وزارت خزانہ نے ماہ اپریل کی معاشی آئوٹ لُک رپورٹ جاری کی ہے۔آئوٹ لُک میں پیش کئے گئے اعداد و شمار ملک کی معاشی حالت خراب ہونے کی تصدیق کرتے ہیں۔یہ رپورٹ چونکہ خود حکومت نے جاری کی ہے اس لئے اسے جھوٹے اعداد و شمار قرار دے کر رد نہیں کیا جا سکتا۔ رپورٹ کے مطابق مالی سال 2022-23ء میں جولائی تا اپریل ترسیلات زر میں 13فیصد کمی ریکارڈ ہوئی ہے۔ گزرنے والے مالیاتی سال میں ترسیلات زر کا حجم 22.7ارب ڈالر رہا۔اس سے پہلے سال یہ حجم 26.1 ارب ڈالر تھا۔قریب اختتام رواں برس بیرونی سرمایہ کاری میں 23.2فیصد کمی واقع ہوئی۔ براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری ایک ارب ایک کروڑ رہی۔برآمدات کا حجم 23.2ارب ڈالر رہا۔درآمدات 45.2ارب ڈالر کی رہیں۔گویا برآمدات کی نسبت پچاس فیصد زیادہ۔وزیر خزانہ اسحق ڈار کا کہنا ہے کہ ملک دیوالیہ ہونے کی باتیں کرنے والے اندرونی و بیرونی ناقدین کو ان کی حکومت نے مایوس کیا ہے۔ان کا دعویٰ ہے کہ ملک ڈیفالٹ ہونے سے بچا لیا ہے۔وزیر خزانہ کا مزید یہ کہنا ہے کہ پی ٹی آئی حکومت نے ملک کو معاشی لحاظ سے تباہ کر دیا۔تاجروں کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا کہ وہ وہی کچھ کریں گے جو ملک کے لئے بہتر ہوا۔جناب اسحٰق ڈار کے دعوے اور ان کی وزارت کی کارکردگی میں سردست ایک بڑی خلیج نظر آتی ہے۔ان کے اقدامات سے عام آدمی کی زندگی اجیرن ہوئی ہے‘ ترقی کے کئی مثبت اشاریے منفی ہوئے ہیں۔معلوم نہیں وہ کس طرح کے اقدامات کو ملک کے حق میں بہتر تصور کر کے صورت حال کی سنگینی کا اعتراف کرنے سے گریزاں ہیں۔ پاکستان کے معاشی بحران کا محور زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کو مان لیا جائے تو پی ڈی ایم نے جس وقت اقتدار سنبھالا تھا تب زرمبادلہ کے ذخائر 17ارب ڈالر تھے۔ترسیلات زر 30ارب ڈالر سالانہ سے بڑھ چکی تھیں۔صرف ٹیکسٹائل کی صنعت کی برآمدات پچھلے 30برس میں ریکارڈ سطح پر آ گئی تھیں۔درآمدات اور برآمدات کے درمیان 50فیصد کے لگ بھگ فرق تھا لیکن یہ اس طرح تھا کہ لوگوں کی آمدن بڑھ رہی تھی‘ روزگار مل رہا تھا۔کچھ مہنگائی تھی لیکن ایسا نہیں جو اب لوگوں کی سانس بند کر رہی ہے۔ پی ڈی ایم نے اس موقع پر دعویٰ کیا کہ اس کے پاس ایسے تجربہ کار ماہرین ہیں جو مہنگائی قابو کر سکتے ہیں۔ وعدہ کیا گیا کہ ڈالر اور پٹرول کے نرخ کم کئے جائیں گے۔ان دعوئوں کو پورا کرنے کا طریقہ دریافت کیا جاتا تو جواب ملتا ’’یہ ہم حکومت میں آنے کے بعد بتائیں گے‘‘۔پاکستان آئی ایم ایف کے بیل آئوٹ پیکیج سے فائدہ اٹھا رہاہے۔پی ٹی آئی حکومت میں آئی تو اس نے آئی ایم ایف سے قرض نہ لینے کا اعلان کیا۔تھوڑے دنوں میں جب مسلم لیگ نواز کی حکومت کے بین الاقوامی قرضوں اور غیر پیداواری منصوبوں کے اخراجات کا بوجھ پڑا تو مجبوری میں آئی ایم ایف سے رجوع کرنا پڑا۔ آئی ایم ایف نے کڑی شرائط پر 6ارب ڈالر کا بیل آئوٹ پیکیج منظور کیا۔ اس پیکیج کی منظوری کے ساتھ پی ٹی آئی حکومت سے کئی طرح کی سبسڈیز ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ اس کے جواب میں آئی ایم ایف حکام کو یقین دلایا گیا کہ پاکستان ٹیکس محاصل کا حجم بڑھائے گا۔ پی ٹی آئی حکومت نے ساڑھے تین سال کے دوران 3500ارب سے بڑھا کر ٹیکس محاصل 6500ارب روپے تک پہنچا دیے۔ یہی نہیں سمندر پار پاکستانیوں کو روشن ڈیجیٹل اکائونٹ کے ذریعے رقوم کی ترسیل کی ترغیب دی۔تارکین وطن کو ووٹ کا حق دیا‘ اوورسیز پاکستانیز فائونڈیشن کو اس لائق بنایا کہ وہ تارکین وطن کے مسائل حل کر سکے۔ جو طبقات ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لئے حصہ ڈالتے ہیں انہیں بدلے میں جو احترام اور حقوق دیے جاتے ہیں سابق حکومت نے وہ سب دیے۔ پی ٹی آئی حکومت کو کورونا کی شکل میں ایک ایسی وبا کا سامنا کرنا پڑا جو پہلے سے کمزور معیشت کو مزید کمزور کرنے کا باعث بنی۔حیرت انگیز طور پر پاکستان نے باقی دنیا کے بر عکس جلد ہی لاک ڈائون پالیسی ختم کر دی۔سمارٹ لاک ڈائون اور محدود لاک ڈائون سے کام لیا گیا۔یوں دیہاڑی دار اور نچلے طبقات کا روزگار متاثر نہ ہوا۔ پی ٹی آئی حکومت نے ہر شہری کو مفت علاج کے لئے صحت کارڈ کی سہولت دی۔یہ اقدامات ایک طرف شہریوں کا ریاست و حکومت پر اعتماد بڑھا رہے تھے اور دوسری طرف ملک میں ایسا معاشی امن اور استحکام پیدا کرنے کا باعث تھے جہاں مقامی و غیر ملکی سرمایہ کاری بڑھنے لگی۔ پی ڈی ایم اقتدار میں آئی تو اسے معاشی حالت خراب ہونے کی خبر تھی۔ پچھلے ایک سال کے دوران پی ڈی ایم کے فیصلوں ،اقدامات اور اجلاسوں کا جائزہ لیں تو یہ مایوس کن صورت نظر آتی ہے کہ حکمران اتحاد سمندر پار پاکستانیوں سے ووٹ کا حق واپس لے چکا ہے۔تارکین وطن کی شکایات پر توجہ نہیں دی جا رہی۔بدلے میں تارکین وطن نے ترسیلات میں کمی کر دی ہے۔کئی تارکین وطن پاکستان سے اپنی سرمایہ کاری واپس لے کر جا رہے یں۔ملکی معیشت سیاسی بحران کی وجہ سے خراب ہو رہی ہے‘ آئی ایم ایف اپنی شرائط میں کہہ رہا ہے کہ ملک میں استحکام کے لئے آئین کی پابندی کی جائے کیونکہ اسے ڈر ہے کہ حالات یہی رہے اور حکومت سیاسی امن کی طرف نہ آئی تو عالمی ادارے کا سرمایہ ڈوب سکتا ہے۔ان حالات میںحکومت کو ہر چیز سیاسی مفادات کے بجائے ریاستی مفاد پیش نظر رکھ کر دیکھنے کی ضرورت ہے۔یاد رہے کہ معیشت میں بہتری کا راستہ شفاف انتخابات سے کھلتا ہے۔