بھارتی افواج کی بلا اشتعال فائرنگ سے کنٹرول لائن کے قریب آباد ایک کشمیری شہری شہید جبکہ 9زخمی ہو گئے ہیں۔ زخمی افراد میں خواتین اور بچے شامل ہیں۔ بھارتی فوج نے حسب روایت ان علاقوں کو نشانہ بنایا جو سویلین آبادی پر مشتمل ہیں۔ دانا‘ ڈھڈیال‘ لیپا‘ جوڑا‘ شاہ درا اور شاہ کوٹ سیکٹرز پر ہونے والی فائرنگ نے کشمیری عوام کے لئے معمول کی سرگرمیوں کو خطرناک بنا دیا ہے۔ آئی ایس پی آر کی جاری کردہ تفصیلات میں بتایا گیاہے کہ پاکستانی فوج کی جوابی کارروائی سے فائرنگ کرنے والی چوکیوں پر تعینات تین بھارتی افسران ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر کے درمیان حد فاصل اقوام متحدہ کے ماہرین نے قائم کی اور پاکستان و بھارت کو پابند کیا کہ وہ اس کی خلاف ورزی نہیں کریں گے۔ گزشتہ کئی برسوں سے بھارت نے کشمیریوں کو جبر کی فضا میں دھکیل رکھا ہے۔ بھارت نے لائن آف کنٹرول کے ساتھ آہنی باڑ لگائی۔ پاکستان نے اس باڑ کی مخالفت کی۔ بھارت کا کہنا تھا کہ پاکستان ایل او سی کے ذریعے مداخلت کار مقبوضہ کشمیر میں بھیجتا ہے۔ حیرت اس بات پر ہے کہ باڑ کی تنصیب کے بعد بھی بھارت وہی الزامات دہرا رہا ہے جو پہلے اس کا وطیرہ تھے۔ گزشتہ ایک برس کے واقعات کا ریکارڈ ملاحظہ کریں تو بھارتی افواج کے ہاتھوں کنٹرول لائن پر عام شہریوں کی ہلاکت کی تعداد ڈھائی سو سے زیادہ ہو جاتی ہے۔ زخمی افراد کی گنتی اس سے سوا ہے۔ پاکستان کشمیر میں تعینات عالمی فوجی مبصرین کو اس طرح کے واقعات کی اطلاع کرتا ہے۔ یہ فوجی مبصرین بھارتی فائرنگ سے جانی و مالی نقصانات سے اقوام متحدہ کے مرکزی دفتر کو آگاہ کرتے ہیں۔ پاکستان ایسے واقعات پر آواز بلند کرتا ہے تاکہ عالمی برادری مظلوم کشمیریوں کی مدد کرے۔ حالیہ فائرنگ کے واقعات پر آزاد کشمیر میں بھارت کے خلاف بھر پور احتجاج اس بات کی علامت ہے کہ کشمیر کے باشندے بھارت کے جبر سے خوفزدہ نہیں اور آزادی کے لئے ان کے دل میں جو آگ عشروں پہلے سلگی وہ آج بھی تروتازہ اور شدید ہے۔ کشمیر بین الاقوامی سطح پر ایک تسلیم شدہ تنازع ہے۔ بھارت اسے تنازع تسلیم نہیں کرتا۔ پاکستان نے جب کبھی کشمیر کی آزادی کے حق میں آواز بلند کی بھارت نے اسے دہشت گردی کی حمایت قرار دے کر عالمی برادری کی نظر میں بے وقعت کرنے کی کوشش کی۔ بھارت ایک بڑی مارکیٹ ہے ۔ بی جے پی کی سابقہ اور موجودہ حکومت نے اس بڑی مارکیٹ کا لالچ دے کر امریکہ‘ یورپی یونین‘ فرانس اور دوسرے ممالک سے کشمیر کے معاملے پراپنے حق میں بیانات جاری کروائے۔ یہ درست ہے کہ بھارت کی کوششوں کے باعث بعض کشمیری حریت پسند تنظیموں اور شخصیات پر پابندیاں عائد ہوئیں اور کچھ کو دہشت گرد قرار دیا گیا مگر وزیر اعظم عمران خان اور امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان ہونے والی حالیہ ملاقات میں صدر ٹرمپ نے جس انداز میں کشمیر پر ثالثی کی پیش کش کی اس سے یہ واضح ہو گیا کہ دنیا کشمیر کو متنازع علاقہ سمجھتی ہے اور اسے صرف بھارت اور پاکستان کا باہمی جھگڑا نہیں تصور کرتی ہے۔ صدر ٹرمپ نے کشمیر پر ثالثی کی پیش کش کرتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے انہیں اس ثالثی کے لئے کہا۔ کسی بھارتی وزیر اعظم کی جانب سے تیسرے فریق کو ثالثی کے لئے دعوت دینا پنڈت نہرو کے بعد پہلا واقعہ ہے۔ درمیان میں آنے والے تمام وزرا اعظم نے اسے دو طرفہ مذاکرات سے حل کرنے والا معاملہ قرار دیا۔ اس ضمن میں شملہ معاہدہ اور اعلان لاہور کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ بھارت میں صدر ٹرمپ کے انکشاف کے بعد اپوزیشن نے پارلیمنٹ کے اندر اور باہر مودی حکومت پر شدید تنقید شروع کر دی۔ وزیر اعظم مودی ابھی تک اس معاملے میں خاموش ہیں۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ بھارت میں جب کبھی بی جے پی حکومت مشکلات کا شکار ہوتی ہے وہ پاکستان کے ساتھ محاذ آرائی شروع کر دیتی ہے۔ اس سلسلے میں حالیہ عام انتخابات سے پہلے کا ماحول دیکھا جا سکتا ہے۔ نریندر مودی کو رافیل طیاروں کی خریداری میں کرپشن کے سنگین الزامات کا سامنا تھا۔ ان پر اقلیتوں پر مظالم کا داغ تھا اور معیشت کو تباہ کرنے کے الزامات لگائے جا رہے تھے۔ ایسے وقت انتخابی حکمت عملی کے طور پر بی جے پی حکومت نے مقبوضہ کشمیر میں خودکش دھماکے میں ہلاک ہونے والے 40سکیورٹی اہلکاروں کا بدلہ لینے کے لئے بلا سوچے سمجھے پہلے لائن آف کنٹرول پار کی اور پھر اس کے طیارے پاکستان کی حدود میں داخل ہو گئے۔ پاکستان نے اگلے ہی روز بھارت کو اس جارحیت کا جواب اس کے دو طیارے گرا کر دیدیا۔ نریندر مودی اس وقت سے پاکستان سے بدلہ لینے کی آگ میں جل رہے ہیں۔ اس آگ کو مزید بھڑکانے کا کام صدر ٹرمپ کے بیان نے کیا ہے۔ بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ بھارتی حکومت داخلی تنقید کا رخ موڑنے کے لئے ایک بار پھر لائن آف کنٹرول پر حالات کشیدہ کر رہی ہے۔ کشمیر اور اہل کشمیر بلا شبہ بدنصیب ہیں۔ جو بہتر برس سے ایک جابر اور قابض ملک سے آزادی کے لئے جان و مال کی قربانیاں دے رہے ہیں۔ بھارت کی بلا اشتعال فائرنگ کچھ عرصہ رکے رہنے کے بعد گزشتہ ہفتے سے ایک بار پھر شروع ہو گئی۔ اس طرح کے واقعات پر پاکستان عمومی طور پر تحمل اور ذمہ داری کا مظاہرہ کرتا آیا ہے تاہم جہاں جواب دینا ضروری ہو وہاں اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ فائرنگ کی زد میں کوئی شہری نہ آئے۔ اب جبکہ دنیا یہ جان چکی ہے کہ کشمیر کا معاملہ دہشت گردی نہیں بلکہ تحریک آزادی سے جڑاہے اور بھارت بین الاقوامی برادری کو گمراہ کرتا رہا ہے تو لائن آف کنٹرول پر فائر بندی معاہدے کی خلاف ورزی پر اقوام متحدہ سے فعال کردار ادا کرنے کی درخواست کی جانی چاہیے۔