جاپان میں "اپنائیت" کے دام وصول کرنے والا

تیزی سے بڑھتاہوا "رینٹ اے فیملی"کا کاروبار

رانا محمد آصف 

تین سال ہوتے ہیں، ٹوکیو میں رہنے والے ساٹھ سالہ ملازم پیشہ کازوشی نشیدا نے بیوی اور بیٹی کی کمی کو دور کرنے کے لیے کرائے پر رشتے دار فراہم کرنے والی ایک ایجینسی سے رابطہ کیا۔  کچھ عرصہ قبل نشیدا کی بیوی کی موت ہوچکی تھی اور کچھ ہی ماہ پہلے اس کی بیٹی کسی بات پر لڑ جھگڑ کر  گھر چھوڑ گئی تھی جس کے بعد وہ کبھی واپس نہیں آئی۔ نشیدا کا خیال تھا کہ وہ یہ صدمہ برداشت کرلے گا لیکن تنہائی نے اسے اندر سے توڑ دیا۔ وہ اپنے روز مرہ کام معمول کے مطابق کرتا رہا، اس کے بہت سے دوست بھی تھے، کام سے فراغت کے بعد جن کے ساتھ وہ گپ شپ لگاتا اور کھاتا پیتا تھا۔ نشیدا کا خیال تھا تنہائی اور یاسیت کی یہ کیفیت وقت کے ساتھ ساتھ ختم ہوجائے گی لیکن اسے اندازہ ہوا کہ زندگی اسی طرح جاری رکھنا اس کے لیے دشوار ہوتا جارہا ہے۔ پھر ایک دن اسے ٹیلی ویژن کے پروگرام سے ایک کمپنی ’فیملی رومانس‘ کے بارے میں علم ہوا۔ یہ کمپنی معاوضہ لے کر متبادل رشتے دار فراہم کرتی ہے۔ نشیدا نے پروگرام میں دیکھا کہ کس طرح ایک بوڑھی عورت کرائے پر منگوائے گئے پوتا پوتیوں کے ساتھ گزرے وقت کے بارے میں خوشی خوشی اپنے تجربات بتارہی ہے، یہ رشتے مصنوعی تھے لیکن نشیدا کو محسوس ہوا کہ اس بڑھیا کے چہرے پر  خوشی حقیقی تھی۔ یہ اشتہار دیکھتے ہی نشیدا کو محسوس ہوا کہ اس کی زندگی میں در آنے والی اکتاہٹ اور بیزاری کا علاج اس کے ہاتھ آگیا ہے۔ اس نے کمپنی سے رابطہ کیا اور اپنی بیوی اور بیٹی کی کمی پوری کرنے کے لیے دو ’ادا کار‘‘ کرائے پر حاصل کرلیے۔ 

اگلے ہی دن وہ ایک قریبی ریستوران میں اپنی کرائے کی اس فیملی کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔ بیوی اور بیٹی کا کردار ادا کرنے والی عورتوں کی عمریں اس کی گزر جانے والی بیوی اور گھر چھوڑ کر چلی جانے والی بیٹی کے آس پاس تھیں۔ اس پہلی ملاقات میں نشیدا نے ان دونوں کو اپنی بیوی اور بیٹی کے بارے میں معلومات فراہم کیں اور بتایا کہ وہ ایک دوسرے کو گھر میں کس نام سے پکارا کرتے تھے، اس کی بیوی شوق سے اس کے لیے کیا پکایا کرتی تھی۔ ایک اسکرپٹ رائٹر کی طرح اس نے انھیں سب کچھ سمجھا دیا۔ اس ملاقات کے بعد یہ دونوں کرائے کے رشتے اس کے گھر پر آئے اور کچھ گھنٹوں کے لیے نشیدا کو اپنی پرانی زندگی کا خوش کُن احساس حاصل ہوا۔ بیٹی کا کردار ادا کرنے والی لڑکی سے مل کر اسے زیادہ خوشی ہوئی کیوں کہ اس کی حقیقی بیٹی نک چڑھی اور گھامڑ تھی، جب کہ کرائے کی بیٹی ذہین بھی تھی اور وہ نشیدا سے اس کے دل چسپی کے موضوعات پر بات بھی کرتی تھی۔ 

بظاہر یہ ایک عجیب و غریب اور احمقانہ سی کہانی معلوم ہوتی ہے۔ فلموں یا ڈراموں وغیرہ میں کسی کو دھوکا دینے کے لیے کرائے پر ایسے رشتے دار حاصل کرنے کے منظر زیادہ تر مزاح پیدا کرنے کے لیے دکھائے جاتے ہیں۔  لیکن نہ صرف یہ حقیقت ہے بلکہ جاپان میں یہ کاروبار تیزی سے فروغ پارہا ہے۔ یہ زندگی کا عجیب ہی رنگ ہے۔ پیسے اور اچھی طرز زندگی کی دوڑ میں لوگ رشتوں کو بھول جاتے ہیں، انھیں فراموش کرکے آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں لیکن عیش و عشرت کے باوجود انسان کو کہیں نہ کہیں رشتوں کی کمی محسوس ہوتی ہے۔ جاپان کے سماج میں یہ صورت حال ایک عجیب و غریب اور پیچیدہ صورت حال اختیار کرتی جارہی ہے۔ بنیادی طور پر مضبوط خاندانی روایات رکھنے والا یہ معاشرہ مغربی طرز زندگی سے متاثر ہوتا گیا۔ شہروں میں زندگی مصروف ترین اور ترقی کی دوڑ میں بقا کا مسئلہ سنگین ترین ہوتا چلا گیا۔ اس نے جاپانیوں میں کئی ایسے رویوں کو جنم دیا جو دنیا کے لیے تعجب خیز  ہیں، لیکن مجموعی طور پر ان کی زندگی اتنی بدل چکی ہے کہ ان کے لیے یہ باتین معمول بنتی جارہی ہیں۔

٭ کاروبار کا آغاز کیسے ہوا ؟ 

ہم تو اسے ایک حقیقت تسلیم کرتے ہیں کہ روپے پیسے سے رشتے اور محبت خریدے نہیں جاسکتے۔ لیکن جب ہر شے ایک پراڈکٹ ہی تصور کی جانے لگے تو محبت اور اپنائیت کے دام ادا کرکے انھیں خریدنے کی راہ بھی نکالی جاسکتی ہے، یہی کچھ جاپان میں ہورہا ہے۔ فیملی رومینس نامی کمپنی کے بانی اشی یوایچی کا یہی دعوی ہے کہ پیار محبت اور خاندانی رشتوں سے محرومی کا ازالہ بھی دولت سے کیا جاسکتا ہے۔ یو ایچی نے چار برس قبل اس کمپنی کا آغاز کیا تھا۔ یوایچی ٹوکیو میں پیدا ہوا، اس کا باپ پھل فروش تھا اور ماں بچوں کو تیراکی سکھایا کرتی تھی۔ یوایچی کو شروع ہی سے اداکاری کا شوق تھا اور اس کے دوست اس کی باتوں سے بہت محظوظ ہوتے تھے۔ کئی دوست فون پر دل چسپ باتیں کرنے، بڑی عمر کے افراد کی آواز میں گپ شب کرنے  اور لطائف وغیرہ سنانے کے لیے باقاعدہ یوایچی کو معاوضہ دیا کرتے تھے۔ بیس برس کی عمر میں یوایچی کو ایک ٹیلنٹ کمپنی کی ملازمت مل گئی جہاں وہ مختلف ہوٹلوںمیں کامیڈی اور فلموں میں ایکسٹرا وغیرہ کا کردار ادا کرنے جیسے کام کرنے  لگا۔ اس کے ساتھ ہی اس نے عمر رسیدہ افراد کی دیکھ بھال کا کام بھی کرناشروع کردیا اور اس طرح وہ اچھے خاصے پیسے کمانے لگا۔ مغربی ممالک میں جس طرح بچوں کی دیکھ بھال کے لیے ’’بے بی سٹر‘‘ کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں، جاپان میں عمر رسیدہ افراد بھی دیکھ بھال کے لیے اجرت پر لوگ رکھ لیتے ہیں۔ ایسے افراد ملازم تصور نہیں ہوتے بلکہ انھیں ’’کیئر گیور‘‘ یا دیکھ بھال کرنے والا کہا جاتا ہے۔ اٹھارہ بیس برس کی عمر کے بعد چوں کہ اس معاشرے میں ہر فرد کو اپنی بوجھ خود اٹھانا پڑتا ہے، اس لیے نوجوان اپنے تعلیمی اخراجات یا گزر بسر کے لیے ایسے کام بشوق کرلیتے ہیں۔ جو تنہا ہے ہوتے ہیں ان کے پاس دولت ہوتی ہے اور ایسے نوجوانوں کے پاس وقت بہت ہوتا ہے۔ یوایچی ایک کام یاب کیئر گیور ثابت ہوا اور اسے خود بھی یہ کام کرنے میں لطف آنے لگا۔ ایک اعتبار سے ، باقاعدہ  کمپنی قائم کرنے سے پہلے ہی وہ کرائے کا پوتا یا نواسا بن کر کمائی کا آغاز کرچکا تھا۔  

یوایچی کی زندگی اسی ڈگر پر چل رہی تھی کہ ایک دن اس کی ایک کلائنٹ نے رابطہ کرکے اسے بتایا کہ وہ ایک بڑی مشکل سے دوچار ہے۔ یہ خاتون اپنی بیٹی کے ساتھ اکیلی رہا کرتی تھی۔ اسے بیٹی کا اسکول میں داخلہ کروانا تھا اور مشکل یہ درپیش تھی کہ اسکول والے ایسے بچوں کو ترجیح دیتے تھے کہ جن کے ماں باپ کی شادی برقرار ہو۔ یوایچی کو اب کرائے پر صرف اسکول میں انٹرویو کے لیے اس بچی کے والد کا کردار  ادا کرنا تھا۔ یہ ایک انوکھا تجربہ تھا۔ وہ تیار ہو کر اپنی کلائنٹ کے ساتھ بچی کے اسکول میں اس کا باپ بن کر گیا، انٹرویو خاص اچھا نہیں ہوا، بچی کو داخلہ بھی نہیں مل سکا لیکن یوایچی کو ایک نیا آئیڈیا مل گیا۔ اس کا خیال تھا کہ ارد گرد کتنے ہی ایسے بکھرے ہوئے خاندان ہوں گے جنھیں رشتوں کی کمی پوری کرنے کے لیے اس کی ضرورت ہوسکتی ہے اور بس اسی خیال نے اسے باقاعدہ ایک کاروبار شروع کرنے پر اکسایا۔ لیکن ایک ذہین کاروباری کی طرح وہ یہ بات بھی جانتا تھا کہ کوئی کاروباری آئیڈیا کسی ذہن میں پہلی مرتبہ نہیں آتا اور کوئی نہ کوئی اس پر پہلے ہی کام کررہا ہوتا ہے۔ یوایچی نے تلاش شروع کی کہ اس سے پہلے بھی کوئی یہ سوچ چکا ہے؟ جواب مثبت تھا۔ انٹرنیٹ پر تلاش کے دوران اسے ہاگیماشی تائی ایجینسی کاپتا ملا جو 2006میں ، اس سے کئی برس قبل اس کام کے لیے اپنی خدمات پیش کررہی تھی۔ 

٭یوایچی پہلا نہیں ! 

ہاگیماشی تائی کا ترجمہ کیا جائے تو مفہوم کچھ اس طرح کا بنتا ہے’’میں آپ کو خوش دیکھنا چاہتا ہوں‘‘۔ 2006میں ایک سابق ملازمت پیشہ شخص روایشی اچنوکاوا نے اس ایجینسی کی بنیاد رکھی تھی۔ ہوا یہ کہ اس کام کے آغاز سے پانچ برس قبل اوسکاشہر کے مضافات میں ایک دل دوز واقعہ ہوا جس میں اچنوکاوا کے بیٹوں کی عمر کے آٹھ بچوں نے ایک دوسرے کی جان لے لی۔ ایسے واقعات جاپان میں شاذ ہی پیش آتے ہیں، اس لیے وہاںان کی روک تھام کے لیے اسکولوں میں باقاعدہ کوئی نظام موجود نہیں اور نہ ہی بچوں میں تشدد کے امکانات کو روکنے کے لیے مشیر یا نگران رکھنے کا عام رواج تھا۔ اس  معاملے کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے اچنوکاوا نے اسکول کونسلر بننے کا ارادہ کیا اور نفسیات کے ایک کورس میں داخلہ لے لیا۔ تربیت مکمل ہونے تک اچنوکاوا نے اسکول کونسلر بننے کے بجائے ایک ویب سائٹ شروع کرنے کا فیصلہ کیا، جہاں پر ای میل کے ذریعے نفسیاتی امور کی مشاورت حاصل کی جاسکتی تھیں اور اسی کام کو اس نے رشتے دار کرائے پر دینے کی ایجینسی میں تبدیل کردیا۔ اس کا سبب وہ یہ بتاتا ہے کہ کئی مرتبہ کسی پیارے کے جدا ہوجانے یا خاندان میں دراڑیں پڑ جانے سے بچوں پر ایسے اثرات مرتب ہوتے ہیں جو انھیں تشدد کی جانب لے جاتے ہیں۔ یوایچی، اچنوکاوا کی اس  ایجنسی  کے ساتھ رجسٹرڈ ہوگیا لیکن مسئلہ یہ تھا کہ  اس کی عمر اس وقت محض 26برس تھی اور اس عمر میں وہ کسی کے باپ یا شوہر کا کردار ادا کرنے کے لیے موزوں نہیں تھا۔ وہ صرف شادی کی تقریبات میں کرائے کا مہمان بن کر  جایا کرتا تھا۔ یہاں ایک اور دل چسپ پہلو بھی ہے کہ شہروں میں درپیش مسائل، نہایت مصروف زندگی اور خاندانوں میں بڑھتی ہوئی دوری کے باعث کئی مرتبہ شادیوں کو پرُرونق بنانے کے لیے جاپان کے شہروں میں کرائے پر براتی منگوائے جاتے ہیں۔ ابتدا میں یوایچی کو دال دلیا چلانے کے لیے ایسی ہی تقریبات پر گزارہ کرنا پڑا۔ یوایچی  اچنوکاوا کی کمپنی کے ساتھ کچھ عرصے تک کام کرتا رہا اور  پھر  2009میں اس نے اپنی کمپنی قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔

 ٭ ’’فیملی رومانس‘‘ 

یوایچی نے کمپنی بنانے کا فیصلہ کرلیا اور اس کے  لیے ایک اچھا سا نام سوچنا شروع کردیا۔ اس نے اپنے آئیڈیا کے مطابق انٹر نیٹ پر سرچ کیا تو  1909میں فرائیڈ کا لکھا گیا ایک مضمون اس کے سامنے  آگیا۔ مضمون کا عنوان تھا ’’دی فیملی رومینس آف نیوروٹکس‘‘۔ یہ مضمون ایسے بچوں کے بارے میں تھا جو اپنے والدین کو حقیقی تسلیم نہیں کرتے اور ان کا خیال ہوتا ہے کہ ان کے والدین کا تعلق کسی کھاتے پیتے خاندان سے ہوگا اور انھیں پالنے والے ان کے سگے نہیں سوتیلے ہیں، اسی لیے کنجوسی کرتے ہوئے ان کی خواہشات پوری نہیں کرتے۔ اسی مضمون کے عنوان سے یوایچی نے اپنی کمپنی کا نام ’’فیملی رومانس‘‘ اخذ کیا۔  اب اس نام کے تحت وہ ایک ٹیلنٹ ایجنسی اور ٹیک کنسلٹنسی بھی چلا رہا ہے۔ یوایچی کے پاس 12سو اداکاروں کا ڈیٹا بیس ہے۔ فیملی رومانس کی ستر فی صد کمائی آج بھی شادیوں میں کرائے کے براتی فراہم کرنے سے ہوتی ہے۔ باقی تیس فیصد ذاتی سطح پر رشتے داروں کا کردار ادا کرنے والے فراہم کرکے حاصل کیا جاتا ہے۔ یوایچی کا کہنا ہے کہ زیادہ آرڈرز ملنے کے بعد اس کے لیے یہ کام مشکل ترین ہوتا گیا ۔ ایک وقت میں دس خاندانوں میں کرائے پر ان کا رکن ہونے کی اداکاری کرتا رہا۔ اس کا کہنا ہے کہ اس طرح کارکردگی بھی متاثر ہونے لگی کیوں کہ خاندان کا فرد ہونے کی صرف اداکاری کرنے ہی سے جو احساس ذمے داری ہوتا ہے، وہ رفتہ رفتہ بوجھ بننے لگتا ہے۔ اپنے انہی تجربات کے پیش نظر یوایچی کی کمپنی میں یہ پالیسی بنائی گئی کہ کوئی اداکار بیک وقت پانچ کرداروں سے زیادہ کام نہیں کرے گا۔  یوایچی کا کہنا ہے کہ اس کام میں سب سے زیادہ مسئلہ اس وقت پیش آتا ہے جب کلائنٹ اداکاروں پر انحصار بڑھانا شروع کردیتے ہیں اور کئی مرتبہ کرائے کے اس رشتے کو حقیقت میں تبدیل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ خاص طور پر کرائے کے خاوند کا کردار ادا کرنے والے تیس سے چالیس فیصد اداکاروں کو ان کی کلائنٹ کی جانب سے شادی کی پیش کش ہوجاتی ہے۔ دوسری جانب خواتین کو ایسی صورت حال کا سامنا کم ہی ہوتا ہے، کیوں کہ عام طور پر بیوی کا کردار ادا کرنے والی خواتین کلائنٹ سے فاصلہ برقرار رکھتی ہیں۔ میاں بیوی کا کردار ادا کرنے والوں کو صرف ہاتھ پکڑنے کی اجازت ہوتی ہے  اور وہ تنہائی میں بھی ملاقات نہیں کرسکتے۔ کمپنی کی پالیسی میں اس بات کا خاص خیال رکھا گیا ہے کہ رشتوں کا کردار کرنے والے یا کلائنٹ اپنی حدود سے تجاوز نہ کریں اور یہ بات ہمیشہ ان کے پیش نظر رہے کہ یہ محض کرائے کا ایک رشتہ ہے، جو وقت اور ادا کی گئی رقم کے مطابق ایک خاص حد ہی میں برقرار رکھا جاسکتا ہے۔ 

٭’’آرڈر پر رشتے تیار کیے جاتے ہیں‘‘

  فیملی رومانس اور ہاگیمانشی تائی کے اداکار شادیوں ، مذہبی تقریبات، نوکری کے میلوں، کامیڈی کے مقابلوں اور موسیقی کی البم کے اجرا وغیرہ جیسی تقریبات میں شرکا بن کر شامل ہوتے ہیں۔ اس طرح کے آرڈرز میں صرف ایک دو دن ہی میں کام ختم ہوجاتا ہے اور ہاتھوں ہاتھ پیسے بھی مل جاتے ہیں، جب کہ رشتوں کا کردار ادا کرنے والوں کو کئی مرتبہ طویل عرصے تک کردار نبھانے پڑتے ہیں۔ کوئی برسوں سے شوہر یا بیوی، پوتے نواسے یا ماں باپ کا کردار نبھا رہا ہے۔ کئی مرتبہ یہ بھی ہوتا ہے کہ ماں باپ کو خدشہ ہوتا ہے کہ ان کی فربہی یا کسی جسمانی نقص کی وجہ سے ان کے بچے کو اسکول میں ستایا جائے گا تو وہ اپنی جگہ اسکول کی تقریبات میں بچے کے ساتھ کرائے کے ماں باپ بھیج دیتے ہیں۔ اسی طرح ایسے نوجوان جو اپنے والدین کی جانب سے بار بار شادی کے مطالبے سے تنگ آچکے ہوں، لیکن شادی کرنے کا ارادہ نہ رکھتے ہوں، وہ بھی ماں باپ کو خاموش کروانے کے لیے کرائے پر اداکاروں کی خدمات حاصل کرلتے ہیں۔ اس میں کئی مرتبہ بڑی مشکل بھی پیش آجاتی ہے، کیوں کہ والدین صرف یہ سن کر تسلیم نہیں کرلیتے کہ شادی ہوچکی ہے۔ وہ اس کے لیے باقاعدہ شادی کی تقریب منعقد کرواتے ہیں۔ یواایچی کے مطابق سال میں ادکاروں کو دو سے تین شادی کی جعلی تقریبات میں شریک ہونا پڑتا ہے۔ ایسی تقریبات کے انعقاد پر تقریبا 50ہزار ڈالر کی لاگت آتی ہے۔ رشتوں کے لیے کئی مرتبہ بہت دلچسپ فرمائیشیں بھی آتی ہیں۔ مثلاً کسی شخص کو اپنی بیوی سے کوئی شکایت ہے، وہ چاہتا ہے کہ اس کی بیوی اس بات پر معافی مانگے لیکن وہ حقیقت میں اس سے یہ مطالبہ کرنے کی جرات نہیں کرپاتا۔ محض اپنی نفسیاتی تسکین کے لیے وہ اداکار کی خدمات حاصل کرتا ہے جو اس کی بیوی کا کردار نبھاتے ہوئے اس سے اپنے ’’رویے‘‘ پر معافی مانگتی ہے اور شوہر کو منانے کی کوشش کرتی ہے۔ رشتوں کے علاوہ کئی مرتبہ ملازمت پیشہ افراد اپنے کسی ماتحت یا افسر پر غصے کے اظہار کے لیے بھی ان ادکاروں کی خدمات حاصل کرلیتے ہیں۔ اس میں بھی کئی مرتبہ دل چسپ صورت حال پیش آتی ہے۔ کلائنٹ کا غصہ اس قدر بڑھ جاتا ہے کہ اسے یاد دلانا پڑتا ہے کہ اداکار اس کا حقیقی ماتحت یا افسر نہیں بلکہ اس نے محض بھڑاس نکالنے کے لیے اسے معاوضہ دے کر ڈانٹ پلانے کے لیے بلا رکھا ہے۔ 

٭ یہ نوبت کیوں آئی ! 

1868میں میجی اصلاحات کے بعد جاپان میں سلطنت کا احیا کیا گیا۔اس سے قبل جاپان میں مرکزی حکومت کے بجائے جاگیر دارانہ نظام قائم تھا۔ ان اصلاحات کے بعد ملک کو ایک باقاعدہ نوکر شاہی اور فوج کے نظام کے تحت لایا گیا۔ انہی اصلاحات کے تحت جاپان میں خاندانی نظام کو لازم کیا گیا۔ کنفیوشس کے اصولوں پر مبنی کنبے کا تصور  رائج کیا گیا۔ اس کے تحت خاندان مراتب پر مشتمل اکائی ہے جس میں خاندان کا ایک سربراہ ہوتا ہے۔ وہ اپنا جانشیں تیار کرتا ہے۔ اس تصور میں کنبے کا تسلسل نسل آگے بڑھانے سے زیادہ اہم ہے اس لیے خاندان کی سربراہی کا فیصلہ اہلیت کی بنیاد پر کیا جاتا ہے، اسی لیے خاندان کا سربراہ لے پالک اور داماد بھی ہوسکتا ہے۔ میجی سلطنت میں جاپان کو بھی ایک خاندان کی صورت میں پیش کیا جاتا تھا اور اسی دور میں ’’خاندانیت‘‘ یا فیملیزم کو معاشرتی سطح پر مرکزیت حاصل ہوئی۔ دوسری جانب مغرب میں خود غرضی اور خود انحصاری پر مبنی ’’فردیت‘‘ کا تصور پروان چڑھ رہا تھا۔ 

دوسری عالمی جنگ کے بعد جاپان میں نیا آئین نافذ کیا گیا جس میں کفیوشس کے تصورات پر مبنی خاندانی نظام کے قانونی تقاضوں کو ختم کردیا گیا اور اس میں مغربی خاندان کے تصور کو شامل کردیا گیا، جس میں روایتی تصور کے برخلاف خاندان کے تمام افراد برابر تھے اورخاندان کے سربراہ کو اہل خانہ کے ذاتی فیصلوں پر اثر انداز ہونے کا کوئی اختیار نہیں تھا جب کہ اس سے پہلے خاندان کا سربراہ زبردستی شادی کروانے کا اختیار بھی رکھتا تھا۔ خاندان کے سربراہ کی یہ حیثیت ختم کردی گئی۔ رفتہ رفتہ جاپان میں معاشی ترقی نے تیز قدموں سے چلنا شروع کردیا۔ کارپوریٹ کلچر متعارف ہوا اور مغربی طرز حیات کے بہت سے عنصر اس سماج کا بھی حصہ بنتے چلے گئے۔ 1980کی دہائی معاشی ترقی کے عروج کا دور تھا اور اسی دور میں خواتین کی ملازمت اختیار کرنے کی شرح میں بے پناہ اضافہ ہوا، جس کے بعد جاپان میں پیدائش کی شرح میں کمی واقع ہوئی اور طلاق میں کئی گنا اضافہ ہوگیا۔ ان رجحانات کے باعث یک فردی خاندان بڑھنا شروع ہوگئے، تنہا زندگی گزرنے والے یہی افراد جب عمر رسیدہ ہوئے تو انھیں اپنی دیکھ بھال کے لیے خاندان کی ضرورت پڑنے لگی۔ یہیں سے کرائے کے خاندان کا کاروبار پروان چڑھنا شروع ہوا۔ ٹوکیو میں کارپوریٹ ایمپلائی ٹریننگ کے شعبے سے وابستہ ساتسوکی اوئیوا نے تنہا زندگی گزارنے والے عمر رسیدہ افراد کو  بیٹے بیٹیاں اور پوتے پوتیاں وغیرہ  کرائے پر فراہم کرنے کا آغاز کیا۔ ائیوا کو اپنی تربیتی پروگرامز میں شامل ہونے والے ملازمین کے تجربات سے اندازہ ہوا کہ ان کی زندگی اس قدر مصروف ہوچکی ہے کہ ان کے پاس اپنے والدین سے بھی ملنے کا وقت نہیں ہوتا۔ اسی بنیاد پر اوئیوا نے اس سروس کا آغاز کیا جسے جاپانی پریس نے بڑے پیمانے پر کوریج دی۔ ایک سال کی مدت میں سو سے زائد خاندانوں نے ائیوا کی خدمات حاصل کیں۔ اوئیوا سے ایک بوڑھے جوڑے نے رابطہ کیا، وہ چاہتے تھے کہ ان کا بیٹا زندگی بہتر بنانے کے لیے اپنے والدین کی جدوجہد اور جھیلی گئی مشکلات کے قصے سنے لیکن بیٹے کے پاس اتنا وقت نہیں تھا۔ انہیں اپنا نومولود پوتا دیکھنے کی بھی حسرت تھی۔ گھر میں چھوٹے بچے کی غوں غوں سنے انھیں مدت بیت چکی تھی لیکن بیٹے کے پاس پوتے کو ان سے ملانے کا بھی وقت نہیں تھا۔ اوئیوا کی سروس سے ان میاں بیوی نے ایک ایسے جوڑے کی فرمائیش کی جو ان کی کہانیاں بھی سنے اور ان کے ساتھ ایک ننھا منا بچہ بھی ہو جس گود میں اٹھا کر وہ اپنے پوتے کے ساتھ کھیلنے کی حسرت بھی پوری کریں۔ ایک ایسے جوڑے سے تین گھنٹے کے لیے ان کی ملاقات کا اہتمام کیا گیا جس کے لیے کمپنی نے ان سے 11سو ڈالر معاوضہ وصول کیا۔ اس بڑھتے ہوئے رجحان کی کوریج سے رفتہ رفتہ یہ کاروبار پھیلنے لگا اور کئی کمپنیاں وجود میں آئیں۔ 

معاشی و سماجی اسباب نے جہاں اس کے لیے طلب پیدا کی وہیں کرائے پر رشتے داروں کا کردار ادا کرنے والی افرادی قوت بھی انہی اسباب سے میسر آئی۔ نوے کی دہائی میں جاپان میں ملازمت کے ضوابط میں بہت سی تبدیلیاں ہوئیں۔ مستقل نوکری کا تصور رفتہ رفتہ کم ہونے لگا اور ملازمت کی دیگر مراعات میں بھی کمی ہونے لگی۔ اس وقت بھی جاپان میں کام کرنے والی 38فی صد افرادی قوت مستقل ملازم نہیں۔ جاپانی میڈیا میں رینٹل فیملی سے متعلق چھپنے والی خبروں ، مضامین اور فیچرز نے روزگار کی تلاش میں سرگرداں افراد کو جزووقتی کام سے آمدن بڑھانے کا ایک نیا راستہ دکھایا۔ یوں بھی  2010 تک یک فردی خاندانوں کی تعداد روایتی خاندان سے بڑھ چکی تھی۔ جس کی وجہ سے ایک بڑی افرادی قوت کو اس نئی طرز کے پیشے میں روزگار کے مواقع مل گئے۔