حکومت کے مقرر کردہ میڈیکل بورڈ کی رپورٹس جولاہور اور اسلام آبادکی عدالت عالیہ میں پیش کی گئیں ان کے مطابق میاںنواز شریف کی حالت مخدوش ہے اور اس لحاظ سے خطرناک کہ اگر ان کا درست اور فوری طور پر منا سب علاج نہ ہوا تو صورتحال مزید گھمبیر ہو سکتی ہے۔ اب بال میاں صا حب کے اہل خانہ کے کورٹ میں ہے کہ وہ ان کا علاج کیسے اور کہاں سے کراتے ہیں۔ موجودہ نازک صورتحال میںنواز شریف کی جان کو خطرے کے پیش نظر ماہرین کے مطابق جب تک ان کے پلیٹ لیٹس ایک خاص حد تک نہیں پہنچتے اور ان کی مجموعی صحت اس قابل نہیں ہوتی کہ وہ سفر کرسکیں ان کا علاج پاکستان میں ہی کرانا پڑے گا، دوسری صورت میں انہیں فوری بیرون ملک منتقل کرنے کے لیے ائرایمبولینس کی ضرورت ہوگی اور یہ ائرایمبولینس بھی ایسی ہونی چاہیے جس میں ان کی بیماری سے نبٹنے کے لیے تمام متعلقہ آلات اور سہولیا ت موجود ہونی چاہئیں۔ یہ کام جرمنی میں ایک مخصوص کمپنی کرتی ہے جو پہلے اپنا ایک سپیشلسٹ بھیج کر معائنہ کر ے گی کہ وہ ائرایمبولینس میں بھی سفر کرنے کے قابل ہیں کہ نہیں۔ ظاہر ہے کہ اس کام کے لیے ویزا اوردیگر قانونی تقاضوں کو پورا کرنا پڑے گا۔ دعا کر نی چاہیے کہ ان کی صحت پاکستان میںہی مستحکم ہو جائے اور بیرون ملک جانے کا فیصلہ نہ کریں۔ ہفتہ کو میاں نوازشریف کو انجائنا اٹیک ہوا جسے ان کے برادر خورد شہبازشریف نے معمولی دل کے دورے کانام دیا ہے۔ میڈ یکل بورڈ کے سربرا ہ ڈاکٹر محمود ایا ز کا کہنا ہے کہ میاں صا حب کی حالت پہلے سے بہتر ہے اور پلیٹ لیٹس بھی بہتر ہو نے لگے ہیں۔ میاں شہبازشریف نے نوازشریف کی ضمانت پر رہائی کے لیے درخواست پر منگل کے بجائے فوری سماعت کے لیے اسلام آباد ہائیکورٹ سے رجوع کیا جس پر ہفتے کو ہی اسلام آباد ہا ئیکورٹ کو چیف جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل بینچ بنانا پڑا۔ فاضل بینچ نے میاں نوازشریف کی طبی بنیادوں پر منگل تک ضمانت منظور کرلی ہے۔ اس بات کی باقاعد ہ انکوائری ہونی چاہیے کہ نوازشریف کی حالت اس حد تک دگرگوں کیسے ہوئی کیونکہ ان کو جو عارضہ لاحق ہے وہ بہت کم لوگوں کو ہوتا ہے۔ مرض قا بل علاج ہے لیکن جیسا کہ اسلام آباد اور لاہور ہائیکورٹ میں ڈاکٹروں نے جو رپورٹ پیش کی ہے اس کے مطابق وہ دل اور شوگر کے مریض ہیں، گردے بھی ٹھیک کام نہیں کررہے اور بلڈ پر یشر بھی نارمل نہیں رہتا، اس قسم کے مریض کو اپنے معالجین سے دور رکھنے کے بجا ئے روز اول سے ہی بہترین طبی سہولتیں فراہم کی جانی چاہیے تھیں لیکن انتقامی ذہنیت کی بنا پر انھیںایک پرانے کیس چودھری شوگرملز کیس میں جس کی جے آ ئی ٹی بھی تحقیقات کرچکی ہے میں دوبارہ دھر لیا گیا کیونکہ حکومت کے سر پرمولانا فضل الرحمن کا دھرناسوار ہے۔ ایک ایسے شخص کو جو پہلے ہی کوٹ لکھپت جیل میں قید بھگت رہا ہے اسے دوبارہ نیب کی تحویل میں دینے کی تُک سمجھ میں نہیں آتی۔ حکومتی ترجمانوں بالخصوص معاون خصوصی برائے اطلاعات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان اور اٹارنی جنرل انورمنصور مصر ہیں کہ عدالت کا یہ سوال کہ کوئی سزاکی معطلی کی مخالفت کرے گا تو درخواست مسترد کر دیتے ہیںپھر اگر نوازشریف کو کچھ ہو اتو ذمہ دار نیب اور حکومت ہوگی، اس کا حکومت کے پا س کو ئی جواب نہیں کیونکہ زندگی اور موت اللہ تعالیٰ کے ہا تھ میں ہے۔ محترمہ کو گلہ ہے کہ باقی قیدی جو موذی بیماریوں میں مبتلا ہیںعدالتیں یہی رویہ ان کے لیے کیوں اختیار نہیں کرتیں، یقیناً ایسا ہی ہونا چاہیے۔اس ضمن میں حکومت کو قانون سازی بھی کرنی چاہیے تاکہ سب کو ایسی سہولتیں حاصل ہوں۔ لیکن اپوزیشن کے بارے میں ’پکڑو جانے نہ پائے‘ کے ماحول میں یہ کیسے ممکن ہے۔ ادھر نیب کے زیرحراست سابق صدر مملکت آصف علی زرداری کے پلیٹ لیٹس بھی کم ہونے لگے۔ وہ پمز ہسپتال میں گردن اور کمر کی شدید تکلیف میں مبتلا ہیں، ان کے مثانے میں تکلیف کی شکا یا ت بھی مل رہی ہیں۔ سیا سی حلقوں میں ’ڈیل‘ کی بھی بازگشت سنی جا رہی ہے کہ اومنی گروپ کے ذریعے کچھ لو اور کچھ دو ہو رہا ہے۔ آصف زرداری سخت جان واقع ہو ئے ہیں، وہ تمام صعو بتوں کے باوجود اگر ما نگا بھی گیا تو بھی نیب کو بلینک چیک نہیں دیں گے۔ اسلام آباد ہا ئیکورٹ نے ’ڈیل ڈیل‘ کا شور مچانے والوں کا بجا طور پر نوٹس لیا ہے۔ نیب کے چیئرمین جسٹس (ر) جاوید اقبال نے جو میڈیا پراکثر آتے رہتے ہیںاب تازہ واکھیان دیا ہے کہ وہ ملک کو کرپشن فری کرکے دم لیں گے۔ اس قسم کے سبز باغ 1999ء میں جنرل پرویز مشرف کو بھی اقتدار سنبھالنے کے بعد دکھائے گئے تھے، اس وقت سٹیٹ بینک کے گورنر محمد یعقوب نے پرویز مشرف اور ان کے دست راست لیفٹیننٹ جنرل عزیز کو یہ سبق پڑھایا کہ ملک کے بڑے بڑے صنعت کاروں کوالٹا لٹکا کر وصولیاں کرلیں تو پاکستان کے وارے نیارے ہو جا ئیں گے اور پرویز مشرف نے ایسا ہی کیا اور دسمبر 1999ء میں لاہور کے سرور روڈ تھانہ میں چیدہ چیدہ بزنس مینز کو اند رکردیا گیا جن میں نسیم سہگل، اقبال زیڈ احمد اور نوازشریف کے بھائی عباس شریف بھی شامل تھے لیکن بہت جلد پرویز مشرف کو احسا س ہو گیا کہ لوٹی دولت ہو گی لیکن اتنی نہیں جس سے خزانے بھر جا ئیں، لہٰذا یہ برآمدگی ہو بھی جائے تو پاکستان کے مسائل حل نہیں ہونگے۔ اسی بنا پر ایک ماہ بعد انہیں رہاکردیا اور انہی کی مدد سے صنعتوں کو بحال کرنے کی کامیاب کو شش کی۔ یہ بات مقتدر اداروں، عمران خان اور ان کے حواریوں کو جتنی جلد ی سمجھ آ جا ئے اتنا ہی اچھا ہے۔کر پشن ہر معاشرے اور سیاسی نظام میں ہوتی ہے اور پاکستان میں شا ید کچھ زیادہ ہی ہو لیکن نیب کرپشن سے پاک معاشرے کا تریاق نہیں ہے اور نہ ہی نیب کو یہ اختیار ہونا چاہیے کہ وہ سیاستدانوں کو اس حد تک زچ کرے جس سے انتقام کا تاثر ابھر ے۔ شا ہد خاقان عباسی کو جنہیں مبینہ طور پر کال کوٹھڑی میںرکھا گیا ہے ان کا واحد قصور یہ ہے کہ وہ سجدہ سہو کرنے سے انکاری ہیں، لہٰذا نیب صرف صنعت کاروں کے لیے ہی نہیں بلکہ سب کے لیے ناپسندیدہ بن گیا ہے۔ اس ضمن میں نیب قانون میں ترمیم کے مسودے طاق نسیان میں پڑے ہیں جب اپوزیشن کے تما م اہم ارکان اسمبلی نیب کی قید بھگت رہے ہیں اس پر بات چیت کون کرے گا؟۔ مولا نا فضل الرحمن کے لانگ مارچ کی تیاریاں جاری ہیں۔ اسلام آبا د میں جلسہ کرنے کی مشروط اجازت دے دی گئی ہے لیکن ساتھ ہی گرفتاریاں بھی شروع کر دی ہیں جے یو آئی کے مرکزی رہنما مفتی کفایت اللہ کو آمرانہ دور کے سیاہ قانون اند یشہ نقص امن کے تحت گرفتار کر لیا گیا ہے اور مولانا حمد اللہ کی شہریت ہی منسو ح کر دی گئی ہے اور پیمرا نے ان کے ٹیلی ویژن پر آنے پر پابند ی لگا دی ہے۔’’آفرین ہے آفرین‘‘۔ سی این این پر دکھائی گئی ایک رپورٹ میںکہا گیا ہے کہ اس وقت دنیا بھر میں ہنگاموں جلسو ں جلوسوں کی وبا چل پڑی ہے۔ یہ رجحان ہانگ کانگ سے شروع ہوا لیکن آہستہ آہستہ اس قسم کے ہنگامے عراق، لبنان،چلی اور جنوبی امریکہ کے بعض ممالک تک پھیل چکے ہیں۔ حتیٰ کہ اب اقوام متحد ہ کے سیکرٹری جنرل اونتونیو گیوٹریس کو بھی یہ اپیل کرنا پڑی ہے کہ مظاہرین کو گاندھی کے عدم تشدد کے فلسفے کو اپنانا چاہیے۔ ان ممالک میں ہنگاموں کی مختلف وجوہا ت ہیں۔کہیں جمہوری حقوق اور آزادیوں کا معاملہ ہے اورکہیں مہنگائی کا اور کہیں ریاستی تشدد کا۔ پاکستان میں خداکرے ایسانہ ہو لیکن حکمرانوں کو ادراک ہونا چاہیے کہ اگر کسی وجہ سے بھی لوگ سڑکوں پر نکل آئے تو موجودہ صورتحال میں دوبارہ جن کو بوتل میں بند کرنا اتنا آسان نہیں ہوگا۔ وزیراعظم عمران خان نے میاں نوازشریف کی صحت کے حوالے سے بھی جو اعلیٰ ظرفی اور حقیقت پسندی دکھائی اس کی یقیناً وجہ یہ ہے کہ کوئی حکومت نہیں چاہے گی کہ ملک میں حزب اختلاف کے سب سے بڑے لیڈ ر کو جیل میں کچھ ہو کیونکہ پاکستان مصر نہیں ہے جہاں السیسی کے مصر میں پابند سلاسل مرسی کی دل کے دورے سے ہلاکت پر جوں تک نہیں رینگی تھی۔ خان صاحب کوا پنے مجموعی رویئے پر نظرثانی کرنی چاہیے کیونکہ ملکی مسائل محض آرڈیننسز اور سخت گیری سے حل نہیں ہو سکتے۔