سلسلے وار کتنی یادیں‘ رواداری اور ایثار کی کتنی مثالیں‘ مسیحائی کے شب و روز کی کتنی داستانیں‘ ڈاکٹر سیمی جمال اپنی مثال آپ تھیں۔ان کی زندگی کی کہانی چند سطروں میں سمیٹی نہیں جا سکتی۔زندگی کی آخری ساعت میں شاید ان کے کان میں کسی نے سرگوشی کی ہو۔آپ کی آخری خواہش‘ تو ان کے لب ہلے ہوں شاید اب بھی میں کسی کے کام آ سکوں‘‘ ہم دوسروں سے امید اور قربانی کے طالب رہتے ہیں لیکن دنیا میں ایسے لوگ بہت ہی کم ہوتے ہیں جو اپنا وقت‘ خدمت اپنی صلاحیت اور مہارت دوسروں پر نچھاور کرتے رہتے ہیں۔بغیر کسی غرض اور طمع کے۔ڈاکٹر صاحبہ ایسی ہی سندر شخصیت تھیں،دوستوں کی دوست ، شفقت محبت ان کی شخصیت کا سب سے خوبصورت روپ تھا وہ ہر کسی کی مدد کرنے پر آمادہ رہتیں۔ ڈاکٹر بننا ان کا خواب تھا نہ پہلی چوائس تھی۔وہ مسیحا نہیں مجاہد بننے کی آرزومند تھیں۔اس لئے وہ زندگی میں ہمیشہ چیلنج خوشی سے قبول کرتی تھیں۔انہوں نے ایک ڈاکٹر کی حیثیت سے اپنے مریض میں امید کی ایسی توانائی پیدا کرنے کی مثالیں قائم کیں جس کی تقلید کرتے ہوئے ان کے جونیئرز بڑے فخر سے ان کا تذکرہ کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔سندھی روایات اور تربیت کے حوالے سے ڈاکٹر صاحبہ انتہائی منکسر المزاج اور ضرورتمندوں کی ہمہ وقت ہر ممکنہ مدد کرنے پر آمادہ رہتیں۔وہ ہمیشہ کہتی تھیں یہ تو مالک کا کرم ہے کہ اس نے میرے کوٹے میں سب سے زیادہ حصہ دوسروں کی خدمت کا ڈالا ہے۔ان کا خیال تھا حالات خواہ کتنے تلخ ‘ مشکل اور کٹھن ہوں اپنے اردگرد کے حالات کو خوشگوار اور پرامید بنانے کے لئے کچھ نہ کچھ کرتے رہنا چاہیے۔ وہ کہتی تھیں کہ انسان کو اپنے قول میں کھرا اور وعدے کا پکا ہونا چاہیے ۔وہ اپنے مریضوں سے عموماً کہتی تھیں کہ اللہ کی ذات سے ناامید ہونا شرک ہے کیونکہ ہر ناامیدی میں سے ایک امید جھانک رہی ہوتی ہے۔ جب بھی میں صحت عامہ کے شعبے میں لوگوں کے مسائل کا تذکرہ کرتا وہ کہا کرتی تھیں کہ خرابی ہمارے سسٹم میں نہیں ہماری نیتوں میں ہے۔ وہ اپنے مریضوں سے عموماً کہتیں کہ موت سب سے بڑی حقیقت ضرور ہے لیکن زندگی اس سے بھی بڑی حقیقت ہے۔ ان کے ایک ایک لفظ سے زندگی جھلکتی تھی میں جب بھی ان سے ملاقات کر کے جناح ہسپتال سے نکلتا تو ان میں انتھک محنت‘ اپنی ذمہ داریوں سے کمٹ منٹ اور ایک ساتھ کئی محاذوں پر کام کرنے کی صلاحیت دیکھ کر سوچتا تھا کہ جب جان قبض کرنے والا فرشتہ انکے پاس آئے گا تو وہ ضرور اس سے پوچھیں گی کہ تم نے یہ نہیں بتایا کہ میری اوپر زیادہ ضرورت ہے یا نیچے۔ اب ڈاکٹر صاحبہ ہم جیسے کتنے دوستوں ‘ احباب‘ عزیز و اقارب اور اپنوں کو افسردہ اور ملول کر کے وہاں چلی گئی ہیں جہاں سے کوئی لوٹ کر نہیں آتا۔ بیماری انہیں پسپا نہیں کر سکتی تھی وہ بڑی حوصلہ مند خاتون تھیں لیکن موت برحق ہے اور ہم سب کو لوٹ کر اسی پروردگار کی طرف جانا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں محبت کرنے والی شخصیت بنایا تھا۔انہیں جاذب طرز تکلم اور بے پناہ علم سے نوازا تھا۔ جب بھی ان سے کسی مریض کی خصوصی نگہداشت یا فوری توجہ کی درخواست کی جاتی ،وہ فوراً کسی ڈیوٹی ڈاکٹر کا نام لے کر کہتیں۔اس سے مل لیں ۔ وہ سماجی کاموں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتیں اہم کانفرنسوں ‘ سیمینارز اور اہم فلاحی اور سماجی تقریبات میں بصد خوشی شرکت کرتیں۔ان کا خیال تھا کہ اپنے معاشرتی،معاشی اور سماجی مسائل پر ضرور مل بیٹھنے کے مواقع تلاش کرنے چاہیئں تاکہ لوگوں کو مسائل کے حل کے سلسلے میں رہنمائی ملے اوران مسائل کے حل کے لئے مثبت تجاویز بھی شیئر کی جا سکیں۔ ایسی محفلوں میں ہمیں متعلقہ شعبوں کے ماہرین اور دانشوروں کی آرا سننے کا موقع ملتا ہے اس لئے ہم ایسے پلیٹ فارمز سے کچھ ان کی سن سکتے ہیں کچھ اپنی سنا سکتے ہیں، اس طرح زندگی کے مسائل ‘ غم اور اداسیوں میں کچھ وقفہ آ سکتا ہے اس کا حاصل یہ ہوتا ہے کہ ہم نہ صرف انفرادی بلکہ اجتمایع طور پر غور و فکر کرنے کے عادی ہو جاتے ہیں۔ ہمیں اپنے فرائض اور حقوق سے آگاہی بھی ہوتی رہتی ہے وہ کہتی تھیں زندگی خود اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک پیغام ہے کہ انسان میں حوصلہ صلاحیت اور کچھ کرنے کا عزم ہو تو وہ اپنی کارکردگی سے معاشرے کا کارآمد فرد بن سکتا ہے وہ اسی اصول پر کارفرما تھیں اورایک شاندار اور غیر معمولی منتظم تھیں۔ جناح ہسپتال کراچی میں بحیثیت ایگزیکٹو ڈائریکٹر ان کی خدمات ہمیشہ سنہری حروف سے لکھی جائیں گی۔ مختلف بیماریوں کے ہر وارڈ میں بہتر سہولتوں کی فراہمی‘ مریضوں کی نگہداشت‘ نئے شعبے قائم کرنے جدید آلات اور شیشوں کی تنصیب‘ تشخیص کے لئے ہر ممکن سہولیات کی فراہمی اس اہم ذمہ داری کے طویل عرصے میں ان کا مشن رہا ۔کبھی کبھی وہ بڑی فلسفیانہ باتیں بھی کرتی تھیں ان کا خیال تھا کہ آپ کے پاس زندگی نام کا ایک ایسا ہتھیار ہے جس کی مدد سے آپ اپنی ساری محرومیوں ساری کمیوں کو کامیابیوں میں بدل سکتے ہیں۔ میری سمجھ میں نہیں آتامیں ایک ڈاکٹرکے طور پر بہت سارے لوگوں سے ملتی ہوں تو ان کا لہجہ اور زبان شکوئوں سے بھری ہوتی ہے میں سوچتی ہوں کہ وہ اپنی محرومی‘ اپنی ناکامی اور اپنی کمی کا حوصلے تدبیر اور محنت سے مقابلہ کرنے کے بجائے جل مرنے ،چھلانگ لگا دینے اور زہر پی لینے کے منصوبے کیوں بناتا ہے۔وہ کہتی تھیں کہ یہ بات میرے تجربے اور مشاہدے میں ہے کہ ہمارے ہاں لوگ ایک دوسرے کی مدد کرنے میں فراخدلہیں لیکن ہم نیک نیتی سے اس سسٹم کو چینلائز کر لیں تو یقین جانیں مسافت کتنی ہی طویل کیوں نہ ہو اس کا آغاز چھ انچ کے پائوں سے ہوتا ہے اگر ہم سچے جذبوں اور ایمانداری سے ایک دوسرے کی مدد کے سفر کا آغاز کر دیں تو ہمارا یہ کٹھن سفر کٹ ہی جائے گا۔منزل کبھی نہ کبھی آ ہی جائے گی وہ کہنے لگی جس قوم کے سینے میں دل نہیں ہوتا اس کی عقل اور ہاتھوں میں معجزے نہیں ہوتے۔ ایک دن میں نے ان سے پوچھا آپ کا آئیڈیل کون ہے ان کا جواب میرے لئے حیران کن تھا۔میجر راجہ عزیز بھٹی شہید ۔میں نے کہا آپ ڈاکٹر ہیں ایک شہید فوجی آپ کا آئیڈیل کیسے؟ اس وقت تو آپ کسی اسکول میں پڑھ رہی ہوں گی۔ ڈاکٹر صاحبہ نے کہا وطن عزیز کے لئے انہوں نے سینے پر گولی کھائی اس دن وہ عزم و حوصلہ نہ دکھاتے تو بھارتی فوج لاہور میں داخل ہو جاتی ہے۔ یہ ہے وہ عظمت جس نے مجھے ان کا گرویدہ بنا دیا۔ ایک ڈاکٹر جس کے سینے میں فوجی آفیسر بننے کا خواب انگڑائی لے رہا تھا۔ وہ ایک قابل فخر مسیحا بن گئی۔ میں نے دیکھا کرنل کی اعزازی وردی پہن کر ان کا یہ خواب بھی پورا ہوا ۔کندھوں پر بیج سجا کر وہ خوشی سے نہال کہنے لگیں۔دیکھیں وردی کیسی سجتی ہے اللہ تعالیٰ انسان دوست ہم سب کی’’ڈاکٹر سیمی‘‘ کی مغفرت فرمائے۔