بالآخرلاہور سے اس لانگ مارچ کا آغاز ہو ہی گیا جس کی بہت عرصے تاریخیں دی جا رہی تھی۔ 28 اکتوبر کو لبرٹی چوک لاہور سے نمازِ جمعہ کے بعد سابق وزیرِ اعظم عمران خان نے عوام سے خطاب کیا اور لانگ مارچ کا قافلہ روانہ ہو گیا۔ تین ساڑھے تین بجے تک تو شاید بہت زیادہ لوگ نہیں تھے مگر پھر لوگ ملتے گئے اور کاررواں بنتا گیا کے مصداق لوگ اس مارچ میں بڑھتے ہی چلے گئے۔ فیروز پور روڈ پر چلتے ہوئے اچھرہ پر رک کر عمران خان نے پھر لوگوں کو متحرک کیا اور یہ قافلہ چلتا رہا۔ لاہور وہ عجیب و غریب شہر ہے جو ایک طرف تو علم و ادب کا گہوارہ رہا اور دوسری طرف اسی شہر میں ہماری جنگِ آزادی کی بہت سی کہانیاں دفن ہیں۔ اب پھر میرے شہر لاہور میں سیاست کے سیاہ بادل منڈلا رہے ہیں۔ حکومت اور اپوزیشن کے دریاؤں میں طغیانی آئی ہوئی ہے۔ ہماری پرانی تہذیب بھی سندھ کی وادی میں دریا کے کنارے آباد تھی۔ ہمارے آباؤ اجداد بھی دریاؤں کے مزاج اور طغیانوں کو سمجھتے تھے۔ لیکن اب اس ملک کے سیاست کے چڑھتے ہوئے دریاؤں کی لہریں بپھرتی جا رہی ہیں۔ اس دریا میں تیرتی حکمرانوں کی کشتیاں مانو جیسے کشتی رانی کے مقابلے کر رہی ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ فاؤل کرتے ہوئے ایک دوسرے کے پتواروں کو کھینچنے کی گھناؤنی کوششیں کی جارہی ہیں۔ کیا ان کو نظر نہیں آتا کہ اس ملک کی 24کروڑ عوام بھی انہی کشتیوں میں سوار ہیں۔ اب تو سیاست باز کھلے عام ایک دوسرے کو دھمکیاں دینے لگے ہیں۔ پاکستان وہ ملک ہے جہاں آئینی اور جمہوری بنیادوں پر حکومتیں بنتی ہیں۔ اگر قومی اسمبلی میں واضح اکثریت حاصل نہ ہو تو اتحادی جماعتوں کو ملا کر حکومت بنائی جاتی ہے۔ مگر ان دنوں سیاست کی راتیں اور صبحیں غیر یقینی حالت میں طلوع اور غروب ہو رہی ہیں۔یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا لانگ مارچ حکومت پر دباؤ ڈال سکتا ہے اور عمران خان صاحب کے مطالبات منوائے جا سکیں گے۔ اس وقت پاکستان میں سیاسی انتشار اپنے عروج پر ہے۔ بادیء النظر میں لگتا ہے کہ پاکستان تاریخ کے اہم ترین موڑ پر ہے۔ مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہم بہت زیادہ تقسیم در تقسیم ہوتے جا رہے ہیں۔ یک جہتی اور سیاسی مکالمے سے اب شاید بات آگے بڑھ چکی ہے۔ عمران خان کا کہنا ہے کہ میں اپنے 26 سالہ سیاسی کیرئیر میں انتہائی اہم سفر شروع کر رہا ہوں۔ انہوں نے مزید کہا کہ میرا مارچ ذاتی مفادات کے لیے نہیں ہے۔ مزید ان کا کہنا ہے ہمارا مقصد اپنے ملک کو حقیقی آزادی دلانا ہے۔ اس وقت ملک میں پریس کانفرنس پر پریس کانفرنس ہو رہی ہیں۔ لانگ مارچ کو روکنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی گئی۔ عمران خان کہتے ہیں کہ لانگ مارچ کسی حکومت کو لانے یا کسی حکومت کو گرانے کے لیے نہیں ہے۔ نجانے کرسی کا نشہ کیسا نشہ ہے؟ کبھی کبھی تو یہ لگتا ہے ہمارے سیاست بازوں کو پوری قوم کو بہکانے کے علاوہ اور کوئی کام آتا ہی نہیں۔ قائدِ اعظمؒ کی وفات کے بعد مسلم لیگ کے گھوڑے بد لگام ہو گئے ہیں۔ پارٹیوں میں بٹ گئے ہیں۔ کسی زمانے میں مسلم لیگ وہ جماعت ہوا کرتی تھی جس سے عام پاکستانیوں کو بہت لگاؤ تھا کیونکہ وہ جماعت تھی جس سے پاکستان کی تحریک کا آغاز ہوا تھا۔مگر اب یہ وہ مسلم لیگ نہیں رہی اور نہ ہی لوگوں کی وہ عقیدت۔ اب تو ہم پر مسلط ہمارے حکمران چکر پر چکر چلاتے ہیں اور اسے اللہ کی مرضی بتاتے ہیں۔ دوسری طرف عوام کہتے ہیں عمران خان سچا لیڈر ہے وہ ملک کے لیے نکلتا ہے تو ہم عمران خان کے لیے نکلتے ہیں۔ ہم ہر طور پر اپنے لیڈر کا ساتھ دیں گے۔ اکتوبر کے مہینے میں پتہ نہیں کون سا سحر ہے۔ نئے نئے جلسے اور اتحاد جنم لیتے ہیں۔ لیکن سفارش اور تنظیم کی کوششوں سے ٹکراتی ہوئی اپنے ساتھ بہت سی چیزیں لپیٹ کر لے جاتی ہے۔ پاکستان میں عدل بے گناہوں کے خون کی دھار پر زندہ ہے۔ عمران خان اس وقت الزامات کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں لیکن لوگ ہیں کہ اس سے عشق کرتے ہیں۔ لوگ خیال کرتے ہیں کہ جمہوریت کے پاؤں میں جھانجن تو ہے نہیں پھر چھن چھن کی صدائیں کہاں سے آ رہی ہیں۔ عوام کا کہنا ہے کہ اب ووٹوں سے بڑھ کر کوئی اور ہتھیار نہیں۔ خوش آئندہ بات یہ ہے کہ لانگ مارچ میں بھی پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان اور اس کے رہنما بھی صاف شفاف انتخابات کی بات کر رہے ہیں۔ خدارا! اب عوام کی بے کسی سے نہ کھیلا جائے۔ ملک کا مسئلہ استحکام ہے خواہ اوہ سیاسی استحکام ہو یا معاشی استحکام ہو۔ ظاہر ہے ہمارے ملک کا ہر مزدور، ہر کسان، ہر کلرک ہر شعبہ ہائے زندگی سے جڑے لوگ اپنی محنت کی اْجرت مانگتے ہیں۔ اگر ہم ملک میں ہونے والے پہلے عام انتخابات جو 1970ء میں ہوئے دیکھیں تو ہماری سیاسی تاریخ ہنگاموں او رعدم استحکام سے عبارت ہے۔ ہر آنے والا حکمران پچھلے والے کی کرپشن پر نکتے اٹھاتا رہا۔ اپوزیشن والے کبھی بدعنوانی اور کبھی منی لانڈرنگ کے الزامات لگا کر حکومتیں گراتے رہے۔ ہمارے قومی مسائل اتنے زیادہ ہیں کہ اگر انھیں سلجھانے لیے بیٹھیں تو کوئی سرا ہاتھ ہی نہیں آتا بلکہ یوں لگتا ہے کوئی اس گْتھی کو سلجھانا ہی نہیں چاہتا۔ کسی بھی ملک کی سیاست دراصل اس کی ملت کی اخلاقیات کی پابندہوتی ہے۔ اگر معاشرے سے عمومی اخلاقیات اور اجتماعی مثبت رویے نکال دیے جائیں تو پیچھے کیا بچ جائے صرف بے بسی اور انارکی۔ قوموں کی زندگیاں صدیوں پر محیط ہوتی ہیں۔ ہم بھی پون صدی تو گزار ہی چکے ہیں اور زمانہ جس تیزی اور طغیانی سے کروٹیں لے رہا ہے اب اس ملک میں بھی استحکام آنا چاہیئے۔ کیا لانگ مارچ شفاف الیکشن کا ہدف پورا کر پائے گا؟ اگر نہیں! تو عوام کے اعتماد کو سخت ٹھیس پہنچے گی۔ ٭٭٭٭٭