یہ انتہائیں مل کیوں جاتی ہیں؟ مجاز اور حقیقت کی تلواریں کبھی ایک ہی میان میں کیونکر سما جاتی ہیں؟ کیا سبھی راستے ایک ہے سمت کو جاتے ہیں؟ اور شَش جہت کسی افسانوی مجموعے کا نام ہے کیا؟ انسان کے پھسلانے کو، بہکانے کو گھمن گھیریاں ہیں سب؟ انالحق کا نعرہ مستانہ دہن سے نکلوا کر‘ دار تک لے جانے کے بہانے۔۔؟ وہ الجھا ہوا تھا، پریشان اور کنفیوز سا۔ کہنے لگا ’’یار یہ گناہ کے عمل کا آئینہ، نیت کی شعاعوں کو نیکی کی سمت کیسے موڑ دیتا ہے؟ ‘‘کچھ دیر میز کی سطح پر نظریں گاڑے وہ دائیں ہاتھ کی انگشتِ شہادت ٹھوڑی پر رگڑتا رہا، گویا میز کی سطح پر اسے کوئی منظر دکھائی دے رہا ہو۔’’ہوا کیا ہے ‘‘میں نے پوچھا۔یار تو جانتا ہے نماز کی عادت پچھلے کئی برسوں سے ہے۔ جب سے چالیس کا سَن پار کیا ہے، اب اگلی منازل دکھائی پڑنے لگی ہیں‘ سو نماز کی عادت سی بن گئی ہے۔ عشاء میں دیر سویر ہوجاتی ہے، کبھی بہت تھکا ہوا ہوتا ہوں تو رہ بھی جاتی ہے۔ پرسوں کی بات ہے میں ذرا تاخیر سے گھر آیا۔ ساڑھے دس پونے گیارہ کا وقت ہوگا۔ تھکاوٹ کچھ سِوا تھی۔ کپڑے مشکل سے بدلے اور رضائی میں گھس کے بے سْدھ ہوگیا۔ ایک گھر چھوڑ کے پڑوس میں شادی کا ہنگامہ تھا، اس روز ان کے ہاں مہندی کی تقریب تھی سو بڑے سپیکروں پر اونچی آواز میں گانے بج رہے تھے۔ میں گھنٹہ بھر سویا ہوں گا کہ ریکارڈنگ کی تیز آواز سے آنکھ کھل گئی۔ کچھ دیر بستر میں دْبکا رہا مگر نیند نہ آئی۔ تب خیال آیا کہ نماز نہیں پڑھی چلو حاضری لگوا لیں۔ اٹھ کے وضو کیا اور ڈرائنگ روم کے دروازے اچھی طرح بھیڑ کے جائے نماز بچھا لی۔ ریکارڈنگ کی آواز اب بھی آرہی تھی مگر قدرے کم۔ فرض، سنتیں اور وتر پڑھ کر دعا مانگتا تھا تو پڑوس میں وہ گانا بجنے لگا ’’برسات کے موسم میں، تنہائی کے عالم میں، میں گھر سے نکل آیا، بوتل بھی اٹھا لایا‘‘ مجھے یہ کچھ ناگوار سا گزرا۔ اب میں ولایت کے کسی درجے کا مکیں تو ہوں نہیں کہ جب خدا کے حضور کھڑا ہوں تو گرد و پیش سے بے نیاز ہو جایا کروں۔ میں تو اِک عامی ہوں جس کی پانچوں حسیں عبادت میں بھی فعال رہتی ہیں۔ مجھے پڑوسیوں پر غصہ بھی آیا کہ اپنی خوشیوں کو مناتے ہوئے وہ آس پڑوس کا خیال نہیں رکھتے کہ کوئی عبادت میں بھی مصروف ہوسکتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ ابھی میں اس شرابی گانے پر پیچ و تاب کھا ہی رہا تھا کہ گانے کا وہ بند شروع ہوگیا… مجھے ٹکڑوں میں نہیں جینا ہے قطرہ قطرہ تو نہیں پینا ہے آج پیمانے ہٹا دو یار و سارا مَے خانہ پلا دو یارو۔۔۔ یہ بول سنتا گیا کہ میری عجیب سی کیفیت ہوگئی۔ وہ کیفیت جسے نہ تو میں کوئی نام دے سکتا ہوں اور نہ لفظوں میں بیان کرسکتا ہوں۔ آگے پتہ نہیں گانے کے کیا بول تھے، میری سوئی تو ان دو لائنوں پر پھنس کے رہ گئی ’’آج پیمانے ہٹا دو یارو۔۔ سارا مَے خانہ پلا دو یارو‘‘ مجھے سارا حساب و کتاب بے معنی لگنے لگا۔ عشاء کی سترہ رکعتیں تو خیر میں کبھی نہ پڑھ سکا، ہاں یہی چار فرض، دو سنتیں اور تین وتر۔ کبھی کبھار آخری دو نفل اور بس۔ نو نہیں تو گیارہ، گن گن کے بے روح رکعتیں۔ گویا احسان چڑھایا کرتا ہوں کسی پر۔ خدا کے ساتھ ناپ ناپ کر اور تول تول کر پورے حساب کتاب سے بندگی کا معاملہ کیا کرتا ہوں۔ آج پیمانے ہٹا دو یارو۔۔۔۔ یہ مصرع میرے لاشعور میں کہیں ریکارڈ ہوگیا اور وہاں ایسا بجنے لگا کہ شعور تک پر حاوی ہوگیا۔ اس ایک مصرعے کی گردان کرتے ہوئے میں جھومنے لگا۔ کوئی نشہ تھا کہ رگ و پے میں اترا جاتا تھا۔ پتہ نہیں کتنی دیر میں اس جھومنے والی کیفیت میں رہا پھر جائے نماز پر کھڑا ہوگیا، کانوں تک ہاتھ لے جا کر اس کی کبریائی کا کلمہ ادا کرتے ہوئے نیت باندھ لی۔ آنکھیں برستی تھیں۔ یہ آنسو نہ خوفِ خدا کے تھے نہ عشقِ الہٰی کے، عجب سا پچھتاوا تھا جو اندر سے غبار کی صورت اٹھتا اور آنکھوں سے بہہ جاتا تھا۔ یہ رکعت بہت طویل ہوگئی، پتہ نہیں کتنی مرتبہ میں نے ثناء پڑھی پھر الحمد شریف بار بار پڑھتا رہا۔ ایک ایک آیت پر عجب کیفیت ہوتی اور سرور بھرا خمار سا چڑھنے لگتا۔ پھر جتنی سورتیں یاد تھیں وہ پڑھ ڈالیں۔ رکوع کی تسبیح پتہ نہیں کتنی مرتبہ پڑھی، سجدے بھی طویل اور سبحان ربی العلیٰ کی تسبیح شمار سے مبرا۔ وہی مصرع کہیں لاشعور میں بجتا تھا اور میں نے سارے پیمانے اٹھا کے کہیں دور پھینک دئے تھے۔ آخری سجدے میں تسبیح میں نے اتنی مرتبہ پڑھی کی مجھے وہیں اسی حالت میں نیند آگئی۔ اتنا گہرا سکوت تھا گویا کہیں خلا میں آگیا ہوں اور سکون ہی سکون۔ کائنات کا سارا نظام جیسے ٹھہر گیا ہو، ٹھٹھر گیا ہو۔ آسودگی کی یہ سطح بھی ہوسکتی ہے ! مجھے پہلی دفعہ احساس ہوا۔ نیند میں جو تجربہ ہوا اور جو میں نے دیکھا وہ کسی کے ساتھ بھی شئیر نہیں کرسکتا۔ اتنا بتا سکتا ہوں کہ جو میں نے اس عالم نیند میں دیکھا،شیطانی قوتیں وہ منظر دکھانے پر قادر نہیں۔ یہ سب سنا کر وہ کچھ دیر کو خاموش ہوا، کمرے کی فضا ایک عجیب سے تقدس سے بوجھل ہوگئی تھی۔ ’’یہ سب کیا ہے یار۔۔؟ تو بڑی بابوں کی باتیں لکھتا ہے، مجھے کسی سے پوچھ کر بتا۔ یہ شرابی قسم کا گیت مجھ ایسے دنیا دار کو اس قدر اعلی و ارفع روحانی تجربے کی طرف کیوں کر لے گیا۔ گناہ کی ترغیب دیتی موسیقی اور اس سے کشید ہوتا خشوع و خضوع...! یہ کیا گورکھ دھندا ہے یار؟ قسم لے لے نماز میں، عبادت میں ایسا لطف زندگی میں کبھی نہیں آیا۔‘‘میں تھوڑا سا آگے جھکا اور اس کے قریب ہو کے سرگوشی کے سے انداز میں کہا ’’اوئے چول انسان، تو آم کھانے سے غرض کیوں نہیں رکھتا، کیوں پیڑ گننے نکلا ہے۔ بس اتنی بات یاد رکھ کہ پیمانے ہٹا کے اور گنتی سے بالاتر ہو کے انسان خود سپردگی کی کیفیت میں چلا جاتا ہے۔ ٹوٹل سرنڈر۔ کسی کے آگے اپنا آپ ہار دینے کو، سرنڈر کر دینے کو عشق کہتے ہیں اور عشق کی یہی کیفیات ہوتی ہیں‘‘۔ ٭٭٭٭٭