زرداری سب پہ بھاری ایک حقیقت ہے، جس نے تقریباً 40,35 برس پاکستانی سیاست میں بالواسطہ اور بلاواسطہ کردار ادا کیا ہے۔ یہ کردار منفی ہے یا مثبت‘ فی الحال اس سے سروکار نہیں۔ زرداری صاحب کا حقیقت نامہ ایک ایسی سچائی ہے جس کو جھٹلایا نہیں جا سکتا۔ زرداری صاحب کی سیاسی زندگی کا آغاز بینظیر بھٹو کے ساتھ شادی 18 دسمبر 1987ء سے ہوا۔ زرداری کی بالواسطہ سیاست کا دور 27 دسمبر 2007ء کو ختم ہوا اور بلاواسطہ دور تاحال ہے۔ زرداری صاحب ہر دو صورت میں سب پر بھاری رہے۔ بینظیر بھٹو کے بدترین سیاسی حریف صدر جنرل ضیاء الحق 17 اگست 1988ء کے سہ پہر بہاولپور فضائی سازش میں شہید ہو گئے اور دسمبر 1988ء کو بینظیر پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم نامزد ہو گئیں اور زرداری صاحب شادی کے ایک سال کے اندر پاکستان کے مرد اول بن گئے۔ بہاولپور فضائی سازش کے بعد پاکستان میں امریکی سفیر رابرٹ اوکلے متعین ہوئیوہ سی آئی اے کے سابق چیف رہے تھے اور ان کی شہرت اسلام دشمن سرگرمیوں کے سرپرست کی رہی اور ان کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ یہ جس ملک میں جاتے ہیں‘ اسے صومالیہ جیسی ابتری میں مبتلا کر دیتے ہیں۔ مذکورہ امریکی سفیر رابرٹ اوکلے نے غالباً 27 دسمبر 1988ء کو دی نیشنل میں ڈیڑھ صفحہ کا طویل انٹرویو دیا کہ ہم نے پاکستان کے آئینی اور جمہوری قوانین کو بالائے طاق رکھ کر بینظیر کو وزیراعظم نامزد کرایا اور امریکی مدد بغیر غرض نہیں ہوتی۔ حقیقت یہ ہے کہ بینظیر صاحبہ کے دور اول میں پاکستان کی موجودہ سیاسی‘ عسکری‘ معاشی‘ معاشرتی اور انتظامی پالیسی کا تعین کر دیا گیا تھا۔ بینظیر کے دونوں ادوار میں بالواسطہ زرداری صاحب تمام امور مملکت پر حاوی اور بھاری رہے جس کا اظہار پرانے پی پی پی ورکرز اور اکابرین کرتے رہے۔ سرکاری اداروں کی نجکاری اور پاکستان کے غیر ملکی دوست کا تصور بھی عام ہوا۔ پاور سیکٹر کی نجکاری اور غیر ملکی سرمایہ کاری کا آغاز بھی اسی دور میں ہوا۔ نیز پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت نے قوم یکجہتی کے بجائے عالمی یکجہتی کو ترجیح دی۔ 1988ء تا اکتوبر 1999ء تک بینظیر کا دور ہوا یا نوازشریف کا ہر دو صورت رابرٹ اوکلے کے بنائے ہوئے روڈ میپ سے انحراف نہ کر سکے اور اس دوران آصف علی زرداری پاکستانی سیاست و حکومت میں بینظیر کے دست راست رہے اور پی پی پی کے اندرونی سیاست میں مضبوط ترین فرد بن کر ابھرے۔ زرداری صاحب کا پہلا بالواسطہ دور جنرل پرویز مشرف کی آمد اکتوبر 1999ء کے ساتھ ختم ہوا اور دوسرا بالواسطہ دور جنرل پرویز مشرف کے دور سے بینظیر کی ناگہانی موت نے زرداری صاحب کا بلاواسطہ بھرپور دور شروع ہوا جس کی تفصیل درج ذیل ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پی پی پی کے دور اول تا ایں دور کی فکری اور عملی بنیادیں وزیراعظم محمد خان جونیجو نے فراہم کیں۔ یاد رہے کہ محمد خان جونیجو کی وزارت عظمیٰ کے دوران بینظیر بھٹو کی وطن واپسی ہوئی۔ زرداری صاحب کے ساتھ شادی ہوئی اور بہاولپور فضائی سازش نے منظر بدل دیا اور بینظیر زرداری کے دور اول کی پالیسی آج تناور درخت بن کر کھڑی ہے اور اس پالیسی میں زرداری صاحب کے سیاسی دائو پیچ کی جیت رہی۔ نوازشریف کے ادوار بھی پالیسی کے لحاظ سے بینظیر زرداری کے رہنما پالیسی سے زیادہ مختلف نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت پاکستان کی سرکاری‘ سیاسی‘ عسکری‘ معاشی اور معاشرتی پالیسی پی پی پی کی رہنمائی جیت ہے اور بینظیر کی وفات کے بعد زرداری صاحب نے بھرپور سیاسی بالادستی کی پالیسی اپنائی جس کے باعث آج پاکستان کی سیاسی‘ عسکری اور جمہوری سرگرمیوں کی چابی زرداری صاحب کے ہاتھ میں ہے۔ نوازشریف کے پہلے دو ادوار پی پی پی کے بجائے فوج کے ضیائی عناصر کے مرہون منت ہیں۔ جنرل پرویز مشرف کا دور پی پی پی کے پارلیمنٹیرینز گروپ کے مرہون منت ہے اور اسی دوران زرداری اور مولانا فضل الرحمن کی یاری سب پر بھاری رہی۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں پی پی پی اور ن لیگ نے میثاق جمہوریت کر کے باہم تعاون کی سیاسی پالیسی اپنائی جس کو زرداری صاحب نے جمہوریت بہترین انتقام اور مصالحت سب کے لیے کا نعرہ لگایا گو زرداری نے عالمی و مقامی عسکری یکجہتی کے تحت نوازشریف حکومت کے خلاف عمران خاں کی احتجاجی سیاست کا ساتھ دیا۔ عمران خاں کو تخت لاہور جاتی عمرہ کی بادشاہت جیسے نعرے فراہم کئے اور جب مقتدر اشرافیہ نے ن لیگ حکومت کے دور ثانی میں لاہور میں عمران‘ زرداری جلسہ عام ہوا تو دونوں آرام سے بیٹھے رہے جیسے دونوں ایک دوسرے سے بیزار ہیں۔اس وقت زرداری کی جان ن لیگ اور ن لیگ کی جان زرداری ہیں اور آج جب پاکستانی طاقت کا روایتی مرکز تبدیل ہوا تو انہوں نے حالات کی چابی زرداری کے حوالے کردی اور زرداری کی انتخابی ضرورت اور حمایت ن لیگ کے ساتھ ضروری ہے وگرنہ بلاول زرداری وزارت عظمیٰ سے محروم رہیں گے۔ زرداری اور ن لیگ کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ دونوں ایک دوسرے کی سیاسی اور انتخابی ضرورت ہیں۔ میثاق جمہوریت نے نوازشریف اور بینظیر کو سیاسی بھائی چارے کی پالیسی پر ڈال دیا تھا۔ بینظیر کی وصیت کو بلا چوں و چرا نوازشریف نے تسلیم کر کے زرداری اور بلاول کو پی پی پی کا چیئرمین اور وائس چیئرمین بنوا دیا۔ پی پی پی کے دور ثانی اور زرداری کی صدارت کی جمہوری حفاظت نوازشریف اور ن لیگ نے کی جبکہ قومی و عالمی چپقلش میں نوازشریف نے میمو گیٹ سکینڈل میں مقتدر اشرافیہ کی راہ اپنائی جس کا نوازشریف کو گلہ رہا مگر زرداری نے بھی نوازشریف کے خلاف مقتدر اشرافیہ کے اشارے پر زرداری عمران متحدہ محاذ آرائی کی مگر اب حالات یکسر بدل گئے ہیں کہ آج مقتدر اشرافیہ پہلے جیسی طاقت کی حامل نہیں بلکہ مقتدر اشرافیہ اگلے الیکشن اور ن لیگ کی سیاست کے حوالے سے زرداری سے مدد مانگی، جس کے باعث زرداری کے پاس ٹرمپ کا پتہ یا شاہ چال ہے۔ زرداری بلاول کو ا گلا وزیراعظم دیکھنا چاہتے ہیں جبکہ عوام کی تاحال ترجیح عمران ہیں مگر اشرافیہ کے اندر کی دراڑ یا دیوار کی شکستگی کا پلڑا زرداری کے حق میں ہے۔ سارے کھیل کی چابی ستمبر میں طے ہونا ہے اگر زرداری صاحب نے شہباز سرکار کا ستمبر گزار دیا تو نومبر کی اشرافیہ زرداری ہو گی ۔ یاد رہے کہ زرداری و شہباز مقامی و عالمی اشرافیہ کے لاڈلے ہیں مگر عمران خان کو عوام کے سہارے اکیلے اڑنے کا شوق ہے‘ اس کا رنگ کیا ہوگا‘ یہ حالات‘ واقعات اور قرائن طے کریں گے۔ زرداری کے اشارے تیز تر اور تیر بہدف ہیں۔ زرداری کی ن لیگ سے علیحدگی یا ناراضی خودکشی سے کم نہ ہوگی۔