میرے ماموں حضر ت مولانا احسان اللہ دھریجہ گزشتہ روز اللہ کو پیارے ہوگئے ، ممبر قومی اسمبلی شیخ فیاض الدین نے دھریجہ نگر میں تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے بجا اور درست کہا کہ مرحوم معروف عالم دین ہونے کے ساتھ ساتھ انسانیت سے پیار کرنے والے بہت اچھے دوست تھے ، ان کی وفات سے جو خلا ء پیدا ہوا ہے وہ مدتوں تک پُر نہ ہوسکے گا ، مولانا احسان اللہ دھریجہ 1947ء میں معروف عالم دین حضرت مولانا یار محمد دھریجہ کے گھر پیدا ہوئے ،دین کی تعلیم اپنے والد محترم سے حاصل کی اور عرصہ پچاس سال جامع مسجد دھریجہ نگر میں خطابت کے فرائض سرانجام دیے اور ان کے سینکڑوں شاگر د وسیب میں علم کی روشی پھیلا رہے ہیں ، اپنے والد کی طرح مولانا احسان اللہ دھریجہ کا روحانی تعلق درگاہ عالیہ دین پور شریف کے ساتھ تھا ، مرحوم نے ہمیشہ لوگوں کو انسانیت کا درس دیا ، آج مرحوم ہمارے درمیان موجود نہیں مگر وہ اور انکی باتیں بہت یاد آرہی ہیں ، خدا وند کریم ان کی مغفرت فرمائے۔ اپنے ماموں مولانا احسان اللہ دھریجہ کی سوچ اور فلسفہ کو دیکھتے ہوئے میں ایک کتا ب کا ذکر کرونگا جس کا نام ’’انسانیت پہچان کی دہلیز پر‘‘ ہے جس کے مصنف علامہ طارق ؒ ہیں ، کتاب کا آغاز قرآن مجید فرقان حمید کی اس آیت سے ہوتا ہے ۔ ترجمہ:’’ جو لوگ استحصال اور جبر کے ہاتھوں ( اپنے ہی دیس میں ) بے بس و کمزور بنائے گئے ، ہم چاہتے ہیں کہ انہیں اُبھار کر پیشوائی عطا کریں اور ( اپنی ) سر زمین کا وارث بنائیں ۔ ‘‘ ( القصص۔ 5 ) ۔ کتاب کا انتساب سرکار رسالت مآب کے نام سے اس طرح شروع ہوتا ہے ’’ انتساب ‘ محمد الرسول اللہ ؐ کے نام جنہوں نے کائنات بشری کو جہالت اور نکارت کی دلدل سے نکال کر تعارف کی ڈگر پر چلایا ۔جنہوں نے انسان جو کہ نسب اور قومیت کے بغیر ’’ نامعلوم ‘‘ اور مجہول تھا اسے قومیت اور زبان کے احاطے میں لا کر معلوم اور متعارف بنایا ۔ جنہوں نے مہاجرین اور انصار میں ضابطۂ اخوت قائم کر کے مہاجروں کو احساس دلایا کہ ’’ جذبہ و تحلیل ‘‘ سے ہی ہم آہنگی اور مفاہمت کے جذبات پروان چڑھ سکتے ہیں ۔ جنہوں نے انسانی نفسیات، ضروریات اور اخلاقیات کو مدنظر رکھتے ہوئے مدینہ کی طرف مہاجرین کی بڑھتی ہوئی یلغار کو ’’ لا ہجرۃ بعد الفتح ‘‘ کہہ کر ہمیشہ کیلئے مقامی ملک / علاقہ پر ناروا بوجھ کا خاتمہ فرما دیا ۔ جنہوں نے ’’ حب الوطنی من الایمان ‘‘ کا پیغام دیکر وطن سے محبت اور وابستگی کے فطری جذبے کو ایک نئی جِلا بخشی ۔ ’’ قومیت اور زبان کے بابت قرآ ن کی مجموعی پالیسی‘‘ کے عنوان سے مصنف لکھتے ہیں کہ دنیا میں ہر چیز اپنے وصف سے پہچانی جاتی ہے۔ بغیر وصف کے نہ شخصیت تکمیل پاتی ہے اور نہ ہی قانونِ فطرت نے کسی کو ’’بے وصف ‘‘ پیدا کیا ہے۔ اس طرح وصف تخلیق کی نیچر میں شامل ہو جاتاہے۔ اب جہاں بھی وصف کو حذف کر دیا جائیگا وہاں تخلیق کا کمال ختم ہو کر ’’ نقص ‘‘ کا روپ دھار لے گا ۔ پرندے کا وصف اڑنا اور بہت سی دیگر مخلوقات کا وصف چلنا، تیرنا اور رینگنا ہے ۔ اس قاعدے کی رو سے انسان کے بھی کچھ اوصاف ہیں جو اس کے خمیر میں شامل اور اس کی شخصیت تکمیل کے اساسی عنصر ہیں ۔اس میں ’’ قوم ‘‘ بھی شامل ہے ، ’’ قومیت ‘‘ بھی ہے اور ’’لسانیت ‘‘ بھی ۔ کوئی بھی انسان بغیر قوم و قومیت کے کوئی بھی قوم بغیر زبان کے متعارف نہیں ہوئی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے ترجمہ: ’’ ہم نے جو بھی رسول بھیجا اس نے اپنی ہی قوم کی زبان میں بات کی ( سورہ ابراہیم 4 ) ‘‘ ۔ یعنی رسول وہی بنایا گیا جس کی قوم اور قومیت بھی تھی اور زبان بھی ۔ گو کہ وہ ابھی ایمان نہ لائے تھے مگر پھر بھی قوم تھے ۔ قوم پرستی اور نسل پرستی کو ایک دوسرے سے الگ الگ کرکے دیکھنے کی ضرورت ہے، اگر کوئی شخص اپنے وسیب کے حقوق کی بات کرتا ہے تو اُسے شاباش دینی چاہئے، اُس کے خلاف فتوے جاری نہیں ہونے چاہئیں کہ اب فتویٰ فروشی کا دَور گزر چکا، خطہ، زبان، ثقافت یہ فطرت کے خوبصورت مظاہر ہیں، فطرت کے رنگوں سے اور اُس کی خوشبو سے پیار کرنا چاہئے، آج زبان سائنس کا درجہ حاصل کر چکی ہے، یورپ میں زبان کو انسان اور انسان کو زبان کا نام دیا جاتا ہے، اسے محبت کے اظہار کا وسیلہ ہونا چاہئے، جو لوگ اسے تعصب کا ہتھیار بناتے ہیں اور مذہبی لبادے اوڑھ کر دوسروں کے خلاف فتوے بازی کرتے ہیں دراصل وہ دوسروں کی زبان و ثقافت کیخلاف اپنے اندر کا تعصب باہر نکال رہے ہوتے ہیں جبکہ تمام زبانیں خالق کائنات کی خوبصورت تخلیق ہیں، ان سے پیار کرنا چاہئے۔ کچھ لوگ نسل پرستی اور قوم پرستی کو ایک دوسرے کے ساتھ گڈمڈ کر دیتے ہیں حالانکہ نسل الگ چیز ہے اور قوم الگ، نسل کا تعلق جینز سے ہے اور قوم کا تعلق دھرتی سے، مختلف قوموں کے لوگ جہاں جہاں گئے اُسی قوم کا حصہ بن گئے جبکہ نسلی طور پر وہ اپنا ناطہ اپنے سابقہ حسب و نسب سے جوڑتے ہیں، جیسا کہ جی ایم سید نسلی طور پر عرب ہیں جبکہ جغرافیہ کے حوالے سے وہ سندھی قوم پرست ٹھہرے، کچھ لوگ ایم کیو ایم کے الطاف حسین کو قوم پرست کا نام دیتے ہیں حالانکہ پوری دنیا کی تاریخ کا مطالعہ کرکے دیکھیں مہاجر کوئی قوم نہیں ہے، الطاف حسین نے قوم پرستوں کے مقابلے میں خود کو حق پرست کہلوایا، کچھ لوگ سرائیکی وسیب کے حقوق اور صوبے کی تحریک کو سبوتاژ کرنے کیلئے یہاں تک کہہ دیتے ہیں کہ سرائیکی تحریک کا کوئی وجود نہیں حالانکہ اُن کا یہ کہنا بھی دراصل سرائیکی تحریک کے وجود کو ظاہر کر رہا ہوتا ہے۔دھرتی اور اُس کی ثقافت کا تعلق فطرت سے ہے، فطری طور پر جو لوگ اپنی دھرتی، اپنے خطے اور اس کی ثقافت سے محبت کرتے ہیں وہ عظیم لوگ ہوتے ہیں، البتہ نسلی تفاخر و تعصب نا پسندیدہ ہے۔ آخر میں ان تمام احباب کا شکرگزارہوں جو میرے ماموں حضرت مولانا احسان اللہ دھریجہ کی وفات پر تعزیت کیلئے دھریجہ نگر تشریف لائے اور سوشل میڈیا کے ذریعے ہمیں اپنی دعائوں میں یاد رکھا۔ماموں جان کی روح کو ایصال ثواب کیلئے 24فروری بروز پیر بوقت صبح 8بجے فاتحہ خوانی اور 10بجے دعا ہوگی۔احباب سے گزارش ہے کہ شرکت فرماکر ثواب دارین حاصل کریں۔