آج کی دُنیا بہ ظاہر بہت مہذب ہوچکی ہے اور تہذیب کا سفر جارہی ہے ،مگر یہ دُنیا جنگوں سے بھی نہیں نکل پارہی ،قتل و غارت گری کا سلسلہ جاری ہے ۔اگر دیکھا جائے تو اکیسویں صدی کی شروعات ہی جنگ سے ہوئی تھی ،تب سے اب تک یہ سلسلہ تھمنے میں نہیں آرہا،ابتدا ہی میں چند ایک ممالک پوری طرح جنگوں کی لپیٹ میں آئے اور کسی طور ،وہاں جنگ کے شعلے بجھتے ہوئے پائے نہیں جارہے ۔کوئی دِن نہیں جاتا جب بڑے پیمانے پر انسانوں کے مارنے کے اعلانات نہ کیے جاتے ہوں ۔ایک افسوس ناک پہلو اس صورتِ حال کا یہ بھی ہے کہ مسلم ممالک میں حالات زیادہ خراب ہیں ۔کئی مسلم ممالک محاذجنگ بن چکے ہیں ۔اب اگر اس نئے سال کی بات کی جائے تو اس کے پہلے ہی مہینے میں ایران پر جنگ پوری طرح مسلط ہونے جارہی ہے ۔ گذشتہ برس امریکا کے کچھ اقدامات سے یہ محسوس کیا گیا تھا کہ امریکا جنگوں سے ہاتھ کھینچ رہا ہے ،ایران کے ساتھ معاملات میں جہاں کشیدگی بڑھتی پائی گئی تھی وہاں امریکا کا محتاط اور مذاکرات کی اہمیت پر زور دیتارویہ بھی محسوس کیا گیا تھا ،مگر نئے برس کا سورج کیا طلوع ہوا کہ امریکا نے اپنے جنگوں سے چھٹکارے کے تاثّر کو جھٹک کر رکھ دیا ،جو گزشتہ برس قائم ہوا تھا۔آپ کو یاد ہو گا کہ گزشتہ برس کے ابتدائی مہینوں میںایک موقع پر امریکی سیکریٹری خارجہ مائیک پومپیو نے بیان دیا تھا ، جوامریکا کی جنگوں سے متعلق پالیسی میں تبدیلی کو پیش کرتا تھا ۔اُن کے مطابق امریکا دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے پائیدار حکمتِ عملی پر غور کر چکا ہے اور ایک مدت سے جاری جنگوں سے ہاتھ کھینچ لینا چاہتا ہے ۔ امریکی سیکریٹری خارجہ نے اُس وقت اپنے بیان میں واضح طور پر کہاتھا کہ صدر ٹرمپ طویل جنگوں سے امریکاکو باہر نکالنا چاہتے ہیں ،جس کی ایک مثال افغانستان میں سترہ سال سے جاری جنگ ہے ۔واضح رہے کہ گزشتہ برس امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ کے دوبیانات نے امریکی پالیسی میں تبدیلی کا ایک طرح سے اعلان کر دیا تھا ،جب اُنہوں نے شام اور افغانستان سے امریکی فوج کے واپسی کے بیانات دیے تھے۔یہ بیانات پس منظر کو ملحوظ رکھ کر دیے گئے تھے، امریکا ایک عرصہ سے یہ سمجھ رہا تھا کہ افغانستا ن اور عراق میں جنگ اُس کی غلطی تھی ۔اس غلطی کا اعتراف سابق امریکی صدر اُوبامہ اور اُس کی انتظامیہ کربھی چکی تھی۔ اُوبامہ دَورِ حکومت کے وزیرِ خارجہ جان کیری نے اعتراف کیا تھا کہ’’ عراق جنگ امریکا کی سنگین غلطی تھی ،جس کا خمیازہ امریکا بھگت رہا ہے‘‘جان کیری نے یہ بات ایک چینی خبر ایجنسی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہی تھی، معروف امریکی سفارت کارنے یہ انکشاف بھی کیا تھا کہ اُنہوں نے سابق صدر بش کے دور میں ہی اس فیصلے کو غلط قرار دیا تھا ۔ اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ خطے کے بہت سے مسائل عراق جنگ کی وجہ سے ہیں ،جن سے نمٹنے کے لیے امریکا کوشش کررہا ہے ۔اس ضمن میں دلچسپ امر یہ بھی تھا کہ اُس وقت کے امریکی صدر اُوبامہ خود عراق جنگ کو اپنے ملک کے لیے سب سے نقصان دہ کہہ چکے تھے۔اُن کا ماننا تھا کہ عراق پر حملے کے برے نتائج نکلے ہیں ۔دوسری طرف اُس وقت کے امریکی وزیرِ دفاع چیک ہیگل نے کہا تھا کہ ’’امریکی عوام عراق اور افغانستان میں کم ازکم بارہ سال سے جاری جنگ سے تنگ آچکے ہیں ۔ امریکا کو اپنی تزویراتی ترجیحات پر نظر ثانی کرنا ہوگی۔امریکاکو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فوج پر انحصار ختم کرنا ہوگا ‘‘اُس وقت چیک ہیگل نے اُوبامہ انتظامیہ کو بتایا تھا کہ’’ حکومت دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فوج سے ہٹ کر طاقت کے دیگر ذرائع استعمال کرے‘‘لیکن امریکا نے جنگوں کے نقصانات کا اعتراف کرنے کے باوجود اور جنگوں سے متعلق اپنی پالیسی میں تبدیلی کا عندیہ دے کربھی ،اپنے سمیت دُنیا کو ایک بارپھر ایک نہ ختم ہونے والی جنگ کی طرف دھکیل دیا ہے۔اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ ایران کی قدس فورس کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی کے جاں بحق ہونے کے بعد مشرق وسطیٰ میں ایک اور تباہ کن جنگ کے حالات پوری طرح پیدا ہو چکے ہیں ۔امریکی صدر ایران کے خلاف فیصلہ کن معرکہ کی طرف بڑھنا چاہتے ہیں ،مگر امریکا اور ایران کے مابین جنگ کے راستے میں امریکی سینیٹ کی کوششیں فی الوقت رکاوٹ ہیں۔یہ اَمر خوش آئند ہے کہ امریکی سینیٹ ڈونلڈ ٹرمپ کو ایران کے خلاف جنگ سے روکنے کی مساعی کررہی ہے ۔اس ساری صورتِ حال کے تناظر میں امریکی سینیٹرز نے ایک ایسا بِل متعارف کروانے پر زور دیا ہے ،جس کی رُو سے امریکی صدر کو جنگ کا فیصلہ کرنے کے لیے کانگریس سے منظوری لینا ہوگی۔امریکی سینیٹرز نے یہ بیان بھی دیا ہے کہ امریکا مشرقِ وسطیٰ میں ایسے حالات پیدا کررہا ہے ،جو ایک بڑی جنگ کا ابتدائیہ ٹھہریں گے۔اُن کی طرف سے جنگ کی ہولناکی پر بھی بات کی جارہی ہے ،یہ تشویش امریکا میں موجود ہے کہ ایران کے ساتھ جنگ میں امریکا سمیت دُنیا معاشی تنزلی کا شکار ہوجائے گی،ہزاروں لوگ بے گھر ہوں جائیں گے اور ایک نہ ختم ہونے والا تنازعہ اُٹھے گا۔لیکن امریکی صدر ایران سے جنگ کے معاملے میں کسی کو شش کو خاطر میں لاتے ہوئے دکھائی نہیں دے رہے،یہی وجہ ہے کہ امریکا کی جانب سے گذشتہ روز مزید امریکی فوجی مشرقِ وسطیٰ بھیجنے کا اعلان کیا گیا اورساتھ ہی ایک اور فضائی حملہ بھی کیا گیا ۔یہ بات بھی بڑی حیران کن ہے کہ ایک طرف ڈونلڈ ٹرمپ ایران پر چڑھ دوڑنے کی کوشش میں ہیں اور ایک طرف کہتے ہیں کہ قاسم سلیمانی کو مارنے کا فیصلہ’’جنگ روکنے‘‘ کے لیے کیا گیا ہے ۔ حالانکہ معاملہ اس کے اُلٹ ہے ،قاسم سلیمانی پر حملہ جنگ روکنے کے لیے نہیں باقاعدہ جنگ چھیڑنے کے لیے کیا گیا ہے۔ امریکا ایران کشیدگی کے تناظر میں خطے کا استحکام خطرے میں پڑگیا ہے ،یہ کشیدگی کئی ممالک کو ہر حوالے سے متاثر کرے گی۔یہ دوملکوں کی جنگ نہیں پورے خطے بلکہ پوری دُنیا کی جنگ بن سکتی ہے۔اس وقت ایران کی پوزیشن ہر لحاظ سے مشکل میں پڑچکی ہے۔اگر ایران کی جانب سے قاسم سلیمانی پر حملے کا جواب نہیں دیا جاتا تو امریکا ،اس کو اپنی برتری تصور کرے گااور اگر ایران جوابی حملے کی طرف بڑھتا ہے تو ایک بڑی جنگ چھڑجائے گی۔ایک ایسی جنگ جو ایران کو خدانخواستہ عراق بناسکتی ہے اور امریکا کو کئی برس بعد اس کا احساس ہو گاکہ ایران جنگ ،امریکا کی سنگین غلطی تھی۔مگر اُ س وقت تک لاکھوں لوگ لقمہ اجل بن چکے ہوں گے۔جنگ کے شعلے انسانی تہذیب کا چہرہ مکمل طورپر بگاڑ چکے ہوںگے۔