یہ لیجئے، ہمارے شہر کے سابق امیر جماعت اسلامی سید منور حسن کی بھی شنوائی آگئی ۔ ۔ ۔ ادھر مہینے دو سے اُن کی علالت کی خبریں مل رہی تھیں۔ سید صاحب کے نائب اور قریبی ساتھی اسامہ بن رضی سے اکثر رابطہ بھی ہوتا کہ اُن سے ملاجائے ۔ میراخیال تھا کہ تحریک ِ آزادی ٔ کشمیر اور افغان جہاد کے حوالے سے اُن سے تفصیلی مکالمہ ہو۔مگر اس شہرِ ناپرساں میں کورونا تو خیر اب آیا ہے،اسکرین سے لگے پیٹ کے سبب قریبی ،عزیزوں سے بھی برسوں ملاقات کی نوبت نہیں آتی۔ حسب ِ روایت پہلے پہر میں اسکرین کھولی تو ۔ ۔ ۔ سید منور حسن کی تواتر سے تصویریں آتی دیکھیں۔سید صاحب ایک طویل عرصے سے خبروں سے دور تھے۔اس لئے بے ساختہ زبان پر اِنّا للہ وَاِنَّ الیہ راجعون آیا کہ ہمارا میڈیا کا معاملہ ’’آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل‘‘والا ہے۔کوئی دن نہیں جاتا کہ دن میں کوئی درجن بار تو سندھ کے وزیر،مشیر گرجتے ،برستے نظر آتے ہیں۔جب کہ اُن سے پہلے کے سابقہ وزراء کرام کو دیکھنے کو آنکھیں ترستیاں ہیں۔ میں بائیں بازو کا آدمی سمجھا جاتا ہوں۔حالاں کہ معذرت کے ساتھ اب Genuineنہ دایاں بازو رہا اور نہ بایاں بازو۔ممکن ہے اس بیانیہ پر کہا جائے کہ آ پ ایسا فتویٰ دینے کا حق نہیں رکھتے ،مگر سیاست اور صحافت کے ایک طالب علم کی حیثیت سے میری ناچیز رائے میں ہمارے سید منور حسن ،بانیٔ جماعت اسلامی حضرت مولانا ابولاعلیٰ مودودی کی روایت کے آخری شریف ،نظریاتی آدمی تھے۔میرا قطعی یہ مقصد نہیں کہ جماعت اسلامی کے دیگر رہنماؤں کی شریف النفسی اور اصول پسندی پر حرف گیری کروں۔موجودہ امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق سے توخیر دہائی اوپر سے ذاتی طور پر بھی بڑی قربت ہے۔ کچھ برس پہلے تک محترم سراج الحق صاحب سے جب اسکرینوں پر مکالمہ ہوتا تو اُن کا اصرار ہوتا کہ ’’مولانا‘‘ سراج الحق کہہ کر مخاطب نہ کیا جائے کہ پنجا ب یونیورسٹی سے ماسٹر ز کیا ہے۔کسی مدرسے اور دینی جامعہ کے فارغ التحصیل نہیں۔جہاں تک مرحوم محترم منور حسن کا تعلق ہے تو ابتداء میں یعنی اسکرین پر آنے سے پہلے بھی غصیلے نظر آتے۔گفتگو میں بھی بڑا سخت موقف رکھتے ۔ پروفیسر غفور صاحب سے ایک خاص نیازمندی کا رشتہ تھا۔ہمیشہ مسکراتے ،کھلکھلاتے ۔ ۔ ۔ پھر ہمارے بریلی کے بھی تھے۔جب اسکرین پر آواز لگانی شروع کی تو پروگرام کے لئے جب جماعت اسلامی کے کسی سینئر رہنما کو دعوت دینی ہوتی تھی تو پہلی ترجیح محترم پروفیسر غفور احمد ہوتے۔ اکثر کہتے ’’بھئی آج مصروف ہوں، ہاں منور حسن کو بلا لو‘‘ ۔ ۔ ۔ ’’ذرا غصے کے ہیں، مگر کراچی میں تو بھئی منور حسن ہی ہمارے جماعت کے بڑے رہنما ہیں‘‘ ۔ ۔ ۔ نجی ٹیلی وژن کے یہ آغاز کے دن تھے۔ ہم قلم کی گھسائی کے آدمی تھے۔ اسکرین پر آئے تو معتبری بھی ملی اور ذرا زعم بھی آگیا۔افغان جنگ زور پر تھی۔ LIVEپروگرام تھا۔ہم نے پہلے سوال پر دوسرا سوال کیا تو منور حسن کھڑے ہوگئے، مائک نکالتے ہوئے کہا:’’اب آپ ہی بات کریں ، کیوں کہ آپ کے چینل کی پالیسی ہی ایسی ہے کہ مجھے نہ سُنا جائے۔‘‘ ساتھ میں غالباً ڈاکٹر خالدہ غوث بیٹھی تھیں۔وہ تو اس صورت حال سے ہکا بکا رہ گئیں۔میںنے اپنا مائک نکالا اور کہا:’’یہ لیجئے،اب کوئی سوال نہیں،سارا وقت آپ کے لئے ‘‘۔ ۔ ۔ منور حسن صاحب نہ صرف بیٹھ گئے بلکہ پروگرام کے بعد گلے لگا کر رخصت ہوئے۔ اُس کے بعد جس چینل پر بھی رہا ،منور حسن خود اسٹوڈیو آجاتے یا میں ریکارڈنگ کے لئے کیمرہ لے کر پہنچ جاتا۔اُس LIVE’’جھڑپ‘‘ کا ذکر کرتے ہوئے یاددلاتے کہ :’’دیکھو پھر ایسا سوال کرو گے تو میں مائک نکال دوں گا‘‘۔ منور حسن صاحب کراچی کے امیر ہوئے ۔بعد میں اگر یادداشت ساتھ دے رہی ہے تو سکریٹری جنرل اور پھر 2008ء سے 2013ء تک امیر جماعت اسلامی پاکستان ہوئے۔2013ء میں نئے امیر کا چناؤ ہوا تو میں لاہور میں جماعت اسلامی کے مرکز منصورہ میں تھا۔جماعت اسلامی کا اپنے ا میر چننے کا اپنا ایک طریقۂ کار ہے۔ عام طور پر محترم منور حسن سے پہلے جماعت اسلامی کا امیر کم از کم دو بلکہ تین ٹرم مکمل کرتا تھا۔محترم میاں طفیل احمد اور محترم قاضی حسین بھی دو مرتبہ جماعت اسلامی کے امیر ہوئے۔اس لئے توقع یہی کی جارہی تھی کہ محترم منور حسن دوسری بار بھی امیر ہوں گے۔جماعت اسلامی کی تنظیم اور اُس کی ہیئت ملک کی دیگر جماعتوں سے مختلف ہے۔سب سے بڑھ کر یہ کہ اس میں وراثتی قیادت نہیں ہوتی۔بھٹوز اور شریف خاندان حتیٰ کہ جمعیت علمائے اسلام اور عوامی نیشنل پارٹی جیسی نظریاتی جماعتوں میں ۔ ۔ ۔ وراثتی سیاست کی بیماری سرایت کر گئی ہے۔ جماعت میں نیچے سے اوپر آکر چند ہزار سارے ملک کے ارکان امیر کا انتخاب کرتے ہیں۔اور یہ متفقہ ہوتا ہے۔ مگر بہر حال محترم منور حسن کے دوبارہ امیر منتخب نہ ہونے پر جو جماعت اسلامی کے اندر اختلاف ِ رائے ہوا۔ ۔ ۔ اُس کی بازگشت ’’منصورہ ‘‘ کی چار دیواری تک محدود نہیں رہی۔ مگر محترم منور حسن نے نہ صرف خوش دلی سے قبول کیا بلکہ نو منتخب امیر سینیٹر سراج الحق کو بھرپور خراج تحسین پیش کیا۔ محترم منور حسن سے میرا آخری انٹرویو چند سال پہلے اُس وقت ہوا جب وہ اپنا متنازعہ بیان دے چکے تھے۔جس میں انہوں نے طالبان کو ’’شہید‘‘ قرار دیا تھااور اُن کو ہلاک کرنے والوں کو ظالم اور جابرکہا تھا۔سو ہماراانٹرویو اُن کے اسی بیان تک محدود رہا۔مگر انٹرویو کے دوران محسوس کررہا تھا کہ ’’محترم منور حسن‘‘ میرے کسی بھی سوال پر اشتعال میں نہیں آئے ۔ جو عام طور پر پروگرام کی ریٹنگ کے لئے ضروری ہوتا ہے۔میرے بار بار طالبان کے حوالے سے سوال پر طرح دے جاتے ۔ ۔ ۔ جو مجھے اُن کے دہائیوں کے روایتی مزاج کے خلاف لگا۔پروگرام کے آخر میں اُن کے چہرے کو غور سے دیکھا تو گہری ہوتی جھریاں ،لب و لہجے کا دھیمہ پن یہ پیغام دے رہا تھا کہ: میں اب تک دن کے ہنگاموں میں گم تھا مگر اب شام ہوتی جارہی ہے