ملتان میں نئے سول سیکرٹریٹ کی شروعات سے اس خطّے کی "Complexion"تبدیل ہو رہی ہے ۔کاروبار ریاست وحکومت وسلطنت مائل بہ ترقی وارتقاء ہے ،سرکاری عمائدین ایک نئے جذبے اور ولولے کے ساتھ یہاں براجمان ہوچکے ہیں ، جس سے یقینایہ قریہ دوررس اثرات اور ثمرات سمیٹے گا۔ قدیم ہندوستان میں بھی دہلی کے بعد ملتان کی سیاسی ،مذہبی اور جغرافیائی اہمیت مسلمہ تھی ۔ سلطنتِ دہلی کی مغربی اور شمال مغربی سرحد،جس میں ملتان ---اپنے محل وقوع کے سبب "منگول حملہ" کے خطرات کی زَد میں رہتا ، جس کے سبب، ملتان ،سلطنت دہلی کے کلیدی دفاعی حصار کی حیثیت کا حامل تھا ۔ "بلبن کی ڈیفنس پالیسی"کے مطابق، ملتان سے دہلی تک تین دفاعی لائنیں قائم ہوئی ،تاکہ کسی بھی حملہ آور کو ،سرحد عبور کر کے آسانی سے ، دہلی آنے کی راہ میسر نہ ہو، اور کم از کم تین مقامات پراُسے سخت ترین مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے ،جس کی پہلی "ڈیفنس لائن "ملتان اور اُوچ ،دوسری دیپالپور اور پاکپتن اور تیسری سامانہ ،سنام اور ہانسی کے مقامات تھے ۔ملتان اور سندھ کی اہمیت کے پیش نظر، بلبن نے اپنے ولی عہدِ سلطنت شہزادہ سلطان محمد کو ملتان ،سندھ ، دیپالپور اور لاہور کے علاقوں کا حاکم ِ اعلیٰ مقرر کیا اوروہ انہی معرکوں میں شہادت سے سرفراز ہوا۔ از خود حضرت داتا گنج بخشؒ نے بھی لاہور میں اپنے قیام اور کشف المحجوب کی تحقیق و تدوین کے باب میں یہی ذکر کیا کہ : ’’ومن دربلدئہ لہانور کہ از مضافاتِ ملتان است ---‘‘ یعنی: اورمیں شہر لہانور میں ، کہ جو مضافاتِ ملتان سے ہے ---(میں مقیم ہوں) نکلسن نے بھی کشف المحجوب کے اپنے شہرئہ آفاق انگریز ی ترجمے میں : "In the district of LAHAWAR, which is a dependency of Multan"تحریر کیا ہے ، بہر حال لاہور کا "مضافاتِ ملتان "میں شمار ہونا کن معنوں میں تھا ، ا س سے قطع نظر--- امر واقعہ یہی ہے کہ ملتان کو ابتدائی طور پر اپنی "Strategic"اور سہروردیہ بزرگوں کی موجودگی کے سبب مرکزیت میسر آئی ، جبکہ لاہورکی پہچان اور شناخت حضرت داتا گنج بخشؒکے وجودِ سعید کی برکت سے ہوئی ۔حضرت داتا گنج بخشؒ کی شخصیت آپ کے احوال و افکار اور بالخصوص آپ کی تصنیف لطیف "کشف المحجوب"نے دینی ادب اور بالخصوص مسلم تصوف پر بہت گہرے اثرات مرتب کیے، کتاب کے وسیع تر دائرۂ علم، آپؒ کے منفرد اور معتبر زاویۂ نگاہ اور اسلوبِ بیان کے سبب، گذشتہ ایک ہزار سال سے اس کی تاثیر جاری ہے۔آپ کے رفیقِ خاص، ابو سعید ہجویریؒ کی طرف سے اُٹھائے گئے مختلف مباحث کا تفصیلی جائزہ ،اس کتاب کی تخلیق کا باعث بنا ، جس کا مرکزی اور بنیادی نقطہ "اثباتِ اصولِ طریقت و تصوّف" تھا، کشف المحجوب کے تراجم دنیا بھر کی معروف زبانوں میں عمل میں آئے، انگریزی ترجمے کی سبقت کیمبرج یونیورسٹی کے نامور استاذ اور عربی و فارسی ادبیات کے معروف محقق رینالڈ اے نکلسن (1945-1868) نے حاصل کی، جو اس امر کا ثبوت ہے کہ حضرت داتا صاحبؒ عالمِ اسلام ہی میں نہیں، مغرب کے علمی زاویوں میں بھی معروف ومعتبر تھے، نکلسن کو فارسی صوفیانہ ادب سے خصوصی شغف تھا، بایں وجہ وہ "کشف المحجوب"سے از حد متاثر ہوا۔ کشف المحجوب کے انگریزی ترجمے سے قبل، فرید الدین عطّار کے "تذکرۃ الاولیائ"کو تدوین و تصحیح کے ساتھ شائع کرنے کا بھی اس نے اعزاز پایا، جس میں ان کا وقیع مقدمہ بطورِ خاص اہمیت کا حامل ہے، مزید براں تصوّف پر اپنی کتب"The Mystics of Islam" اور "The Idea of Presonality in Sufism"میں متعدد مقامات پر کشف المحجوب کو بطوراستناد و استشہاد پیش کیا۔ حضرت داتا صاحبؒ کے ورودِ مسعود کی طرح، "کشف المحجوب"کی تالیف و تصنیف کا اعزاز بھی خطّہ لاہور کو میسر آیا، اور پھر اس فارسی نسخے کی اولین طباعت و اشاعت بھی اسی "قطب البلاد" کے حصّے میں آئی،جس کا اہتمام انیسویں صدی کی ساتویں دہائی میں، لاہورہی کے الہٰی بخش کتب فروش نے کیا۔ڈاکٹر محمود عابدی کے مطابق اولین اشاعت کا سال 1283ھ ،جبکہ ڈاکٹر مولوی محمد شفیع کے مطابق یہ نسخہ 1874ء میں طبع ہوا، جس کا مطلب ہے یہ کتاب آج سے ڈیڑھ سو سال قبل بزبان فارسی شائع ہوئی، اسی فارسی متن کی اولین اشاعت کو نکلسن نے اپنے انگریزی ترجمے کی بنیاد بنایا۔ اس وقت ابھی سمرقندی اور ژوکوفسکی کے محقق نسخے شائع نہیں ہوئے تھے، نکلسن نے ،اس کے ساتھ انڈیا آفس لائبریری کے دو اور برٹش میوزیم کے ایک خطی نسخے سے بھی استفادہ کیا۔ محققین کے لیے یہ امر قدرے اطمینان بخش بھی ہوگا کہ اغیارکی دسترس میں ہی سہی ۔۔۔ زمانے کی دست بُرد سے یہ مخطوطات محفوظ تورہے، وہ اہم مقامات، جو ان خزینوں اور دفینوں کے اعتبار سے سرِ فہرست ہیں، ان تمام کا تعلق سنٹرل یورپ یا برطانیہ سے ہے ، جس میں برٹش لائبریری لندن، نیشنل لائبریری پیرس، اسٹیٹ لائبریری برلین ، اور نیشنل لائبریری ویانا (آسٹریا)اہمیت کے حامل ہیں ۔ "کشف المحجوب" کے بنیادی اور اساسی نسخے لندن، پیرس، برلین اور ویانا کے ان قومی کتاب خانہ میں کیسے پہنچے اور پھر اب تک کس طرح محفوظ رہے۔ یہ صفحات اس تفصیل کے لیے کافی نہ ہوں گے۔ نکلسن نے کشف المحجوب کے اپنے انگریزی ترجمے کے دیباچے میں،اس تصنیفِ لطیف کو نہایت شاندار الفاظ میں خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ کتاب تصوّف کے محققین اور سکالرز کے ساتھ ساتھ، اس شعبے کے عام طالب علموں کے لیے بھی نہایت دلچسپی کا باعث ہے، نکلسن نے کشف المحجوب کو اپنے سے ماقبل "رسالہ القشیریہ"پر فوقیت دیتے ہوئے تحریر کیا ہے کہ کشف المحجوب کی "متکلمانہ اصطلاحات "کے پیچھے، نہایت عمیق اور گہرا فلسفیانہ تفکر و تدبّر موجود ہے، جس میں حضرتِ ہجویرؒ نے بالخصوص مختلف مقامات پر محققانہ اور مجتہدانہ انداز میں اپنے ذاتی تجربات ، مجاہدات اور مکاشفات بھی اپنے قارئین کے ساتھ بانٹے ہیں۔ حضرت داتا گنج بخشؒ کی تشریف آوری کے بعد ہندوستان میں دو روحانی سلسلے ابتداء ہی میں قائم ہوئے ، ایک چشتی اور دوسرا سہروری ۔سلاطین سے ربط اور دربار داری کے امور کے حوالے سے یہ دونوں سلاسل مختلف پالیسوں کے حامل اور اُن پر مستحکم انداز میں کار بندتھے ، سہروری مشائخ ، سلاطین سے کافی میل جول رکھتے تھے ،وہ حکومتی پالیسیوں پر اثر انداز ہوتے اور اس حکومتی اثر ونفوذ کو رعایا کی ویلفیئر اوردین کی ترویج وتبلیغ کیلئے بروئے کار لاتے ، جبکہ چشتی صوفیاء دربار اور سلطان سے تعلق کو روحانی زندگی کے منافی خیال کرتے اور امورِ سلطنت سے اپنا دامن بچا کے رکھتے ۔حضرت شاہ رکنِ عالم ملتان ،سلطان سے ملاقات کے لیے ملتان سے دہلی تشریف لاتے جبکہ حضرت نظام الدین اولیاء دہلی میں ہوتے ہوئے بھی ،کبھی دربار میں جانے کو پسند نہ کرتے ۔ "خانقاہ "چونکہ اس عہد کا سب سے مؤثر ادارہ تھا ،اس لیے "اسٹیبلشمنٹ "کیلئے ہر دو خانقاہوں کی پالیسیوں کو نظر انداز کرنا ممکن نہ تھا ۔جس پر سلطان محمدبن تغلق کی سخت گیر پالیسیوں کے مضمر اثرات سے یہ ماحول بہت زیادہ مکدّر ہوا ،ایک طرف اُس نے سہروردی خانقاہوں میں اپنی مداخلت اس حد تک بڑھائی کہ ان کی خانقاہی آزادی ہی ختم کردی ،جبکہ دوسری طرف چشتیوں کو سلطان اور دربار سے لاتعلقی پر انہیں خانقاہوں سے نکال کر جبراً سرکاری منصب سونپے ۔ اس تصادم سے عمائدین حکومت اور دینی پیشوا یان کے تعلقات بُری طرح متاثر اور سوسائٹی توڑ پھوڑ کا شکارہوگئی ۔