م ۔الف

 

کرسٹوفرہولمز کو ہیمو فیلیا اے (haemophilia A)کی بیماری ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اس میں ایک ایسے پروٹین کی کمی ہے جوخون کو لوتھڑوں میں تبدیل کرتا ہے ۔دوسرے الفاظ میں ذرا سی چوٹ لگنے یا زخم پر دوسالہ کرسٹوفر کا بہت زیادہ خون بہہ سکتا ہے جو رکنے میں نہیں آتا۔

 اس صورت حال سے بچنے کے لیے کرسٹوفر کو ہر چند روز بعد ایک ایسی دوا کے ذریعے علاج کی ضرورت ہوتی ہے جو ایک ٹیوب کے ذریعے اس کی نسوں میں اتاری جاتی ہے۔

تاہم اب انگلینڈ کا محکمہ صحت اس بیماری کے مریضوں کے لیے ایک نئے علاج پر تحقیق کے لیے فنڈ نگ کررہا ہے۔

یہ ایک ایسی دوا ہے جو ہرہفتے بعد یا پندرہ دن بعد ایک انجیکشن کے ذریعے اس کی نسوں کے بجائے جلد یا پٹھوںمیں لگائی جاسکتی ہے۔

اس دوا کا نام Emicizumabہے جو Hemlibra کے نام سے مارکیٹ کی جارہی ہے ۔ یہ دوا اس پروٹین کی کمی پوراکرسکتی ہے جو کہ خون کو لوتھڑوںمیں تبدیل کرتا ہے۔اس پروٹین کا نام فیکٹر ایٹ(factor VIII) ہے۔

کرسٹوفر کے ڈاکٹر وں کی سفارش ہے کہ وہ اپنی بیماری کے لیے موجودہ علاج پر ہی قائم رہے لیکن جب وہ کچھ بڑا ہوجائے تو اسے نئے علاج پر منتقل کردیاجائے۔ہیموفیلیا اے کے دیگر مریضوں کی طرح اسے بھی زندگی بھر علاج کی ضرورت رہے گی۔

کائونٹی سرے سے تعلق رکھنے والی اس کی ماں بائیس سالہ کرسٹی کا کہناہے کہ اگر اس کاعلاج نہ کیاجائے تو ہر ہفتے یا ہر روز اس کاخون بہنے کا خدشہ رہے گا ۔

 کرسٹی کا کہنا ہے کہ کرسٹوفر بہت متحرک بچہ ہے اور بعض اوقات تو وہ کھیلتے کودتے ہوئے اپنا سرکسی چیز سے ٹکرادیتا ہے جس سے اس کے دماغ میںخون بہنے کا خدشہ ہر وقت موجودرہتاہے۔پروٹین ایٹ کی کمی کے باعث یہ خون کبھی بھی بہہ سکتا ہے۔

کرسٹی نے مزید کہا کہ کرسٹوفر کو شدید نوعیت کی ہیموفیلیا ہے ۔ اس کے جسم میں فیکٹر ایٹ پروٹین بالکل بھی نہیں ہے اور یہ پروٹین ہمیں اسے مصنوعی طورپر دینا پڑتاہے۔

کرسٹوفر بہت اچھے طریقے سے موجودہ دوا کے ساتھ چل رہا ہے لیکن اس میں مشکل بھی ہوسکتی ہے۔

کرسٹی کے بقول اس کا بیٹا کسی چیز سے ڈرتا یا فکرمند نہیں ہوتا۔وہ اپنے تئیں ایک نارمل بچہ ہے ۔ ہم بھی اسے ایک نارمل بچے کی طرح ہی ٹریٹ کرتے ہیں ۔