امید تو تھی کہ عالمی وبا کا پھیلائو دنیا کو متحد کر دے گا ۔ اگر عالمی ‘ علاقائی اور قومی سیاست کے دھارے کو مکمل طور پر نہ بھی بدل سکا تو کم از کم اس کی تلاطم خیزی کو تو کم کرے گا تاکہ اس وبا کا تدارک کیا جا سکے۔ فی الحال ایسا ہوا نہیں‘ وبائیں‘ آفتیں اور تباہی انسانی مزاج پر اثر انداز ہوتیں تو شاید آج دنیا بالکل مختلف ہوتی۔ وبا ہو یا قدرتی آفت انسان اس کو روکنے کے اسباب کر ہی لیتا ہے لیکن ساتھ ہی اپنا پرانا کھیل بھی جاری رکھتا ہے۔ وبا نے پاکستان کی روایتی سیاست کا کچھ بگاڑا ہے اور نہ ہی اداروں اور لوگوں کے رویوں کا۔ یہی حال پاکستان کے ہمسایوں اور دنیا کے بیشتر ممالک کا ہے۔ وبا انسان کے سیاہ اور سفید کی حس کو تیز کر دیتی ہے۔یعنی وہ چیزوں اور مظاہر کو دو انتہائوں کے تناظر میں دیکھتا ہے۔ یہ رویہ انسانی تہذیب کی ترقی کا سب سے بڑا دشمن ہے۔ یہ عادت انسان کی توازن قائم کرنے ‘ مصالحت اور درمیانی راہ ڈھونڈنے کی صلاحیتوں کو کمزور کرتے ہوئے تفریق ‘ تصادم اور اختلاف کو آخری درجوں میں دیکھنے اور پھیلانے کی صلاحیت کو بڑھا دیتی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ کورونا کی وبا کے بعد امریکہ اور چین کے درمیان، سائنس کے میدان میں عالمی معیشت کو بچانے کے لئے تعاون کی نئی راہیں کھلتیں۔ جس کے آغاز میں آثار بھی پیدا ہوئے لیکن یہ آثار نہ صرف معدوم ہونا شروع ہو چکے ہیں بلکہ اس نے نئی سرد جنگ کے ماحول کو بھی گرما دیا ہے۔ بحث یہ ہے کہ وائرس کہاں سے آیا؟ووہان کی لیبارٹری میں پیدا کیا گیا‘ سائنسدانوں کی غلطی سے اس کا پھیلائو ہوا‘ یا اس لیبارٹری کے قریب واقع سمندری خوراک کی مارکیٹ سے پھیلا یا پھر ووہان میں جاری امریکہ ‘ چین فوجی مشقوں میں امریکی لے کر آئے۔ صدر ٹرمپ کورونا وائرس کو چائنا وائرس کہنے پر مضر ہے اور چین پر معلومات چھپانے کا الزام ہے۔ امریکہ اور بیشتر مغربی ممالک میں یہ رائے بڑی پختہ ہو چکی ہے کہ چین نے شروع سے ہی کورونا وائرس اور اس کے پھیلائو پر پردہ ڈالنے کی کوششں کی ہے۔ پہلے اس وبا سے خبردار کرنے والے ڈاکٹر پر سختی کی۔ دنیا کو ووہان کی لیبارٹری تک رسائی نہیں دی ، وبا کے پھیلائو اور اموات کی تعداد کو چھپایا اور اب آہستہ آہستہ معلومات کے پھیلائو سے پتہ چل رہا ہے کہ وائرس سے متاثر ہونے اور ہلاک ہونے والوں کی تعداد ظاہر کی گئی تعداد سے کہیں زیادہ تھی۔ چین پر دوسرا بڑا اعتراض یہ ہے کہ جب وائرس پھیل رہا تھا تو یہ اپنے علاقوں کو تو بند کر رہا تھا لیکن عالمی فضائی رابطے نہ صرف کھلے رکھے بلکہ اس پر اصرار کیا‘ جس سے وائرس پوری دنیا میں پھیل گیا۔ جہاں تک تعداد چھپانے کی بات ہے تو چین میں بیماریوں اور آفتوں کے نتیجے میں ہونے والی اموات کا ریکارڈ سرکاری اخفا(سٹیٹ سیکرٹ) کے زمرے میں آتا ہے اور اس کی وجہ چین کا خوف ہے کہ اسے اس کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال نہ کیا جا سکے کہ یہ چیز اس کی معیشت اور شہریوں کے دنیا سے روابط پر اثر انداز ہو سکے۔چین کا موقف ہے کہ اس نے آغاز سے ہی دنیا کو خبردار کیا تھا بلکہ چینی کیلنڈر کے آغاز کی چھٹیوں پر لاک ڈائون کر کے دنیا کو یہ پیغام دے دیا تھا حالانکہ یہ چھٹیاں اس کی سیاحتی معیشت سے جڑی تھیں۔ اب دوسری طرف کا موقف یہ ہے کہ اگر شروع میں بہتر تعاون استوار ہو جاتا اور معلومات کو نہ چھپایا جاتا تو صورت حال مختلف ہوتی۔ اس کی مثال سرد جنگ کے دور میں چیچک کی وبا سے متعلق دی جا رہی ہے کہ امریکہ اور سوویت یونین نے باوجود تمام اختلاف کے اس وبا کے خاتمے کے لئے کام کیا اور بالآخر اس پر قابو پا لیا۔ چین کے طبی سائنسدان دنیا کے ساتھ تعاون کرنے کے لئے تیار ہیں اور کر بھی رہے ہیں لیکن چین کی پارٹی قیادت دنیا کی طرف سے آنے والے دبائو کو ایک بُرے سیاسی تناظر میں دیکھ رہی ہے۔ اسے وہ ’’توہین کی صدی‘‘ کے تناظر میں دیکھ رہی ہے جب مغرب ‘ روس اور جاپان نے مل کر 1839ء سے 1949ء تک چین کو مغلوب اور تقسیم رکھا۔ چین کے دانشوروں کی رائے ہے کہ مغرب نے ابھرتے ہوئے چین کو قبول نہیں کیا ہے اور آج بھی توہین کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ امریکہ اور چین کی حالیہ محاذ آرائی کے کئی اور تناظر اس کی عالمی سیاست پر اثرات ہو سکتے ہیں لیکن اس کا ایک تناظر چین کے ایک بند نظام اور مغرب کے کھلے نظام کے درمیان کشمکش بھی ہے ۔چین نے جس سختی اور منظم انداز سے وائرس کے پھیلائو کو روکنے کی کوشش کی ہے اس کی شروع میں ستائش ہوئی اور اسے بہت سے جمہوری معاشروں کے لئے مثال بھی قرار دیا لیکن جب جرمنی‘ نیوزی لینڈ اور چند دیگر مغربی ممالک نے شفافیت کے ساتھ ہی وائرس سے نمٹنے کے لئے متبادل کرکے دکھا دیے تو چین کی ستائش میں نہ صرف کمی واقع ہوئی بلکہ اس کے تعاون اور معلومات پر بھی شک کا اظہار کیا جانے لگا ہے۔ چین کا اصرار ہے کہ بس جتنا وہ ظاہر کر رہا ہے اسے ہی کافی سمجھا جائے اور ظاہر ہے اس کے پیچھے وہ نفسیات ہے جس کی جڑیں اس کے احساس سے جڑی ہیں۔ امریکہ‘ چین کی باہمی آویزش اپنی جگہ لیکن دنیا کے سائنسدان اس نتیجے پر تو پہنچ گئے ہیں کہ اس وائرس کو مصنوعی طریقے سے نہیں بنایا جا سکتا اور اب تک کی اس کی سات اقسام جانوروں سے ہی انسان میں منتقل ہوئی ہیں چونکہ یہ وائرس بہت مختلف خصوصیات کا حامل ہے جس پر اب معلومات کی فراوانی ہے۔ اس لئے کہ پھیلائو اور رسپائنس ٹائم میں مطابقت پیدا نہیں ہو سکی اور موثر لاک ڈائون کو اب تک اس کے پھیلائو کو روکنے کا موثر ذریعہ سمجھا جا رہا ہے لیکن انسان نے اس میں بھی نفرت اور تقسیم کے اظہار کی راہیں نکال لی ہیں۔ ہندوستان میں جس طرح سے اس وبا کو مسلمانوں سے منسوب کیا جا رہا ہے اور اس کی بنیاد پر انہیں ٹارگٹ کیا جا رہا ہے وہ انسان کی سفلی جذبات کا اظہار کہی جا سکتی ہیں۔یہ وبا دنیا کے دیگر تنازعات پر بھی اثرانداز نہیں ہو سکی ہے۔یمن سے افغانستان تک منظر نامہ وہی ہے۔ اگرچہ کورونا کی وبا سیاست اور معاشرتی رویوں پر ابھی تک بہت زیادہ اثرانداز نہیں ہوئی ہے لیکن اس کے معیشت اور ماحول پر اثرات نمایاں ہیں۔ ٹیکنالوجی کی معیشت نئی کروٹیں لے رہی ہیں اور اس پھیلائو سے روایتی معیشت بھی ایک نئے تشکیلی دور سے گزرے گی، تعلیم اور معلومات کے ذرائع تبدیلی کے عمل سے گزرنا شروع ہو چکے ہیں لیکن یہ خیال کہ اس وبا کے بعد کی دنیا اور سماج بالکل نیا ہو گا شاید ابھی پختہ نہیں۔ وبا کی شدت بھی یقینا اس قسم کی پیشین گوئیوں پر اثر انداز ہو گئی۔ لیکن سیاسی مذہبی اور نظری رجحانات کے لئے وبائیں اور آفتیں محض ایک ذریعہ ہوتی ہیں۔ ایک ایسا ذریعہ جو انسانی سوچ کے بنیادی اسلوب کو تو نہیں بدلتا بلکہ خود ان رجحانات کے لئے خوراک یا کھاد ہو جاتا ہے۔ امریکہ اور چین کی مخاصمت سے بڑی کیا مثال ہو سکتی ہے کہ دنیا وہیں کھڑی ہے جہاں نومبر 2019ء میں تھی۔