی میں منتخب وزیر اعظم کو 1961 میں پھانسی دی گئی۔ پاکستان میں 1979 میں ایک منتخب وزیر اعظم کو پھانسی دے دی گئی۔ترک ایک آزاد قوم تھی وہاں ایک پھر 30 سال بعد عوام کی حکومت قائم ہو گئی یہاں آج تک ان دیکھی قوتوں کا راج ہے۔ ترکی آج وہ ملک ہے جو 100 ارب ڈالر کے نقصان کو پورا کرگیا اور ہم 6 ارب ڈالر کی کمی کی وجہ سے ڈیفالٹ کے قریب ہیں۔ ہم نے سری لنکا کا ریکارڈ بغیر ڈیفالٹ کے توڑ دیا ہے اس وقت پاکستان کی کرنسی سری لنکا سے بھی کم قیمت پر ہے۔ اس حکومت نے ایسے ریکارڈ بنائے ہیں جو خود حکومت ہی توڑ سکتی ہے ڈالر 315 تک پہنچ گیا ہے۔ اہل وطن کو مبارک ہو ہم ایک اور ہدف عبور کر گئے ہیں۔ اس وقت پاکستان شوگر کے مرض میں پہلے نمبر پر ہے۔ پاکستان میں شوگر کا لیول 30 فی صد سے اوپر ہے۔ اس وقت ہر تیسرا ،چوتھا پاکستانی شوگر کا مریض ہے۔ مجھے ان اعداد و شمار پر شک ہے۔ شوگر کے مرض کے لئے جس ماحول کی ضرورت ہے اسکے حساب سے 70 فی صد لوگوں کو شوگر اور بلڈ پریشر اور دل کے امراض کے شکار ہونا چاہئے۔ جس ملک میں فوڈ آئیٹم ایک سال میں 100 فی صد سے زائد بڑھ جائیں وہاں انکے مزاج میں تلخی اور خون میں شوگر کی مقدار اوپر نیچے تو ہوگی۔