کرونا نے تباہی مچائی ہوئی ہے اگرچہ پاکستان قدرے محفوظ ہے لیکن ہم بحیثیت قوم تلے ہوئے ہیں کہ کسی نہ کسی صورت یہاں پر بھی خدانخواستہ سپین، اٹلی اور امریکہ جیسی صورتحال پیدا ہو جائے۔ اس میں سب سے اہم لاک ڈائون کے بعد مکمل احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہوئے صرف انتہائی ضرورت میں گھر سے نکلنا ہے۔ لیکن ہمارے ہاں لوگوں نے اسکو فرصت کا لمحہ جانتے ہوئے چھٹیوں کا ما حول بنا رکھا ہے۔ٹولیوں کی صورت میں لوگ پھر رہے ہیںاور جہاں بس چلے ہجوم بنانے میںکوئی کسر نہیں چھوڑ رہے۔ جن شہروں میں جس میں اسلام آباد شامل ہے لاک ڈائون کے بعد احتیاط کی ہے وہاں کرونا کا پھیلائو بہت کم رفتار سے ہے۔ہم بحیثیت قوم ایک خاص مزاج رکھتے ہیں جس میں ہمیں شاید شروع سے ہی باور کرایا جاتا ہے کہ نتائج کی پرواہ کئے بغیر کچھ بھی کر گزرو۔ انتظامیہ جس کی ذمہ داری ہے کہ وہ لاک ڈائون پر عملدر آمد کرائے انکی صورت حا ل یہ ہے کہ وہ سرکاری ڈیوٹی میں جتے ہوئے ہیں جس میں پروٹوکول سے لیکر جرائم کی روک تھام اور دیگر انتظامی امور ہیں اسکے ساتھ ساتھ لاک ڈائون پر مکمل عملدرآمد کرانا جس میں براہ راست آپ عوام سے الجھ رہے ہوتے ہیں اور اسکے نتیجے میں بد مزگی بھی پیدا ہو رہی ہے کیونکہ ہم کسی ڈسپلن کا مزاجاً پابند ہونا پسند نہیں کرتے۔سب سے مشکل مرحلہ انتظامیہ اور پولیس کے لئے مساجد میں بڑے اجتماع کو روکنا ہے۔ اسکے نتیجے میں انکو جس قسم کے غیض و غضب کا سامنا ہے ہم اسکے نظارے ملک میں دہائیوں سے دیکھ رہے ہیں۔ ایک سیدھے سادے معاملے کو اسلام اور ایمان پر حملہ قرار دیکر آپ کسی حد تک بھی چلے جائو بہت مدبرّ علماء اور عالم فاضل لوگ اسکی حمایت میں دلائل دیتے نظر آتے ہیں۔کرونا کی وباء کو روکنے کے لئے دنیا بھر میں اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ سماجی فاصلہ اس مرض کے پھیلائو کو روکنے کے لئے بنیادی عمل ہے۔ اگر آپ سماجی فاصلے رکھنے میں ناکام ہیں تو اس مرض کو روکنے میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے اور اسکا پھیلائو جس رفتار سے ہو رہا ہے ہم اپنی ضد میں اپنے پرائے، بزرگ، بچے یعنی اپنے سب پیاروں کو اس مرض کا شکارکر سکتے ہیں۔ اسکے علاج کے دریافت تک اسکے پھیلائو کو روکنے کا واحد اور مستند طریقہ سماجی فاصلہ ہے۔ ایک طر ف حکومت اس مرض میں مبتلا مریضوں کیعلاج معالجے کے لئے ضروری سامان دنیا بھر سے اکٹھا کرنے میں لگی ہوئی ہے کیونکہ بد قسمتی سے ہمارے ہاں صحت اور تعلیم کبھی حکمرانوں کی ترجیح نہیں رہی۔ اسی طرح ان مسیحائوں کے لئے ضروری حفاظتی سامان بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا مریضوں کی صحت جو فرنٹ لائن پر لڑ رہے ہیں۔اسکے ساتھ ساتھ اس صورتحال سے پیدا ہونے والی معاشی مشکلات جس کا شکار ہر طبقہ ہو رہا اس کاحل نکالنا بھی سرکار کی ذمہ داری ہے۔ اسکے لئے بلا شبہ احساس پروگرام کے ذریعے جو اقدامات کئے گئے ہیں انہوں نے بہت سے سفید پوشوں کا بھرم رکھنے میں بہت مدد کی ہے۔ اسی طرح سے معاشی شعبوں میں سرکار کی طرف سے بہت اہم فیصلے کئے گئے جسکا نتیجہ سٹیٹ بینک کی طرف سے سود کی شرح میں کمی کی صورت میں نکلا ہے، ڈالر نیچے آنا شروع ہو گیا ہے اور سٹاک ایکسچینج بھی بہتری کی طرف چل پڑی ہے۔دنیا نے وزیر اعظم عمران خان کی اپیل پر قرضوں کی ادائیگی میں التواء کا جو فیصلہ کیا ہے اس سے پاکستان سمیت تمام کم ترقی یافتہ اور غریب ملکوں کو بہت مالی فائدہ پہنچے گا۔ جہاں ہم بیماری کے خلاف بہت مئوثر طریقے سے لڑ رہے ہیں اور معاشی میدان میں بھی اس بد ترین وقت میں بہتری کی طرف بڑھ رہے ہیں ہمارے لوگ لاک ڈائون پر عملدرآمد کرنے کو تیار نہیں اور ہمارے علماء کرام نے ایک نئی بحث کا آغاز کر دیا ہے اور فتوے دینے شروع کر دیئے ہیں ۔ کئی علماء تو کرونا کی وجہ سے مسجدوں میں اجتماعات کو محدود کرنے کو یہودو ہنود کی سازش قرار دے رہے ہیں ۔ ان کی تقاریر سنیں تو وہ کہتے ہیں کہ یہ مسجدوں کی تالا بندی کی سازش ہے۔ انتہائی ادب کے ساتھ ان علماء سے گزارش ہے کہ گزشتہ دو دہائیوں سے جب سے بر صغیر میں فرقہ واریت کی بنیاد پڑی ہے، جزوی تالا بندی تو اسی وقت شروع ہو گئی تھی۔ ایک مسلک کی مسجد میں کسی دوسرے مسلک کے مسلمان کا داخلہ عرصہ دراز سے بند ہے اوریہ سوچ اس قدر گہری ہو گئی ہے کہ وہ علماء جو ہر مسلک کے لوگوں کو گلے لگانے کو تیار ہیں لیکن پیروکار کسی دوسرے مسلک کے عالم اور مسجد کو احترام دینے کو تیار نہیں ہیں۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ کسی سرکاری یا غیر سرکاری ادارے نے یہ نہیں کہا کہ مساجد کو تالے لگا دو۔بار بار ایک ہی بات کی جا رہی ہے کہ اس قدرتی آفت کو روکنے کا اس وقت واحد اور موئثر حل سماجی فاصلہ ہے، بھلے آپ مسجد میں ہوں، بازار میں ہوں ، دفتر یا گھر میں ہوں سماجی فاصلہ برقرار رکھیں۔مساجد میں نماز کی ادائیگی کے لئے طریقہ کار طے ہونے کے باوجود اس عملدرآمد ندارد۔ پورے عالم اسلام میں سماجی فاصلے کے اصول پر مساجد میں عملدرآمد ہو رہا ہے۔ دنیا کی تاریخ میں شاید صدیوں بعد یہ موقع آیا کہ خانہ کعبہ میں مطاف بند ہوا اور مسجد نبوی ﷺ میں سلسلہ معطل ہوا۔ کہیں یہ نہیں سوچا گیا کہ یہ یہودو ہنود کی سازش ہے۔سب نے اسے انسانی جانوں کے تحفظ کے لئے اہم جانا اور سماجی فاصلے برقرار رکھنے میں جہاں کہیں بھی دنیا بھر میں ناکامی کا خدشہ تھا انہوں ے ایسے تمام مراکز کو وقتی طور پر بند کرنے میں عافیت جانی۔ ہمارے ہاں مذہب کے نام پر سیاست کا انداز نرالا ہے۔ کسی کو انسانی جانوں کی فکر نہیں ہے کسی کو اس امت کے اتفاق رائے کی فکر نہیں ہے کہ پوری مسلم امّہ سماجی فاصلے کے لئے ، خانہ کعبہ، مسجد نبویﷺ، مساجد میں اقدامات کر رہی ہے لیکن یہاں میں نہ مانوں کی رٹ ہے۔اگر آپ پوری مسلم دنیا کی رائے کا بھی احترام نہیں کر رہے تو پھر آپ ہی اپنی ادائوں پہ ذرا غور کریں۔